میں پہلی نظر کی محبت پر یقین رکھتی ہوں کیونکہ میرا ماننا ہے کہ ہر انسان دنیا میں آتے ہی سب سے پہلی نظر اپنی ماں پر ڈالتا ہے اور اسی لمحے اسے پہلی نظر میں محبت ہو جاتی ہے۔
ماں کے لیے کوئی ایک دن مخصوص یا مقرر نہیں کیا جا سکتا ۔ہماری زندگی میں ہر دن ماں کا دن ہے، ماں نہ ہو تو سب کچھ نا مکمل ہو گا ہر دن ادھورا ہو گا۔ماں کی محبت کوبیان کرنا گویا دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔
ہر سال ماں کے عالمی دن پر ہم اپنی ماؤں کو محبت بھرے پیغامات بھیجتے ہیں ۔اپنے الفاظ سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، تحائف دیتے ہیں۔لیکن سوچیئے کہ وہ ہستی جو زندگی بھر ہم سے بے غرض، بے لوث محبت کرتی آئی ہو کیا صرف ایک دن ہماری محبت کی حق دار ہوتی ہے؟کیا صرف ایک جملہ یا صرف ایک شعر لکھ دینے سے اس کی محبت کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ کبھی سوچا کہ اپنی روزمرہ عملی زندگی میں ہم کتنی بار اپنی ماں سے محبت کا اظہار کرتے ہیں؟ کتنی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر ماں ایک بات ایک سے زیادہ بار پوچھ لے تو ہم الجھ کر اسے جواب دیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اسی ماں نے ہمیں بولنا سکھایا ہے اور بچپن میں ہم بھی کتنی بار ایک ہی بات بار بار پوچھا کرتے تھے اور ہماری ماں ہر بار بڑی خندہ پیشانی سے ہماری بات کا جواب دیتی تھی۔
محبت کا اظہار صرف زبانی نہیں عملی ہوتا ہے۔کتنی بار ہم اپنی ماں کی ضرورت اوراس کے آرام کا خیال رکھتے ہیں؟کتنی بار ہمیں یہ خیال آتا ہے کہ دن بھر کام کرتے کرتے وہ تھک گئی ہوں گی، کیا ہم خود انہیں کبھی آرام کرنے کو کہتے ہیں؟ کتنی بار ہم ان کے کام کا بوجھ اور ذمہ د اری خود اٹھاتے ہیں؟ ہر گھر میں بیٹی تو ماں کو آرام دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن کیا بیٹے کبھی ایسا سوچتے ہیں؟ ماں اگر بیمار ہو یا تھکی ہوئی ہو ہم تب بھی یہی توقع کرتے ہیں کہ وہی ہمارے کام کرے۔
مائیں ایک گھر بناتی ہیں اسے سنبھالتی ہیں اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتی ہیں،انہیں پال پوس کر بڑا ہوتے اور اپنے اپنے مقام پر فائز ہوتے دیکھتی ہیں اور جب وہ اپنے فرائض سے فارغ ہوتی ہیں تو وہ تنہا رہ جاتی ہیں۔ہر شخص اپنی دنیا میں مگن ہو جاتا ہے، بیٹیاں بیاہ کر اپنے اپنے گھروں کی ہو جاتی ہیں ،بیٹے اعلیٰ تعلیم اور نوکری کرنے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں اور ماں تنہا رہ جاتی ہے۔لیکن ہم میں سے شاذ ہی کوئی اس کی تنہائی کو سمجھتا ہے یا سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
۔ہمارے مذہبب میں ماں کا درجہ، اس کا مقام سب سے بلند ہے، اس کے قدموں میں جنت ہے۔ہم ماں کے کسی بھی احسان کا بدلہ تو نہیں اتار سکتے مگر اتنا تو کر سکتے ہیں کہ صرف اس کے فرائض یاد نہ رکھیں اس کے حقوق کا بھی خیال رکھیں۔

ایک محنت کش خاتون ہیں۔ قسمت پر یقین رکھتی ہیں۔کتابیں پڑھنے کا شوق ہے مگر کہتی ہیں کہ انسانوں کو پڑھنا زیادہ معلوماتی، دل چسپ، سبق آموز اور باعمل ہے۔لکھنے کا آغاز قلم کار کے آغاز کے ساتھ ہوا۔ اپنی بات سادہ اور عام فہم انداز میں لکھتی ہیں۔ قلم کار ٹیم کا اہم حصہ ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn