کوئٹہ میں پولیس تربیتی مرکز پہ ہوئے حملے کے فوری بعد ملٹری اسٹبلشمنٹ ، وفاقی و صوبائی سویلین سیاسی حکومتی اسٹبلشمنٹ اور دائیں بازو کی دیوبندی اور سلفی مذہبی جماعتوں کی جانب سے یہ مؤقف سامنے آیا کہ اس حملے کا تعلق پاک-چائنہ اقتصادی راہداری سے ہے۔اور اسے لشکر جھنگوی کے ساتھ بھی جوڑا گیا۔جبکہ اس حملے کی ذمہ داری جماعت الاحرار ، داعش نے بھی قبول کرلی ہے۔
نجانے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ نواز کی سویلین حکومت اور ان دونوں کی حامی مذہبی دیوبندی و سلفی جماعتوں کی جانب سے بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی بڑی بڑی کاروائیوں کو سی پیک سے جوڑنے اور اس کے پیچھے را اور افغانستان انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہاتھ تلاش کرنے یا اس طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کے پیچھے مقصد ملٹری اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ نواز کے حمایت یافتہ جہادیوں، تکفیریوں سمیت اپنے نام نہاد تزویراتی اثاثوں سے توجہ ہٹانا ہے اور اس تنقید کو غیر مؤثر کرنا ہے جو پاکستان کے اندر اور باہر سے پاکستانی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور مسلم لیگ نواز کی حکومت پہ ہورہی ہے۔
بلوچ حال ڈاٹ کوم پہ بلوچستان کے مؤقر صحافی اور تجزیہ کار ملک سراج اکبّر نے سوموار کی رات کو کوئٹہ پولیس تربیتی مرکز پہ دہشت گردوں کے حملے کی انگلش پریس میں رپورٹنگ کے پیٹرن پہ روشنی ڈالتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان کے تمام بڑے انگریزی روزناموں نے اس واقعے کو سی پیک سے لنک کیا ہے، اگرچہ انھوں نے کھلے عام را کا نام نہیں لیا لیکن اس واقعے کو سی پیک سے جوڑنا یہ بتارہا ہے کہ انھوں نے اپنی رپورٹنگ میں سی پیک سے جڑے سرمایہ داروں کی سائیکی کو فالو کیا ہے اور اس حوالے سے وہ سیکیورٹی فورسز پہ مزید خرچ کرنے کا دباؤ بھی بڑھارہے ہیں۔لیکن کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی ایک کرانیکل اسٹڈی آپ کو یہ بتائے گی کہ کوئٹہ میں دہشت گردی سی پیک سے پہلے بھی ہورہی تھی اور دہشت گردی کے تمام بڑے واقعات میں آخر کار بلوچستان میں برسرپیکار سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت اور اس کے ذیلی گروہوں کا ہی ہاتھ نکلا ۔اور یہ سب کسی نہ کسی طرح ایک طرف تو براہ راست یا بالواسطہ سٹریٹجیک ڈیپتھ / تزویراتی گہرائی کے آف شوٹ ہیں۔کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان میں چاہے وہ بلوچ بیلٹ ہو یا پشتون بیلٹ 80ء کی دھائی سے جہاد ازم اور تکفیر ازم دونوں کو ہی ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اور اسی اسٹبلشمنٹ کا گڈ بوائے نواز شریف فروغ دیتے رہے ہیں۔کوئٹہ میں بار بار دہشت گردی کے واقعات کے رونما ہونے کے پیچھے ان نام نہاد جہادی پراکسیوں کا ہاتھ ہے جن کو افغانستان پہ امریکی حملے کے وقت پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ نے کوئٹہ میں منظم ہونے کی سہولت فراہم کی تھی یعنی تحریک طالبان افغانستان ، حقانی نیٹ ورک اور ان کی آڑ میں وہاں پہ سپاہ صحابہ پاکستان کے دہشت گردوں کو بھی پنپنے کا موقعہ مل گیا تھا۔دائیں بازو کے دیوبندی تکفیری عسکریت پسند ،خود کو غیر تکفیری مجاہد کہنے والے لشکر طیبہ / جماعت دعوۃ، جماعت اسلامی ، جمعیت علمائے اسلام نام نہاد نظریاتی گروپ یہ سب کے سب بلوچ قوم کے زیادہ انقلابی اور زیادہ مزاحمتی سیکشن کے لئے یہ موت کے ہرکارے ہیں اور ان کے خلاف مخبری کے ایک بڑے وسیع و عریض نیٹ ورک کا یہ حصّہ بھی ہیں۔انہی کے اندر سے پیدا ہونے والے تکفیری دہشت گرد بلوچستان سمیت چاروں صوبوں میں دہشت گردی کی وارداتوں کے ذمہ دار ہیں۔تکفیریوں کا سیاسی فیس اہلسنت والجماعت /اے ایس ڈبلیو جے کے بلوچستان چیپٹر کا سربراہ رمضان مینگل ملٹری اور سویلین دونوں اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کا تارہ ہے۔اور وہ آزادانہ گھوم رہا ہے اور اس کی شیعہ ، صوفی سنّی ، کرسچن ، ہندؤ ، احمدی دشمنی کو سب ہی چھپارہے ہیں ،اور اسی بلوچستان میں جماعت دعوۃ کا وسیع نیٹ ورک بھی سب کی نظروں سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بلوچستان کے اندر دہشت گردی کا منبع اور بلوچستان کے اندر شیعہ ہزارہ ، صوفی سنّی ، ذکری ، ریاستی سویلین اداروں ، وکلاء ، اساتذہ اور قوم پرست طلباء، دانشوروں ، صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ ، خود کش بم دھماکوں میں ملوث گروپوں کا تعلق یا تو تکفیری دیوبندی فاشسٹ گروپوں سے ملے گا یا پھر جماعت دعوۃ سے اور ان میں سے کئی گروپوں نے تحریک طالبان افغانستان کے نیٹ ورک میں پناہ لے رکھی ہے۔ اور یہی بلوچ معاشرے میں مذہبی جنونیت ، فرقہ واریت کو پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔اور یہ سب کے سب ملٹری اسٹبلشمنٹ ، دائیں بازو کی طاقتور سیاسی جماعتوں جیسے مسلم لیگ نواز کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان کا سی پیک سے یا بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار سے کوئی اختلاف نہیں ہے ۔اور ان گروپوں نے ایک بار بھی کبھی ہندوستان یا افغانستان کی حکومتوں سے اپنی محبت یا نیاز مندی کا ذکر نہیں کیا ہے۔
یہ گروپ آج تک بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کسی بھی کاروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے سی پیک سمیت ریاست کے میگا ترقیاتی پروجیکٹس کے خلاف ایک فقرہ بھی سامنے لیکر نہیں آئے اور انھوں نے بلوچ سرگرم لوگوں کے خلاف ہونے والی کسی بھی فوجی کاروائی کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی اپنی کسی کاروائی کی ای میل ارسال کرتے ہوئے یہ کہا کہ ان کی کاروائی بلوچوں پہ فلاں ظالمانہ کاروائی کا جواب ہے تو پھر پاکستان کی منتخب اور غیر منتخب ہئیت مقتدرہ دونوں اسے زبردستی سی پیک ، راسے جوڑنے پہ مصر کیوں ہیں؟ آج تک پاکستانی حکام نے اس بات کے ٹھوس ثبوت بھی فراہم نہیں کئے کہ فلاں نام نہاد جہادی یا تکفیری گروپ کا تعلق را یا افغان انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ سے ہے، کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی کی بڑی کاروائیوں کے بارے میں ریاست کی ہئیت مقتدرہ ” بلیم شفٹنگ ” کی پالیسی پہ عمل پیرا ہے اور یہ دہشت گردی بارے رائے عامہ کو کنفیوژ کرنے اور الجھانے کی پالیسی اختیار کئے ہوئے ہے ؟
چوہدری نثار علی خان وفاقی وزیر داخلہ ہوکر دفاع کونسل پاکستان کی قیادت سے ملاقات کرتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے کرتے ہیں کہ اس کونسل کی رکن دو جماعتیں کالعدم ہیں اور اس کے ارکان دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں اور ان کے ساتھ فوٹو سیشن ہوتا ہے اور پھر وہ فوٹوز پورے ميڈیا پہ آتے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn