اولیاء کی سرزمین ملتان ،جو صدیوں سے تاریخ کے سیے پر مسلسل آباد ہے۔یہ دنیا کی وہ قدیم آبادیوں میں سے ایک ہے جہاں انسانوں نے تہذیب وثقافت اور علم و ہنر کا ابتدائی شعور حاصل کیا۔قدیم تاریخی کتب میں اس شہر کا تذکرہ’مثان‘،’قاصیابہ پورہ‘،’بنس پورہ‘اور مولستان کے نام سے ملتا ہے۔لیکن ہندؤں کے قدیم کتب کے مطابق سورج دیوتاؤں کے باپ ’’کشف‘‘کے نام سے منسوب کرتے ہوئے ’’کشف پورہ‘‘رکھ دیا گیا۔
اسلام کا سورج جب طلوع ہوا تو بہت سے صوفیاکرام نے اسی شہر کو اپنا مسکن بنایاجن کی بدولت برصغیر میں روحانی علوم کا فیض پھیلتا ہی چلا گیا۔ملتان ،دریائے چناب اور دریائے راوی کے سنگم پر واقع ہے یہ ہمیشہ سے ہی سرسبزوشاداب اور خوشحالی کا گہوارہ رہا۔یہاں کے پُرامن باشندے مظاہر فطرت اور فنون لطیفہ سے پیار کرنے والے تھے۔
ملتان،جو ایک منفرد اور نمایاں حیثیت کا مالک خطہ ہے۔جہاں سے ہمیشہ ہی امن ومحبت اور علم وفن کے سر چشمے جاری ہوئے۔یہاں آج بہت سی ہستیاں آسودہ خاک ہیں اور تہہِ خاک بھی ان کا فیض جاری وساری ہے۔مبشر سعیدشہرِ اولیا ء ملتان کے باسی ہیں جو صدیوں سے سلسلہ سہرووردیہ کا مرکز رہا ہے۔مبشر سعید بھی اسی سلسلے سے وابستہ ہیں اور بزرگ صوفی حضرت خواجہ محمد نواز صاحب مد ظلہ العالی کے دست حق پر بیعت ہیں۔
مبشر سعید4جون 1983کو محمد سعید بھٹہ کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ کے دادا کا نام ملک محمد شفیع بھُٹہ ہے۔آپ کی کتاب’’خواب گاہ میں ریت‘‘کا انتساب بھی ملک محمد شفیع بھُٹہ کے نام ہے۔مبشر سعید بہن بھائیوں کی تعداد چار ہے۔آپ سب سے بڑے بیٹے ہیں ۔آپ نے ملتان سے ہی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیااور ملتان سے ہی 1999میں میٹرک اور 2001میں گورنمنٹ ایمرسن کالج سے ایف ایس سی پری میڈیکل کا امتحان اعزازی نمبروں سے پاس کیا ۔پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لے شہرِ نعت(فیصل آباد)میں زرعی یونیورسٹی میں بی ایس آنرز(2002-06) میں داخلہ لیا۔زرعی یونیورسٹی میں داخلے کے بعد یونیورسٹی کی ادبی تنظیم’’سوسائٹی آف ایگریکلچر رائٹرز‘‘کے اجلاسوں میں شرکت کرنا شروع کیااور دوستوں کے اصرار پر طرحی مشاعروں میں شرکت کرنے لگے اور دوستوں نے خوب سراہا۔(2005)میں حلقہ ارباب ذوق فیصل آباد کے اجلاسوں میں شرکت کرنے لگے اور شعرا و ادبا سے ملاقاتیں ہونے لگیں اور 2006سے باقاعدہ شعر کہنا شروع کیا۔آغاز میں فیصل آباد میں ثناء اللہ ظہیر سے اصلاح سخن لیتے اور عروض کے حوالے سے ملتان سے مرتضیٰ اشعر سے راہنمائی لیتے رہے اور پھر حلقہ ارباب ذوق لاہور اور فیصل آباد کے اجلاسوں میں اپنی غزلیں پیش کرنے لگے اور متعدد اخبارات و رسائل میں آپ کی شاعری شائع ہوے لگ گئیں۔
2007ء میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان ک جانب سے آپ کو اسکالر شپ مل گئی اور مزید اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے فرانس چلے گئے۔وہاں فیس بک کے ذریعے یورپ میں شعر کہنے والے افراد سے رابطہ میں رہے۔حیدر قریشی،ثمن شاہ،اشرف غنی اور جمشید مسرور ودیگر سے ملاقاتیں ہوئی،وہاں ادبی نشستوں میں شرکت کرنے لگے اور یوں آپ کو یورپ،جرمنی،فرانس ودیگر ممالک میں مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا۔حیدر قریشی کے رسالے’’جدید ادب ‘‘ میں آپ کی شاعری باقاعدگی سے چھپنے لگی جو آپ کا حوالہ بنی۔
پاکستان واپسی کے بعد عملی زندگی کا آغاز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں ملازمت سے کیا اور یہاں کے حلقہ ارباب ذوق کے اجلاس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے اور فیصل آباد کی علمی وادبی فضا آپ کو میسر آئی۔یہا ں شعرا وادباء سے آپ کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی شاعری میں فیصل آباد کے علمی فضا کی جھلک نظر آتی ہے۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں شعبہ اردو کے اساتذہ ڈاکٹر شبیر احمد قادری،ڈاکٹر طارق ہاشمی،ڈاکٹر اصغر علی بلوچ اورڈاکٹر سعید احمد جیسی ادبی شخصیات سے علمی و ادبی موضوعات پر گفتگوہوتیں جس سے اورجو مبشر سعید کی ادبی زندگی میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ بنی اور آپ کی سوچ وفکر کو نئے زاویے میسر آئے۔
مبشر سعید کاکلام بہت سے رسائل وجرائد میں شائع ہو چکا ہے۔چند اہم رسائل درج ذیل ہیں:جدیدادب(جرمنی)دبستان(لاہور)کینوس(کراچی)حرف(کوئٹہ)اوراق(لاہور)قرطاس(گوجرانوالہ)
ماہ نو(کراچی)ماجرا(کراچی)بیاض(لاہور)فنون(لاہور)عکاس انٹر نیشنل(اسلام آباد)قومی ڈائجسٹ(لاہور)اور
قلم قرطاس(شعبہ اُردو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد) شامل ہیں۔اس کے علاوہ روزنامہ نوائے وقت،روزنامہ جنگ،روزنامہ دن اورروزنامہ پاکستان کے ادبی صفحات کی زینت بھی بن چکا ہے۔
مبشر سعید ابھی حال میں بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں بطور اسسٹنٹ رجسٹرار کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔مبشر سعید ملتان کی علمی وادبی محفلوں میں شرکت کرتے ہیں اور وطن عزیز کے مشاعروں میں شرکے ہوتے رہتے ہیں اوربالخصوص ملک کے تعلیمی اداروں میں نوجوان شاعر مبشر سعیدکو مشاعروں اورتقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے۔
مبشر سعید کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’خواب گا ہ میں ریت‘‘کو فیصل آباد سے مثال پبلشرز نے حال ہی میں شائع کیا ہے جو 128صفحات پر مشتمل ہے۔اس مجموعے میں مبشر سعید کی شاعری کے حوالے سے مختلف شاعروں ادیبوں نے اپنے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے۔انڈیا سے محمد علوی کتاب کے فلیپ پر لکھتے ہیں:
’’مبشر سعید کی شاعری روایت اور جدت کے امتزاج کا متوازن نمونہ ہے وہ شعر نہیں کہتا بلکہ پینٹنگ سی لا کے سامنے رکھ دیتا ہے:جیسے
نیند کے سُرمئی جزیرے پر
خواب کی جھونپڑی بنانی ہے
________________________________
بینچ پہ پھیلی خاموشی
پہنچی پیڑ کے کانوں تک
نپے تلے انداز میں دو الفاظ کا استعمال اس مہارت سے کرتا ہے کہ ایک لفظ اِدھر اُدھر کرنے سے شعریت ہاتھ سے جاتی رہتی ہے ۔اب تک جو کہا جا چکا ہے مبشر اس سے آگے کی بات کہنے کی کوشش کر رہا ہے ورنہ لوگ ہیں کہ ابھی تک وہی پرانے مضامین دھرا رہے ہیں۔اگر اس نے اسی طور پر محنت اور مطالعہ جاری رکھا تو بہت جلد وہ اپنی الگ پہچان بنا لے گا۔‘‘
پاکستان کے نامور شاعر عباس تابش مبشر سعید کی شاعری کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’مبشر سعیدنئی نسل کا وہ خوش بیاں شاعر ہے جس کی شاعری مرے دل کے بہت قریب ہے۔وہ محبت کے رسمی مضامین سے گریزاں نئے افق کی جست جو میں سر گرداں دکھائی دیتا ہے۔اسی جست جو میں وہ کہیں کہیں فقیری سلسلے میں چلا جاتا ہے،یہاں تک کہ اسے محبوب بھی درویش نگاہوں والا نظر آتا ہے۔‘‘
مبشر سعید کو خدائے سخن میر تقی میرؔ ،غالبؔ ،آتشؔ اور دور جدید میں ثروت حسین کی شاعری کو شوق سے پڑہتے ہیں ڈاکٹر معین نظامی اپنے مضمون’’بشارت اور سعادت والی غزلیں‘‘میں اسی حوالے سے لکھتے ہیں:
’’میر تقی میر اور ثروت حسین نے بہت سے زرخیز دماغوں اور نظام شمسی کا سا نسب رکھنے والے دلوں کو انتہائی متاثر کیا ہے۔مبشر کے ہاں بھی اس حسنِ تاثیر اور جمالِ استفادہ کا احساس ہوتا ہے مگر اس نے ان دیو پیکر سخن طرازوں کی لو سے جو دیا جلایا ہے وہ سراسر خود اسی کا ہے اور یہ معمولی بات نہیں ہے۔مبشر شعید کے اشعار سیدھے میرے دل میں اترتے ہیں ،ان میں سے چند ایک آپ بھی ملاحظہ کیجیے:
تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہوجانا
تو ابھی رقص کروں ،ہو کے دکھاؤں تجھ کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل بہ دل ہوتے ہوئے در بدری تک آئے
اپنی وحشت کے خدوخال سجانے کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھ کو معلوم ہے درویش نگاہوں والی!
ہم تری دید کو ملتان سے آئے ہوئے ہیں۔‘‘
مبشر سعید چونکہ خود بھی صوفیا کے سلسلہ سہروردیہ سے منسلک ہیں اور ملتان کا باشندہ ہونے کے ناطے ان کی شاعری میں تصوف،صوفی ازم،درویشی کا آنا ضروری تھا۔چند اشعار اسی حوالے سے ملاحظہ فرمائیے۔
صاحبِ ہوش کو مدہوش بنانے کے لیے
آیت حُسن پڑھوں،دیکھتا جاؤں تجھ کو
اب مرا عشق دھمالوں سے کہیں آگے ہے
اب ضروری ہے کہ وجد میں لاؤں تجھ کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ جتنا بھی کرو
کوئی نقصان نہیں ہوتا فراوانی کا
حضرت قیس کی سنت پہ عمل کرتے ہوئے
فرض کرتا ہوں ادا چاک گریبانی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی فقیر نے حجرے سے منہ نکالا ہے
ابھی وجود کی ساری دھمال باقی ہے
میں اپنے آپ سے اکثر سوال کرتا ہوں
ترے عروج کا کتنا زوال باقی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ شمس ؒ کے حوالے سے بہت ہی خوبصورت شعر ہے ملاحظہ کیجیے:
جا کے شاہ شمسؒ پہ
بیٹھ نہ ، دھمال کر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت میرؔ کیے عظمت کا اعتراف مرزا غالب سے لیکر مبشر سعید تک شعرا کرتے آ رہے ہیں۔مبشرسعید نے بھی ان سے نسبت اپنے اشعار سے کچھ یوُں نکالی ہے:
مجھ کو یہ میر تقی میر بتاتے ہیں سعیدؔ
عشق کرنا ہے مگر جان سے جانے کا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو بھی آتا ہے یہی پوچھنے لگ جاتا ہے
میں نے کیوں ہجر میں یہ میرؔ سی حالت کر لی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مبشر سعیدکے یہاں نکتے بکثرت ہیں جن میں زندگی کی حقیقتیں اور قلب انسانی کی لطافتوں کہ بہ انداز خوش پیش کیا ہے۔زبان کی شیرینی اور بیان کی خوبی اُس پے مستزاد ہے۔عالم شباب میں کسی کی اتنی پختہ شاعری میں نے بہت کم دیکھی اور پڑھی ہے ان کی ظاہری شان و شوکت ،ان کاجذب دروں ،ان کا کمال گفتگو اور سب سے بڑھ کر سادہ وسلیس لفظوں کے جھُرمٹ میں معانی کا بحر بیکراں لیے ہویء ان کے اشعارنے ان کی شخصیت کو ادبی دنیا میں بھی ایک ممتاز مقام عطا کیا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn