Qalamkar Website Header Image

ہم پہلے عورت ہیں، پھر کچھ اور – سائرہ فاروق

تھپڑ مارنا جائز ہے یا ناجائز، مرد کا عورت کو مارنا، یا عورت کا مردکو زندہ
درگور کرنا،بحث یہ نہیں ہے ـ بلکہ سوال ایک انسان کی عزت نفس کا ہےـ عورت یا مرد کی درجہ بندی سے قطع نظر، جسمانی ایذا پہنچانا قابل مذمت جرم ہے۔مگر سوال یہ ہےکہ کیا ایک انسان کی عزت نفس کو لمبی ہیل کے نیچے روندا جانا ،قابل تحسین فعل ہے؟
مغربی تہذیب زدہ بد اخلاق خواتین کی طرح رپورٹنگ کرنا ہی عزم عالیشان ہے؟ کیا یہی صحافتی معیار ہے کہ عورت ہو یا مرد تمام اخلاقی حدود و قیود کا جنازہ نکال کر مائیک اور کیمرے کی طاقت کے نشے میں مخمور فرعون بن جائیں؟
سکیورٹی کے لئے کھڑے اہلکار جنکی ماہانہ تنخواہ بارہ ہزار سے پندرہ ہزار ہوتی ہے ،صبح سات سے نو بجے تک مسلسل کھڑے رہتے ہیں ـ انھیں نیلی پیلی صحافت کے غازہ اور پوڈر میں لپٹی کوئی خاتون رپورٹر کیمرے کے سامنے لا کر "اوئے” کر کے مخاطب کر تے ہوئے، اس کی ماں بہن ایک کر تے ہوئے، جب تھپڑ کھاتی ہے تو حقوق نسواں کی علمبردارنیاں فوراً اٹھ کھڑی ہوتی ہیں ـ
کئی بار یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد،عورت ہونے کے ناطےپوری ایمانداری سے کہوں گی کہ غلطی میں پہل خاتون رپورٹر نےکی ـ اگر اس کی جگہ لیڈی گارڈ بھی ہوتی تو یقیناً حالات اس سے بھی زیادہ سنگین ہوتےـ گو ہاتھ اٹھانا غلط فعل ہے مگر عورت ذات کو بھی اپنی حد پار نہیں کرنی چاہئیے ـ
مائیک اور کیمرے کی پاور میں عورتیں یہ سوچنا کیوں چھوڑ دیتی ہیں کہ ہم ڈاکٹر، انجینئر،صحافی بعد میں اور عورت پہلے ہیں ہماری ناموس ہم سے بھی زیادہ مقدم ہے۔ ہم جب باہر نکلتی ہیں تو اپنی عزت کو اپنے ساتھ لے کر نکلتی ہیں۔ بس یہیں ہمیں سمجھوتا نہیں کرنا اور پھر آپ اپنی بہادری دیکھیں کہ جس طمطراق سے آپ نے ایک مرد کو للکارا، اسکے وار کو روکنے کی آپ کے پاس نہ ٹیکنیک تھی نہ پاور ـ کتنی بدقسمتی ہے کہ عورت گھر میں پٹنے کے بعد اب باہر کے مردوں سے بھی پٹنے لگی ہے ۔
یہاں اہم ترہن سوال یہ ہے کہ آخر رپورٹنگ کے نرغے میں نادرہ کے افسران کیوں نہیں آئے؟ جن کے بروقت کام نہ کرنے کی وجہ سے ہماری مائیں،بہنیں تین دن سے اتنی لمبی قطاریں لگائے بےبسی کی تصویر بنی کھڑی تھیں؟کیوں میڈیا نے اے -سی کی ٹھنڈک میں کافی کی چسکیاں لیتے افسر سے نہیں پوچھا کہ آپ کے ادارے میں اتنی بے حسی،اتنی کرپشن کیوں ہے؟ وہ اندر جا کر پوچھنے کی سکت تو نہیں رکھتی تھی ـ مگر اُس غریب کی عزت دو کوڑی کی کر دی کہ جس تک اس کی رسائی ممکن ہے ـ
اگر اس fc گارڈ کی جگہ کسی وڈیرے یا چودھری کا بیٹا ہوتا تو کیا اس کی رپورٹ درج کروائی جاتی؟ کیا تب بھی یہ خبر میڈیا کی پہلی شہ سرخی بن پاتی؟ ایک تو بحیثیت پروفیشن وہ گارڈ، اور اس پر ستم کہ اس کا باپ کوئی چودھری یا وڈیرا نہیں ـ لہذا اس پر شہ سرخیاں آسانی سے بن گئیں ـ

یہ بھی پڑھئے:  میں ، ماں اور مدرز ڈے | عامر راہداری

کیا فیلڈ میں نکلنے کے کوئی تقاضے نہیں ہوتے؟ کیا ہمیں اپنے رویوں پر نظرثانی کی ضرورت نہیں ہے؟کیا میڈیا ہاؤسز کو ان جاذب نظرخواتین رپورٹرز کی پیشہ ورانہ تربیت کا خیال نہیں کرنا چاہئیے؟ کیا رپورٹنگ کا معیار یہی لب و لہجہ بن گیا ہے ؟ان حالات میں میڈیا ایسے معاملات میں خود کو مقدس گائے سمجھتے ہوئے دوسرے کو اچھوت سمجھنا شروع کر دے تو پھر آنے والے ردعمل کے لیے بھی تیار رہے ـ
صحافی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ مادر پدر آزاد ہیں ـ صحافتی تقاضے ہمیشہ جارحیت پسندی کی مذمت کرتے ہیں ـ سوچ اور طرز عمل کا منفی انداز اسی قسم کے واقعات کا موجب بنتا ہے ـ اعلی اخلاقی اقدار اور غیر جانبدارانہ رپورٹنگ ہی، خالص صحافی کا طرہ امتیاز ہے ـ
مائیک ہاتھ میں آتے ہی جرنلسٹ ( خواہ مرد ہو یا عورت) کو اس زعم سے باہر نکلنا چاہیے کہ وہ "میک "اور "بریک” پر قادر ہو گئے ۔ یہاں عورت ذات پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ،اپنے پیشے اور اپنے ادارے کی عزت و وقار کا خیال رکھے اور صحافتی ضابطہ ء اخلاق کی پاسداری کو ہر صورت مقدم رکھے تاکہ معاشرے میں فخر سے سر اٹھا کر جئے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس