Qalamkar Website Header Image

آباد قبرستان

fatima-atifمیرے بچپن کی بات ہے کہ  جب ہمارے علاقےعلمدار روڈ کوئٹہ میں کوئی عزیز یا محلے دار طبعی  وجہ یا حادثاتی طور پر  اس دنیا کو خیرباد کہہ جاتا تو پورے علاقے کی فضا سوگوار ہو جاتی تھی۔  ایسا لگتا  کہ کوئی انتہائی  انہونی بات ہو گئی ہے ۔ تمام نزدیک دور کے رشتے دار سوگوار خاندان کا دکھ بانٹنے کئی دن  تک ساتھ دیتے۔ محلے کے بچے اپنے بڑوں کو غم میں ڈوبے دیکھتے تو سہم سے جاتے اور ان کی کھیل کود کی سرگرمیاں تک متا ثر ہو جا تیں۔ علا قے کی تمام امام بارگاہوں  میں تین چار تابوت ہی دستیاب ہو تے تھے جو کہ  پورے علاقے میں مر نے والے کے  سفر  آخرت کے لئے استعما ل ہو تے تھے اور ان کے استعما ل کی نو بت کبھی کبھار ہی پڑتی تھی۔ مرحوم یا مرحومہ کےقریبی لواحقین کم و بیش ایک سال تک با قاعدہ حالت غم میں رہتے ۔ کوئی خوشی مناتے اور نہ ہی کسی خوشی کے موقع میں شریک ہوتے ۔ قطع نظر اس بات کے کہ  ماضی کے ان سما جی رسومات کے متعلق  ہم بحیثیتِ فرد کیا رائے رکھتے ہیں ۔ان باتوں کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ فو تگی کے واقعات گنے چنے اور بہت کم ہوتے تھے۔ اس لئے ایسے واقعات کے کم ظہور پذیر ہونے کی وجہ سے زیادہ شدت سے محسوس کیا جاتا تھا اور اس صورت حال میں  غم کی شدت زیادہ اور غصے کی کم ہوتی تھی۔ جب 1990 کی دہائی میں ہزارہ ٹارگٹ کلنگ کی ابتدا ہوئی تو کوئٹہ شہر کی تقریباً ہر سڑک کو معصو م ہزارہ کے خون سے بے دریغ رنگا گیا۔ہزارہ اپنے چہر ے کے مخصوص منگول خدو خال کی وجہ سے آسانی سے نشانہ بنتے گئے۔ او ر پھر آہستہ آہستہ دہشت گردوں نے اپنے تمام طریقوں اور ہتھیا روں کا استعمال کرتے ہو ئے کبھی زائرین کو بسوں سے اتار کر گولیوں کا نشانہ بنایا تو کبھی نہتے غریب سبزی فروشوں کو کئی دفعہ گولیوں سے بھون ڈالا۔ کبھی طلباء کی بس تو کبھی پاسپورٹ آفس یا ہسپتال میں معصوم "ہزارہ” کا لہو بہایا ۔ اور تو اور رہائشی علاقوں علمدار روڑ اور کرانی روڑ میں گھس کر بم بلاسٹ کرکے ایک ہی واقعے میں 100 سے 150 معصوموں ( مرد، عورتیں اور بچوں )  کی جانیں لے کر ظلم اور بربریت کی وہ داستان رقم کی جس کو ہم کبھی نہیں بھو لیں گے اور نہ ہی کسی کو بھو لنے دیں گے۔ اب تک  1500  سے زائد لاشیں  اٹھا ئی گئی ،تقریباً 1300 سے زائد زخمی ہمیشہ کے لئے معذوری اور لاچاری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بہت سارے نوجوان لڑکے اور خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر دنیا کے مختلف ملکوں میں جلا وطنی کی زند گیاں گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔تقریباً  1000 سے زائد لوگ غیر قانونی طریقوں سے یورپ اور آسٹریلیا کا سفر کرتے ہو ئے سمندر برد ہو گئے ۔  کالعدم عسکریت پسند تنظیموں نے  نام بدل بدل کر  ہزارہ لو گو ں کے خون کےسا تھ ہولی کھیلنے کے عمل کو تا حال جاری رکھا ہوا ہے۔   تیر ے ساتھ تھی وہ جو رونقیں تیرے ساتھ ہی کہیں کھو گئیں 
دہشت گردی کی یہ طویل لہر   ( ہزارہ ٹا ون اور علمدار روڈ ) کے قبرستا نوں میں قبروں کی تعداد میں اضافے کی وجہ بنی ۔ یہ تحریر ہزارہ قبرستا ن علمدار روڑ  کے مشاہدے پر مبنی ہے۔ ہزارہ قبرستان کا ایک حصہ دہشت گردی کی نذر ہو نے والے شہداء کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ جہاں دہشت گردی کے واقعے کے نتیجے میں ایک دن میں تقریباً 130  شہداء کو سپرد خاک کیا گیا ۔ صحیح معنوں میں قیامت کا سماں تھا۔  قبرستان کے مزکو رہ حصے کے دلخراش مناظر اچھے اچھوں کو خون کے آنسو رلا تے ہیں ۔ جب آپ  قبر پر کتبے کے ساتھ مکین قبر کی زندگی سے بھر پور ہنستی  مسکراتی تصویر دیکھتے ہیں تو دل میں دہشگردوں کے لئے غم و غصے کے جذبات کے ساتھ ساتھ بے بسی کا شدت سے احسا س ہوتا ہے ۔دہشت گردی کے ایک ہی واقعے میں دادا، بیٹا اور پوتے کی قبریں ایک ہی لا ئن میں تین نسلوں کی موت اور ایک خاندان کی بربادی کی داستان سنا تی ہیں ۔ نوجوانوں اور بچوں کے علاوہ خواتین شہدا کی قبریں بھی اس رقت آمیز ماحول کو مزید سوگوار بناتی ہیں ۔ پولیس/فوجی شہدا کی قبروں پر  یونیفارم پہنے تصاویر اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ  کس طرح وہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کو سرانجام دیتے ہوئے دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 
آپ کو یہ بات عجیب لگے گی کی ہزارہ قبرستان دیگر قبرستا نوں کی مانند ویران اور سنسان نہیں ہے۔دن بھر آنے جانے والے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ شاید اسی لئے یہ جگہ لوگوں کے میل جول کا ایک وقتی مرکز بھی لگتا ہے جہاں لوگ خصو صا خواتین قبرستان کے مشرقی حصے میں  واقع  سبزی بازار سے خریداری کرنے سے پہلے یا بعد میں تھوڑا وقت اپنے پیاروں کی قبروں پر گزارتی ہیں ۔  ویسے تو تقریبا سب لوگ اپنے پیارو ں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے  جاتے ہی ہیں لیکن خاص موقعو ں پر گلیاں محلے ویران اور قبرستان آباد ہو جاتے ہیں۔۔ عید ین کے علاوہ Father’s Day اور Mother’s Day حتیٰ کہ شہدا کی سالگرہ کا دن ہو یا ان کے بچوں کی سالگرہ کا دن ، چھوٹے چھوٹے  بچے ہاتھوں میں کیک اٹھا ئے قبرستان کا رخ کرتے ہیں اور اپنے پیاروں کی قبر پر گھنٹوں بیٹھ کر اپنے دل کی باتیں کرکے آنسو بہا تے ہیں ۔ اور آنسو بہا نے میں وہ اکیلے نہیں ہوتے جو بھی پاس ہو اس کے آنسو لواحقین کے آنسوؤں میں شامل ہو کر ان کا غم بانٹتے ہیں ۔ عید کے موقعوں پر کیو نکہ تمام لوگ تقریباً ایک ہی وقت میں ( فجر کی اذان کے وقت) قبرستان جاتے ہیں تو وہ قیا مت کا سما ں ہو تا ہے جو بیان سے با ہر ہے۔ہر طر ف سے نالہ و فغاں کی آوازیں آ رہی ہو تی ہیں ایسا لگتا ہے کہ ابھی ابھی موت واقع ہوئی ہے ۔ او ر لو گو ں کے لہو رستے زخم بالکل پہلے دن کی طرح تا زہ ہوتے ہیں۔ ۔ 
کاش میں یہ سب روئے بغیر لکھ پاتی کا ش میں خوشی کی کوئی بات لکھ پاتی ۔  مگر جب زندگی کی تلخ حقیقتیں آپ پر حاوی ہو جا ئیں تو پھر قلم پر قابو  پانامشکل ہو جا تا ہے۔ لگتا ہے عرصہ ہو گیا ہے اجتماعی طور پر خو شی کو اصل معنوں میں محسوس کئے ہو ئے۔  صبر کا دامن کسی حد تک ہا تھ سے چھوٹ چکا ہے لیکن میں امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہتی ۔ہم بہ حیثیتِ معاشرہ آواز اٹھا نے کی بجا ئے لاشیں اٹھانے کو تر جیح دینگے تو خد شہ ہے کہ پاکستان کی تمام آبا دیاں ویران اور قبرستا ن آباد نہ ہو جا ئے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس