ہر شاعر کی طرح غلام محمد قاصرکی شاعری کا بنیادی محور بھی محبت کا جذبہ ہے جو اپنے اندر تمام تر وسعتیں لیے نظر آتا ہے۔خدا، رسولؐ اور اہلِ بیتؑ سے محبت ان کی حمد ونعت و سلام و منقبت سے واضح ہے۔وطنِ عزیز ، قائد اعظم اور علامہ اقبال سے لے کر احمد ندیم قاسمی، مجیدامجد اور فیض احمد فیض سے عقیدت ومحبت بھی ان کی نظموں سے عیاں ہے۔اس حساس شاعرکی امن سے محبت بھی خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ چاہے نظم” بیروت” ہو یا گڑھی قمر دین پشاور میں بم دھماکوں کے حوالے سے کہی گئی نظمیں ہوںیا پھر ان کی وہ مشہور غزل ہو جس کے مطلع میں وہ بارود کے بدلے ہاتھوں میں کتاب دیکھنے کے خواہاں ہیں۔تاہم ان کی شاعری میں اس بنیادی حوالے کے علاوہ کئی پہلو ایسے ہیں جن کا تذکرہ کم ہوا ہے جیسے کہ ان کی شاعری میں پیراسائکالوجی (parapsychology ) یعنی مابعدالنفسیات ۔
پیراسائکالوجی کو ان علوم کا مجموعہ قرار دیا جا سکتاہے جن کا تعلق ایسے تجربات و مشاہدات سے ہو جنہیں حواسِ خمسہ عام حالات میں محسوس نہ کر سکتے ہوں ۔ جیسے Extra Sensory Perception (ESP), Precognition ,Telepathy, Clairvoyance, Astral Projection, Out of Body Experience (OBE) , Metaphysics وغیرہ۔یعنی زمان و مکان کی قیود سے نکل کر روشنیوں ، رنگوں ، خوشبووں کی دُنیاوں کی سیر ، بیک وقت ایک سے زیادہ مقامات پر روحانی طور پر موجو د ہونا۔
قاصر صاحب کو شروع سے ہی مابعد النفسیا تی موضوعات سے غیر معمولی دلچسپی تھی جوان کی زندگی کے آخری عشرے میں مزید نمایاں ہو گئی تھی۔ ان کی شاعری میں بھی ابتدا سے ہی ایسے موضوعات کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ اس موضوع پرایک کتاب بھی مرتب کرنا چاہتے تھے تاہم ایک طرف توزندگی نے انہیں مہلت نہ دی اور دوسری طرف وہ چاہتے تھے کہ انہیں صرف ایک شاعر کی حیثیت سے ہی یاد رکھا جائے، جو کہ مذکورہ کتاب کے منظرِعام پر آنے سے متاثر ہو سکتا تھا ۔لہذا اسی بات کو مدِ نظررکھتے ہوئے اس تحریر کو ان کے کلام تک ہی محدود رکھا گیا ہے اور ان کی شاعری کو پیراسائکالوجی اور پیراسائکالوجی کو ان کی شاعری کے تنا ظر میں دیکھا گیا ہے۔
کلامِ قاصر میں اوائل سے ہی ایک خاص مابعد النفسیا تی ، پراسرار اور ماورائی فضا محسوس ہوتی ہے جو بتدریج بڑھتے بڑھتے ان کے تیسرے شعری مجموعے” دریا ئے گماں” تک نہایت اہمیت اختیار کر گئی۔ مذکورہ کتاب زندگی میں شائع ہونے والی ان کی آخری کتاب تھی جو وفات(فروری ۱۹۹۹ء) سے دو سال قبل یعنی ۱۹۹۷ ء میں منظرِعام پر آئی تھی جس میں بطورِ خاص ایسے اشعار کی تعداد زیادہ ہے ۔جیسے یہ شعر :
وہ بے دلی میں کبھی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں
تو ،ہم بھی سیرِ سماوات چھوڑ دیتے ہیں
بظاہر رومانوی نظر آنے والے اس شعر میں قاصر صاحب نے سیرِسماوات کو جس معمول کی بات کے انداز میں بیان کیا ہے ، یہ امر بہر کیف اس قدر معمولی نہیں ۔کچھ نہ کچھ معارفت وریاضت تو بہرحال درکار ہوتی ہے نظر کو وہاں تک پہنچنے کے لیے کہ جہاں یہ کہا جا سکے کہ "آٹھواں آسماں بھی نیلا ہے”۔ ان کے دوسرے شعری مجموعے کا عنوان بھی یہی مصرعہ ہے اور اس عنوان کے تحت نظم میں واضح طور پر ان جہانوں کی منظر کشی کی گئی ہے جو حدِنظر سے بعید ہیں ۔ پڑھتے ہوئے جو ماورائی کیفیت محسوس ہوتی ہے اس سے شاعرکے وجدان کی بلند ترمنازل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔قاصر صاحب ایک مصرع میں خود بھی کہتے ہیں ” آنکھ میں خیمہ زن نیلگوں وسعتیں اپنا پہلا قدم ہی خلاوٗں میں ہے "۔ ان کی مشہورنظم” سمیتا پاٹل” بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے، مذکورہ نظم اس صبح مکمل ہوئی جس شام سمیتا پاٹل کا انتقال ہوا۔ پیراسائکالوجی میں اسے precognition کہا جاتا ہے، یعنی بعد میں پیش آنے والے واقعات کی پہلے سے خبر ہو جانا۔ان دنوں قاصر صاحب گورنمنٹ کالج درہ آدم خیل میں بطور معلم تعینات تھے اور روزانہ پشاو ر سے وہاں جایا کرتے ۔ راستے میں ایک خاص مقام سے گزرتے وقت مصرعوں کی آمد ہوتی لیکن نظم مکمل نہ ہوتی تھی اور پھر ایک روز اسی مقام پر گاڑی خراب ہوئی اور پھر قریب ایک ویران سی زیارت کے پاس ان کیفیت کچھ عجیب ہوئی، گھنٹیوں کی آوازیںآنے لگیں اور پھر مذکورہ نظم کی تکمیل ہوئی۔اس غیر معمولی واقعہ کی تفصیل "غلام محمد قاصر فن اور شخصیت” کے عنوان سے لکھے گئے پروفیسر سہیل احمد (شعبہ اردو پشاور یونیورسٹی) کے ایم فل کے تحقیقی مقالے میں موجود ہے جو طباعت کے مراحل میں ہے۔
ریڈیو پاکستان پشاور سے ۱۹۹۶ء میں نشرکردہ ایک انٹرویو میں قاصر صاحب نے کہا کہ philosophy میں تازہ ترین موضوع heat without light and light without heat ہے او ر اس حوالے سے ان کا متذکرہ انٹرویو سے ۲۱ سال پرانا ایک شعر کچھ یوں ہے
آگ درکار تھی اور نُور اُٹھا لائے ہیں
ہم ہتھیلی پہ عبث طُور اُٹھا لائے ہیں
اسی موضوع پر یہ مطلع بھی قابلِ غور ہے
جب طلب کی اجازت ملی
روشنی سے حرارت ملی
شہزاد احمد، جنہیں خود بھی مابعدالنفسیاتی موضوعات سے خصوصی دلچسپی تھی، نے قاصر کے پہلے شعری مجموعے( تسلسل ،مطبوعہ ۱۹۷۷ء) کے بارے میں کہا کہ” قاصر نے بہت سے ایسے گوشوں کی نقاب کشائی کی ہے جو اس سے پہلے کُھل کر سامنے نہیں آئے تھے” ۔ ان کا اشارہ یقینی طور پر پیرا سائکالوجی سے متعلق انہی موضوعات کی طرف تھا جو ایک عام قاری کی نظر سے شاید اب بھی اوجھل ہیں۔احمد ندیم قاسمی نے بھی تسلسل کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا” قاصر کی غزل خدا اور کائنات سے گفتگو کرتی نظر آتی ہے” اس پس منظر میں درج ذیل اشعار خصوصی توجہ کے متقا ضی ہیں:
یونہی آساں نہیں ہے نُور میں تحلیل ہو جانا
وہ ساتوں رنگ قاصر ایک پیراہن میں رکھتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچیں طور سے جو۔۔۔اُترنے لگیں
وہ کرنیں مِرے فن کی تورات پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گِلِ ماہ گھومتے چاک پر کفِ کوزہ گر سے پھسل گئی
کہ بساطِ گردشِ سال و سِن یہی فرق اپنے پرائے کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مَیں نے پڑھا تھا چاند کو انجیل کی طرح
اور چاندنی صلیب پر آ کر لٹک گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَن دیکھی دنیاوں اور واضح مابعدالنفسیاتی حوالو ں سے ہٹ کر اگر قاصر کے خالص رومانوی اشعار کو بھی دیکھا جائے تو وہاں بھی ایک خاص کیفیت نظر آتی ہے کہ جہاں اشعار بظاہر تو رومانوی ہیں لیکن بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بات اور ہی کسی دنیا کی ہے ۔جیسے یہ اشعار:
خوشبو گرفتِ عکس میں لایا اور اس کے بعد
مَیں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلے اک سائے سے خوشبو کو نکلتے دیکھوں
پھر وہ خوشبو تِری تصویر میں ڈھل جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی لیے تو زمیں پر وہ اجنبی نہ لگے
مَیں اُن سے پہلے مِلا تھا کسی ستارے پر
خوشبو کو گرفتِ عکس میں لے کر آنا یا پھر سائے سے خوشبو کا نکلنا اور پھر خوشبو کا تصویر میں ڈھل جانا اور سیارے پر رہ کر ستاروں میں ہونا یاپھر ستاروں پر موجود ہو کر سیاروں کی خبر دینا یقیناًپیراسائکالوجی کی مختلف منازل ہیں۔
مابعدالنفسیات میں رنگوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رنگوں کی نفسیات پر متعدد ماہرینِ نفسیات کی مکمل کتب شائع ہو چکی ہیں۔پکاسو نے رنگوں کے بارے میں کچھ یوں کہا تھا کہ رنگ بھی ، تاثرات کی طرح، جذبات کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔قاصر صاحب اپنے تیسرے مجموعے (دریا ئے گماں) کا نام پہلے "سارے رنگ ادھورے ہیں "رکھنا چاہتے تھے ۔ان کی شاعری میں رنگ کرداروں کی مانند نظر آتے ہیں۔
سب رنگ نا تمام ہوں ہلکا لباس ہو
شفاف پانیوں پر کنول کا لباس ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رنگوں کی طرح ہندسو ں کو بھی مابعدالنفسیات میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قاصر صاحب کی شاعری میں ہندسوں کے حامل اشعار انتہائی فکر انگیز اور بے پناہ وسعت سمیٹے ہوئے ہیں:
ساری چابیاں میرے حوالے کیں اور اس نے اتنا کہا
آٹھوں پہر حفاظت کرنا شہر ہے نَو دروازوں کا
کسی شے، مقام، شخص یا واقعہ کے بارے میں معلوم حواس کے علاوہ علم حاصل کرنے کی صلاحیت کو clairvoyance کہتے ہیں ،اس پس منظر میں درج ذیل اشعار ملاحظہ ہوں:
کیسے دیوار کے اس طرف
اس طرف کی عبارت مِلی
ََََََََََََ ۔۔۔۔۔۔
مَیں نے مانا حدِ نظر تک اُس کی جلوہ نُمائی ہے
اس سے آگے دیکھ سکو تو صرف مِری بینائی ہے
۔۔۔۔۔۔
خوابوں کی اہمیت کا تذکرہ گزشتہ مذاہب سے لے کر دینِ اسلام تک اور قدیم تاریخی حوالوں سے لے کر سگمنڈ فرائڈ اور کارل جنگ کے جدیدنفسیاتی نظریات تک ہر جگہ تفصیل سے موجود ہے۔ پیراسائکالوجی میں بھی خوابوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ قاصر صاحب کے خوابوں سے متعلق اکثر اشعار رومانوی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاص پر اسراریت لیے ہوئے ہیں۔
خواب گوں سائے نظر آتے ہیں بے خوابی کے
میرے کمرے کی فضا کتنی طلسماتی ہے
۔۔۔۔۔۔
اک خواب نما بیداری میں جاتے ہوئے ا س کو دیکھا تھا
احساس کی لہروں میں اب تک حیرت کا سفینہ بہتا ہے
قتیل شفائی نے قاصر صاحب کی وفات کے موقع پرکہا تھا کہ” قاصر کی منزل افق سے بھی پار تھی” انہیں معلوم تھا کہ افق سے پار دیکھنے والوں کی منزل ہی افق کے پار ہو سکتی ہے۔ قاصرصاحب نے بھی اپنی ایک نظم میں کچھ یوں دُعا مانگی تھی کہ” یہی دل کی روشنی اے خدا مَیں افق کے پار بھی رکھ سکوں” قاصر صاحب افق کے پار انہی دنیاوں میں کہیں موجود ہیں جن کی بازگشت ان کی شاعری میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ موضوع کا مکمل احاطہ تو نہیں کیا جا سکاتاہم امید کی جاتی ہے کہ اس کاوش سے قارئین قاصر صاحب کی شاعری کے اس زاویے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ ان کی کلیات” اک شعر ابھی تک رہتا ہے ” کا بھی واضح پیغام ہے کہ:
سکونت جس بھی سیارے پہ ہو ہم اپنی آنکھوں میں
نئے خِطوں کی خاطر خواہشِ تسخیر رکھتے ہیں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn