Qalamkar Website Header Image

ہمیں بھی حق ہے جینے کا – حمیرا جبیں بیگ

Humera Baigاس نے اپنے چہرے اور جسم کے گرد چادر کو مضبوطی سے لپیٹا ہوا تھا۔وہ چہرے کی معصومیت پہ کرختگی کی تہہ چڑھائے ہوئے تھی جیسے بالکل حملے کے لیے تیار ہو کہ آئے۔۔۔کوئی کچھ کہہ کے تو دکھائے۔۔۔بلا کے اعتماد اور مردانہ متانت و وجاہت کے ساتھ وہ موٹربائیک کے ہینڈل پکڑے ہوئے یوں بیٹھی تھی جیسے کوئی شہسوار گھوڑے کی باگیں تھام کے بیٹھا ہو اور اس کی نظریں سامنے اپنے راستے پہ لگی ہوں ۔۔۔اس کے پیچھے دو بچیاں سکول یونیفارم میں بیٹھی ہوئی تھیں ۔اس نے تیزی سے میری گاڑی کو کراس کیا دونوں بچیوں کو سکول گیٹ پہ اتارا۔واپس مڑی اور سرعت کے ساتھ میرے پاس سے گذر گئی۔کبھی کبھی وہ چھٹی کے وقت بھی نظر آتی۔سکول گیٹ پہ بسوں ،ویگنوں ، موٹر سائیکلوں اور مردوں کی بھیڑ میں وہ اسی متانت ،وقار اور پر اعتماد انداز میں آتی۔ ہجوم کو چیرتی ہوئی آگے نکلتی دونوں بچیوں کو بائیک پہ بٹھاتی اور خاموشی سے واپس لے جاتی ۔اپنے سکول میں اس کے بارے میں تھوڑی پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ وہ چار بہنیں ہیں ۔باپ ایکسیڈنٹ کے بعد چلنے پھرنے سے قاصر اور زیرعلاج ہے۔اس دن سے اس بچی نے جس کی عمر 15 سال کے قریب ہوگی سکول کو خیرباد کہا۔گھر میں کوئی اور مرد یا بھائی نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹی بہنوں کو سکول لانا اور چھوڑنا،بازارسے سودا سلف لانا،باپ کی دوا لانا غرضیکہ تمام کام اس نے اپنے ذمے لے لیے تھے۔تمام کاموں سے فراغت اور بہنوں کو گھر چھوڑنے کے بعد شام کو وہ اکیڈمی جاتی تاکہ پرائیویٹ طور پراپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکے۔یہ واقعہ کسی بڑے شہر کا نہیں بلکہ ایک ایسے شہر کا ہے جس کے نواح میں زیادہ تر دیہات ہیں ۔یہاں بچیوں کو محض چھپا کے رکھنے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔گھر میں کوئی الیکٹریشن یا پلمبر کوئی چیز ٹھیک کرنے آ جائے تو خواتین کو کمروں میں بھیج کر دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں ۔یہاں ہر بات میں پرانی روایات ،خاندانی رسمیں اور سیانوں کے کہے کو حرفِ آخر مانا جاتاہے۔یہاں لڑکیاں گھروں سے اکیلی نہیں نکلتیں۔اپنے والدین کے دلوں سےبیٹا نہ ہونے کا دکھ اور بیٹیوں کے ماں باپ ہونے کی مایوسی کو ختم کرنے کے لیے ایک بچی نے اپنے ناتواں ہاتھوں سے ذمہ داری کا وہ علم اٹھایا جو بیٹے یا بیٹی کے لفظ سے مشروط نہیں۔۔۔ وہ اولاد ہے۔ایک فرد ہے جس نے اپنے گھر کی ذمہ داریوں میں اپنا حصہ ڈالا۔اس پر کتنی تنقیدی نظریں اٹھتی ہوں گی اسے اس بات کا شعور ہے۔اس پر کتنی انگلیاں اٹھتی ہوں گی۔برائے نام غیرت کا احساس دلانے اور اسے گھر سے نکلنے سے روکنے کے لیے آنے والے پورے خاندانی وفد کا اس نے کیسے سامنا کیا ہوگا کیسے سب کو مطمئن کیا ہوگا۔۔۔اس کے اس جراُت مندانہ اقدام کا پس و پیش منظر اس بات کا منکشف ہےکہ ہماری آنے والی نسل کو قدرتی طور پہ اپنے ہونے کا ادراک حاصل ہے ۔میرےمشاہدے میں اکثر یہ آیا ہے کہ معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ بڑی بڑی ڈگریاں لے کر بھی کہیں کسی لڑکی کے کسی بھی جرات مندانہ قدم کو عزت،غیرت اور انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں جبکہ موجودہ اور آنے والے وقت کا شعور و ادراک شاید ڈگریوں کا محتاج نہیں ہے۔اپنی زندگی کو آگے بڑھانے اور آنے والی نسل کو سنوارنے کے لیے اچھے اور مفید شہری بنانے ہوں گے ۔اچھے اور مفیدشہری پیدا نہیں کیے جاتے، بنائے جاتے ہیں ۔اگر ہم اپنی بیٹیوں کو محض جھاڑو پونچھا لگانے، برتن دھونے ،گائے بھینس کی طرح اپنی مرضی سے بیاہنے ،سسرال کا ظلم سہہ کر بھی نباہ کرنے اور حرفِ شکایت لب پہ نہ لانے والی مخلوق سمجھنے کے بجائے معاشرےکا ایک اہم رکن سمجھیں اور بیٹا بیٹی کی تخصیص و تفریق کئے بغیر عقل و شعور رکھنے والا ایک فرد تسلیم کریں تو سمجھیں کہ ہم نے ایک شہری کو یا ایک فرد کو اپنی زندگیوں اور اپنے معاشرے کے لیے مفید بنا لیا ۔یہ کام مشکل نہیں ہے اس کے لیے ہمیں صرف ایک چیز درکار ہے اور وہ ہے اعتماد۔ہمیں بیٹیوں پر صرف اعتماد کرنا ہی نہیں بلکہ انہیں اعتماد دینا بھی ہوگا۔اچھائی برائی کا شعور دیتے ہوئے ان کی تربیت اعتماد کے ہی اہم عنصرسے کرنا ہوگی۔اسےبتانا ہوگا کہ وہ محض چھپنے چھپانے کی چیز نہیں بلکہ اسے اس معاشرے کا سامنا کرنا ہوگا ۔اس اعتماد میں مناسب رہنمائی بھی شامل ہو تو ہماری بیٹیاں کسی بھی طور بیٹوں سے کم نہیں ہیں ۔کچھ شہروں میں بچیاں بائیسائیکل پہ سکول آتی جاتی ہیں کچھ بڑے شہروں میں خواتین موٹر بائیک بھی استعمال کر رہی ہیں ہمیں چھوٹے شہروں میں بھی اس بات کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی تاکہ ہماری بیٹیاں بوجھ بننے کےبجائے بوجھ اٹھانےوالی مفید شہری بن سکیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس