Qalamkar Website Header Image

سندھ ساگر کے میٹھے پانی میں فرقہ پرستی کا زہر

Haider Javed Syedکھوکھلی نعرے بازی اور مصنوعی باتوں سے حقیقت چھپ سکتی ہے ؟ سادہ سا جواب ہے کہ "جی نہیں”۔ مگر سندھ اسمبلی کی نشت پی ایس 11 شکار پور کے ضمنی انتخابات کے نتائج کو لے کر میرے جیالے دوست جو طوفان اٹھائے ہوئے ہیں وہ کسی فرقہ پرست مولوی کے مجمع میں مخالفین کی بھد اڑاتے نعرے بازوں کے ذوق کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ ساعت بھر کے لئے آپ اس حقیقت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے کہ یہ نشست درحقیقت پیپلز پارٹی کی تھی ہی نہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کے لئے شیخ رشید آف لال حویلی کا کردار ادا کرنے والے امتیاز شیخ کچھ عرصہ قبل پیپلز پارٹی میں شامل ہوئےاور اپنی نشست سے مستعفی ہو گئے۔ 2013ء کے انتخابات میں شیخ اس نشست سے مسلم لیگ ف کے ٹکٹ سے جیتے تھے۔ ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے انہیں اپنا امیدوا ر نامزد کیا۔ ان کے مقابل بڑے امیدوار کے طور پر جے یو آئی (ف) کے مرحوم ڈاکٹر خالد محمود سومرو کےصاحبزادے اور اپنے باپ کے سیاسی گدی نشین ناصر محمود سومرو تھے۔ امتیاز شیخ نے 36 ہزار 237 اور ناصر محمود سومرو نے 26ہزار186ووٹ لئے۔ جبکہ نیا پاکستان بنانے کی آرزو مند تحریک انصاف کے امیدوار محمد اعظم بروہی کو 601 ووٹ ملے۔ بظاہر پیپلز پارٹی 10 ہزار ووٹوں سے کامیاب رہی ہے۔ جیالے دوست اس کامیابی پر دھمال ڈال رہے ہیں۔ یہ دھمال ویسی ہی ہے جیسے دو فرقہ پرستوں کے مناظرے کے دوران جب ایک طرف کا مولوی جواب نہیں دے پاتا تو دوسرے کے حواری نعروں سے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ بو کاٹا۔ وہ مارا۔ اور سوشل میڈیا پر جعلی پوسٹوں کےذریعے جب جیالے دل کی بھڑاس نکال لیں تو لمحہ بھر کے لئے اس بات پر ضرور غور کریں کہ امتیاز شیخ کی نشست شیخ سمیت حاصل کرکے سیاسی میدان میں انہیں اخلاقی اور نظریاتی فتح ملی یا رسوائی؟ (پیپلز پارٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے احترام میں کم سے کم سخت الفاظ استعمال کر رہا ہوں۔)
اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھئے۔ جے یو آئی (ف) کے ناصر محمود سومرو کی انتخابی مہم کے دوران کالعدم تنظیموں کے رہنما جوش و جذبہ سے سرگرم عمل رہے۔ میرے لائق احترام دوست ایڈوکیٹ محمد علی سید نے اطلاع دی کہ ابراہیم جتوئی کا خاندان بھی ناصر سومرو کی حمایت کر رہا تھا۔سیاسیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ اولاََ یہ کہ چونکہ امتیاز شیخ سندھ کے شیخ رشید ہیں اس لئے پیپلز پارٹی کے پرانے اور نظریاتی کارکنوں نے خاموشی اختیار کی۔ثانیاََ یہ جے یو آئی (ف) نے کالعدم تنظیموں کی مدد سے جو انتخابی نتائج حاصل کئے ہیں انہیں یکسر نظر انداز کر دینا کوئی عقل مندی نہیں۔سندھ کی سیاست میں یہ ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ فرقہ پرستوں یا یوں کہہ لیجئے کہ تکفیری مزاج کے ووٹروں نے اپنے رہنماؤں کے کہنے پر ناصر سومرو کی حمایت کی۔ ایک خاص مسلک کے انتہا پسندوں کا جے یو آئی (ف) کے امیدوار کی حمایت کرنا تو سمجھ میں آتا ہے مگر بعض سندھی قوم پرستوں نے اپنا وزن فرقہ پرست امیدوار کے پلڑے میں کیوں ڈالا؟ سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ سندھی قوم پرست جماعتیں پیپلز پارٹی کی دشمنی میں جنرل مشرف اور اس سے بہت پہلے جنرل ضیاء الحق کے دستِ حق پر بیعت کر سکتی ہیں تو ناصر سومرو کی حمایت عجیب بات نہیں۔ مگر انتخابی نتائج نے ایک پیغام بھی دیا ہے ۔ وہ یہ کہ سندھ کی سیاست میں تکفیری عناصر اب ایک ایسی حقیقت بنتے جا رہے ہیں جنہیں نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے۔ آپ اگر گھوٹکی سے شکار پور بلکہ آگے جیکب آباد تک کی اس پٹی کی دیہی سیاست میں فرقہ پرستوں کے بذریعہ جےیو آئی کےعمل دخل کا جائزہ لیں تو سمجھ سکتے ہیں کہ پچھلی دو دہائیوں میں گھوٹکی سے جیکب آباد تک کے درمیانی علاقے میں ایک خاص مسلک کے مدارس کا قیام اور اس مسلک کے مولویوں کا متحرک ہونا بلاوجہ نہیں۔ پیپلز پارٹی کا سندھ کے اندر علاج تلاش کرنے والی بالادست قوتوں نے 1988ء سے 2013ء تک کے درمیانی انتخابی نتائج سے اندازہ لگالیا تھا کہ پی پی پی کو سندھی قوم پرست دیوار سے نہیں لگا سکتے۔ فرقہ پرستی کا نسخہ آزمانے کا فیصلہ ہوا اور یہ نسخہ بتدریج مؤثر نتائج دے رہا ہے۔ امتیاز شیخ کی گھریلو نشست پر باوجود اس کے کہ پیپلز پارٹی ساتھ کھڑی ہو ایک فرقہ پرست امیدوار کا 26 ہزار ووٹ لے لینا سندھ کی سیاست میں نئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ میرے جیالے دوست اگر جشنِ فتح منانے کے بعد ٹھنڈے دل سے صورتحال پر غور فرمانے کی زحمت کریں تو انہیں بہت آسانی کے ساتھ یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ پاکستانی اقتدار کے اصل مالکان ان کے ساتھ کیا ہاتھ کرنے جا رہے ہیں۔ شاہ لطیف، سچل، سامی، شیخ ایاز اور نسیم کھرل کی سندھووادی کے ایک صوبائی حلقہ میں کسی فرقہ پرست امیدوار کا پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار کے مقابلہ میں اتنے ووٹ لے جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ کے صوفی مزاج تشخص کو برباد کرنے والی قوتیں سب کچھ داؤ پر لگا چکیں۔ مستقبل قریب میں گو ان قوتوں کی منشا کے مطابق نتائج نہ بھی برآمد ہوں مگر ابتداء ہو چکی ہے۔ مکرر عرض ہے پیپلز پارٹی کو اپنی پالیسیوں کے ساتھ دیگر بہت ساری چیزوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ بالخصوص اس زعم پر کہ ہم ناقابلِ شکست ہیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ پی ایس 11 شکار پور کی نشست جیت کر بھی پیپلز پارٹی ہار گئی ہے۔ سندھ ساگر کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی میں فرقہ پرستی کا زہر گھل گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے زمینی حقائق کو شعوری طور پر سمجھنے کی بجائے روایتی انداز اپنایا تو آنے والے برسوں میں اس کے لئے مشکلات بڑھیں گی۔ فی الوقت تو یہ کہ ہوش کے ناخن لیجئے قدموں کے نیچے سے زمین کھسک رہی ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس