Qalamkar Website Header Image

بلاول بھٹو زرداری : اسٹیبلشمنٹ اور دائیں بازو سے مصالحت کی سیاست

میں بنگالی ادیب دیودان چوہدری کا ایک مضمون پڑھ رہا تھا۔اس مضمون میں دیودان نے اپنے ایک مشاہدے کا ذکر کیا۔ایک پروگرام میں امیتابھ گھوش کی کتاب کا اوبگھاٹن ہورہا تھا تو انہوں نے دیکھا کہ لوگ قطار میں لگ کر کھڑے ہیں اس لئے نہیں کہ ان کے دستخطوں والی کتاب لیں بلکہ گھوش کے ساتھ ایک سیلفی لی جائے اور اسے فوری طور پہ سوشل میڈیا پہ پوسٹ کردیا جائے۔یہاں تک کہ بس سیلفی لیکر ڈائس سے اترنے تک اور سوشل میڈیا پہ سیلفی اپ لوڈ ہونے تک کے درمیان ایک چھوٹا سا وقفہ ہوا کرتا ہے۔اور لوگوں کو گھوش کے طاقتور اور فوری توجہ کے محتاج ماحولیاتی تبدیلی پہ لکھے گئے بیانیہ سے کہیں زیادہ یہ سیلفی درکار ہوتی ہے۔

تو ہر کوئی اپنا ایک امیج خود تخلیق کرنا چاہتا ہے اور اسی فضاء میں تاثر،پرفارمنس اور اس کے ساتھ انٹرٹینمنٹ کی قدر اصل خیالات  ،افعال اور ان کے نتائج پہ حاوی ہوتی جارہی ہیں۔

سیاست دان اس بات کو کسی بھی دوسرے آدمی سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں،اور اسی لئے وہ اپنا خاص عوامی امیج بنانے اور اسے قائم رکھنے کے لئے بڑی تگ و دود کرتے ہیں۔ ایسے سوال جو بے چین کرتے ہوں ، سکون لوٹ لیتے ہوں تو ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ، ان پہ سزا دی جاتی ہے۔ کبھی یہ سزا چھپی ہوتی ہے تو کبھی صاف عیاں ہوتی ہے

bilawalبلاول بھٹو کی 16 اکتوبر 2016ء کی کراچی ریلی بھی مجھے اصل خیالات ، ان کے اقدامات اور ان کے نتائج و عواقب سے کہیں زیادہ ایک مصنوعی امیج بنانے کی مشق کے سوا کچھ بھی نہیں لگی۔

میں ذاتی طور پہ چاہتا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری اس ریلی میں ان مدوں پہ بات کرے،جن کا اظہار بھی آج پاکستان کے اندر بہت مشکل ہوگیا ہے۔اور آج سب سے بڑا خطرہ ایسے مدوں پہ بات کرنا بن گیا ہے جو ریاست کے غالب حکمران بیانیہ سے ٹکراتے ہیں۔اور ان کو قومی مفادات کے خلاف دانشورانہ دہشت گردی کہہ دیا جاتا ہے اور اپ فوری غدار قرار پاتے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرپرسن بلاول بھٹو زرداری اپنے پارٹی کارکنوں کی ایک بھاری تعداد کے ساتھ سانحہ کارساز میں 18اکتوبر ،2007ء میں اپنی پارٹی کے 125 کارکنوں کی شہادت کی یاد میں دو دن پہلے اتوار کے دن ایک بڑی ریلی کی شکل میں کارساز کے پل پہ اس جگہ پہنچے جہاں یہ المناک واقعہ رونما ہوا تھا تو انہوں نے جو تقریر اس سے پاکستان پیپلزپارٹی کی ترجیحات کا اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔اس تقریر کو اگر ہم موضوعاتی اعتبار سے تقسیم کریں تو اس کا پہلا موضوع تھا "تخت رائیونڈ ” یعنی مسلم لیگ نواز کا اقتدار –بلاول بھٹو زرداری نے اپنی اس تقریر میں کسی ایک جگہ بھی ہمیں یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کونسا طریقہ کار ہوگا جس کے ذریعے سے وہ رائے ونڈ کا تخت گرا ڈالیں گے۔اگر میں مسلم لیگ نواز کی پنجاب میں اختیار کی جانے والی پالیسی کو بغور دیکھوں تو مجھے نجانے کیوں یہ محسوس ہوتا ہے کہ سندھ میں پی پی پی کی حکومت بھی اسی نقش قدم پہ چل رہی ہے جس پہ پنجاب میں ہمارے مہان چیف منسٹر شہباز شریف عمل پیرا ہیں۔ترقی کیا ہے گرین بسیں، فلائی اوورز ، میٹرو بس سروس ، سرکلر ریلوے ، سی پیک وغیرہ وغیرہ ، کیا rallyیہی کچھ سندھ میں نہیں کیا جاررہا؟بلاول بھٹو نے لیاری کی پسماندگی کی بات کی لیکن وہ لیاری جو کہ کبھی سیاسی ، جمہوری ، قوم پرست ، لیفٹ سیاست کا گڑھ ہوتا تھا تو وہاں اسلحہ و منشیات کے نیٹ ورک کیسے قائم ہوئے اور کیوں قائم کئے گئے اور لیاری میں بلوچ،سندھی دونوں کی نسل کشی ، جبری گمشدگیوں اور ماورائے قتل و غارت گری میں کن کا ہاتھ ہے؟اس طرف انہوں نے اشارہ تک نہیں کیا۔اور لیاری سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کی جبری گمشدگی کا بلوچستان سے جبری گمشدگان سے تعلق کیا ہے؟ اور اس طرح کی جبری گمشدگیوں ، اذیت دے کر ماردینے اور پھر مسخ شدہ لاشوں کو ویرانے میں پھینک دئے جانے کے پیچھے کون ہے؟اس تقریر میں مجھے لیاری کے بلوچوں اور بلوچستان میں بسنے والی بلوچ آبادی کے لئے سرے سے کوئی پیغام تھا ہی نہیں۔اور نہ ہی بلاول بھٹو نے اپنی تقریر میں کم از کم اختر مینگل بلوچ کی جانب سے اظہار کئے جانے والے تحفظات اور بلوچستان میں حکومتی اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بیانیہ سے اختلاف رکھنے والے سیاسی کارکنوں، صحافیوں ، انسانی حقوق کے کارکنوں سے جو سلوک کیا جارہا ہے،اس پہ بھی اس تقریر کے اندر کوئی مؤقف میں تلاش کرنے میں ناکام رہا۔پاکستان کی ریاست کی خارجہ پالیسی اور داخلی سلامتی کے نام پہ جو کھلواڑ اس وقت مسلم لیگ نواز اور بوٹ والے کررہے ہیں،اس پہ انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے 80ء کی دھائی سے لیکر اپنی زندگی کی آخری سانس تک تزویراتی گہرائی ، جہاد ازم ، اسلام ازم اور پنجابیوں کو چھوڑ کر باقی سب لسانی –ثقافتی گروہوں کو غدار قرار دینے کی پالیسی پہ کھل کر تنقید کی تھی۔بلاول اس ریلی میں اتنے بھی صاف گو نہ ہوئے جتنی "عملیت پسند ” سیاست کی دلدادہ شہید بے نظیر بھٹو تھیں۔بلاول سے تو لبرل لیفٹ پوز بھی نہیں ہو پاتا ، وہ بس نرے لبرل گاؤدی نظر آتے ہیں اور ہر بار پی پی پی کے اندر سے ایک نئی ترقی پسند ، سنٹر لیفٹ پارٹی کے جنم کی خواہش کرنے والے کارکنوں کو مایوس کرڈالتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے:  قدرت اللہ شہاب!

بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ "وہ سندھ میں تبدیلی لے آئے ہیں اور اب باقی پاکستان میں بھی لے کر آئیں گے”

سندھ میں کیا تبدیلی وہ لیکر آئے ہیں ؟ کیا وہ وضاحت دے سکیں گے کہ یہ کیسی تبدیلی آئی ہے سندھ میں 26جولائی2016ء کو کراچی ٹول پلازہ پہ ایک عاجز ، نمانے بلوچ ادیب اور ایک ہسپتال میں میں ٹیلی فون آپریٹر کی معمولی سی نوکری کرنے والے واحد بلوچ کو سادہ کپڑوں میں ملبوس (غالباََ) خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اٹھایا اور اپنے سے ساتھ لے گئے اور تب سے آج تک واحد بلوچ نہیں ملے۔توانائی سے بھرے چیف منسٹر سندھ سید مراد علی شاہ ، چیف سیکرٹری سندھ،ڈی آئی جی کراچی پولیس ، وزیر داخلہ سندھ سمیت جس کو بھی واحد بلوچ کی بیٹی ہانی بلوچ نے خط لکھا ، ان میں سے کسی نے جواب دینے کی ہمت نہیں کی اور گڈاپ ٹاؤن تھانے میں سندھ ہائیکورٹ کے حکم پہ ایف آئی آر اکتوبر میں درج ہوئی۔کراچی اور اندرون سندھ میں جبری گمشدگان میں لیاری کے بلوچ ، سندھی اور اردو بولنے بڑی تعداد میں شامل ہیں۔اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔مائی ینگ لارڈ بلاول بھٹو زرداری کے پاس کیا جواب ہے ؟ سندھ میں عموعی طور پہ شمالی سندھ کے اضلاع میں خاص طور پہ شکار پور میں تکفیریت کے زیر اثر چلنے والے گھمبی کی طرح اگنے والے مدرسوں کی تعداد میں اضافہ ہی کیوں ہوتے چلے جارہے ہیں؟اور سندھ جہاں پہ پی پی پی کی حکومت ہے وہاں پہ کالعدم تنظیمیں اب تک کھلے عام کام کیوں کررہی ہیں ؟ کیا سندھ حکومت کی رٹ کو حافظ سعید ، اورنگ زیب فاروقی سمیت نام نہاد جہادی پراکسیز کے کھلے عام جلسے جلوس نکالے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ؟اگر سندھ میں ہورہے ان جیسے اور اقدامات سندھ کے تبدیل ہونے کی علامت ہیں تو اس ترقی معکوس پہ انا للہ ہی پڑھا جاسکتا ہے۔

بلاول بھٹو کی تقریر میں پاکستان کے استحصال کا شکار مزدروں ، کسانوں اور کچلے مسلے گئے عوام اور محکوم و مظلوم اقوام کے لئے کوئی پیغام موجود نہیں تھا۔وہ اتنے بھی انقلابی نہ نکلے جتنے برطانوی لیبر پارٹی کا نیا قائد ہے، جس کے گرد کئی مارکسی جمع ہوگئے ہیں۔ بلاول بھٹو کی اس تقریر میں ایک موضوع تھا ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی اور کشمیر ۔۔۔۔ مجھے افسوس ہے کہ بلاول بھٹو اس موضوع پہ ایک سنٹر لیفٹ پارٹی کے چیئرمین بننے کی بجائے سادہ لبرل بیانیہ سے بھی کہیں زیادہ جنگجو بیانیہ کا شکار ہوگئے۔ان کی تقریر سے کہیں بھی یہ تاثر ابھر کر سامنے نہیں آیا کہ وہ پاکستان کے اندر اور باہر جنوبی ایشیاء میں سامراجی جنگوں کے پھیلاؤ سے کسی قسم کی تشویش میں مبتلاء ہیں۔ایک جھوٹا پاکستانی نیشنلزم جو کہ زمینی حقائق سے یکسر متضاد تھا بلاول بھٹو کی زبان سے آج ادا ہوا۔اور انہوں نے ریاستی اداروں کو کہیں بھی خبردار کرنے سے گریز کیا اور ان کی بلوچ ، سندھی ، پشتون ، سرائیکی ، گلت بلستانی کی جانب جو روش ہے ، اسے انہوں نے اپنی تقریر میں کہیں بھی قابل مذمت نہیں جانا۔ان کی جتنی بھی سیاسی بصیرت ہے اس میں پاکستان کی محنت کش عوام اور مظلوم اقوام کے لئے کوئی پیغام نہیں ہے لیکن ان کا کشمیریوں کے لئے ڈالا گیا سیاپا اور مودی کو نکالے گئے مندوں سے دھیان فوری عسکری اسٹبلشمنٹ کو خوش کرنے کی بلاول پالیسی کی طرف جاتا ہے۔ اور اختر مینگل کی یہ بات بھی درست لگتی ہے کشمیر بہت قریب اور بلوچستان بہت دور واقع ہے۔بلاول بھٹو اشرافی لبرل ازم کی بیماری سے خود کو اوپر نہیں اٹھاسکے۔کیا لولے لنگڑے مطالبے ہیں کہ ایک مستقل وزیرخارجہ مقرر کیا جائے۔پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں دو وزیرخارجہ مقرر کئے۔پہلے شاہ محمود قریشی اور پھر حنا ربانی کھر۔اور یہ دونوں آخری تجزیہ میں بوٹ والوں کے پلڑے میں وزن ڈالنے والے نکلے۔حسین حقانی سے بروفروختہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے دباؤ پر امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے میں اپنے تھنک ٹینک جناح انسٹی ٹیوٹ آف اسٹڈیز اینڈ پالیسی کے ملازمین کی تنخواہیں فرشتوں سے دلوانے والی خاتون کو سفیر تعینات کیا گیا اور وہ آج بلاول بھٹو زرداری کی "سیاسی آیا ” بنی ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھئے:  پشتون تحفظ موومنٹ

بلاول بھٹو کو نواز شریف کے جعلی اینٹی اسٹبلشمنٹ ہونے اور ایک جعلی لبرل ہونے کا ڈھونگ رچانے بارے اپنے سننے والوں کو بتانے کی ضرورت تھی ، ان کو پاکستان تحریک انصاف کی دائیں بازو کی اور اسٹبلشمنٹ نواز ایجنڈے پہ مبنی پالسیوں بارے بات کرنے کی ضرورت تھی اور آپریشن ضرب عضب سمیت فوجی آپریشنوں اور جنگ سے بڑے پیمانے پہ پھیل جانے والی بے دخلی ، بدحالی و تباہی کے خاتمے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کے غیرمؤثر ہونے پہ بات کرنے کی ضرورت تھی جو انہوں نے نہیں کی۔وہ پی پی پی کے پانچ سالہ دور اقتدار اور سندھ میں گزشتہ 8 سالوں سے جاری اقتدار کی خامیوں اور کمزرویوں کا اعتراف کرنے کی بجائے سندھ میں تبدیلی لیکر آنے کا دعویٰ کرتے رہے جوکہ ایک بہت بڑا مذاق ہے پی پی پی کے ووٹرز اور حامیوں کے ساتھ۔ان کی اس تقریر نے یہ ظاہر کردیا کہ وہ اسٹبلشمنٹ اور اس ملک پہ قابض مذہبی جنونی ، عوام دشمن قوتوں کے ساتھ مطابقت پذیری کا”عملیت پسند” راستہ اختیار کرنے جارہے ہیں۔اور ان کے اس راستے میں میگا پروجیکٹس کی مار کے شکار دیہی و شہری غریب پرتوں کے لئے کوئی پروگرام سرے سے ہے ہی نہیں

حالیہ بلاگ پوسٹس