یوم عاشور ، خانوادۂ اہلبیت علیہ السلام کی لازوال جدوجہد ، صبر و استقامت اور قربانیوں کی وہ بے نظیرداستان ہے جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا ۔ دس محرم اکسٹھ ہجری کو نواسہء رسول ؐ حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے رفقاء کو تین دن کا بھوکا پیاسا کربلا کے ریگزار میں شہید کردیا گیا لیکن ظلم و ستم کے باوجود کسی کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئی ۔ چودہ سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود اس غم اور قربانی کی یاد دلوں میں تازہ ہے اور دنیا بھر میں نہ صرف مسلمان بلکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے بھی شہدائے کربلا کی قربانیوں کو اپنے اپنے انداز میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں کیونکہ مولا حسین ؑ سے متاثر ہونے کیلئے مسلمان نہیں با ضمیر ہونا ضروری ہے ورنہ مسلمان تو قاتل امام ؑ بھی تھے ۔ یوم عاشورا حق و باطل کا وہ معرکہ ہے جو ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ثابت قدم رہنے کی جراّت عطا کرتا ہے ۔
اسلامی سال کاآخری مہینہ بھی قربانی کا ہے اور سال کے پہلے مہینے کی ابتداء بھی اس عظیم الشان قربانی سے ہے جس نے قیامت تک کیلئے کفر کے چہرے سے منافقت کی نقاب نوچ ڈالی ہے اور ہمیشہ کیلئے ان احادیث و روایات کی عملی تفسیر پیش کردی کہ ”شجرۂ طیبہ” کس نسل کوثر کانام ہے اور ”شجرہء خبیثہ” کون سی نسل ابتر ہے ۔ منافقین جنہوں نے خانوادۂ رسالت ؐ سے صرف اس لئے بغض و کینہ رکھا کہ اس خانوادے کے پیغام رسالت نے ان منافقین کے دنیاوی اقتدار کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجادی تھیں ۔ وہ لبادۂ اسلام اوڑھ کر بھی اولاد نبی ؐکے خلاف برسر پیکار نظر آئے ۔ بدر و احد میں مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے ہاتھوں فی النار ہونے والے کفار کی کینہ توز نسلیں 61ہجری میں خود مولا حسین ؑ کے مد مقابل صف آراء نظر آئیں ۔
ہم اپنی تاریخ کے اوراق جلا تو سکتے ہیں لیکن اس کے سینے میں چھپی ہوئی حقیقتوں سے نظریں نہیں چراسکتے ، ہم تاریخ کی کتابیں دریا برد تو کرسکتے ہیں مگر ان میں موجود حق کو جھٹلا نہیں سکتے ، ہم تاریخ پر نسیان کے پردے تو ڈال سکتے ہیں لیکن اس سچائی کا کیا کریں جو ان دبیز پردوں سے بھی آشکار ہوجاتی ہے ۔واقعہ کربلا کے بعد یزید کا اپنے اسلام کا اظہار اس طرح کرنا کہ حسین ؑ کا یومِ عاشورہ ، یوم بدر کا بدلہ ہے ، کیونکر بھلایا جاسکتا ہے ۔اخروی زندگی ، قران و نبوت کا انکاراور شراب خوری کے نشے میں دین احمد کو بدلنے کا اظہار کس طرح ذہنوں سے محو کیا جاسکتا ہے ۔ ( دیکھئے تذکرۃالخواص الامۃ ، صواعق محرقہ صفحہ ۱۴۲ ) ” یزید کی شراب نوشی اس قدر زبان زدعام تھی کہ عبداللہ ابن زبیر نے اس کا نام سکران (بدمست ) رکھ دیا تھا ۔ ” ( اخبار الطول صفحہ ۱۲۶) ۔ یہ ظاہر ہے کہ ” الناس علیٰ دین ملوکھم ( لوگ اپنے بادشاہوں کے دین پر ہوتے ہیں )” لہٰذہ یزید اپنی بد کرداری ، شراب نوشی اور فسق و فجور کے باعث دین اسلام کے راستے میں رکاوٹ تھا ۔ اپنے نانا کے دین کی بقا کی خاطر امام حسین علیہ السلام ، ان کے اہل خانہ اور رفقاء نے قربانیوں کی ایک لازوال داستان رقم کی جس سے اسلام کو مستقبل میں پیش آنے والے ہر خطرے سے چھٹکارا مل گیا اور حق اور باطل کا راستہ واضح ہوگیا ۔ اب منافقت کے پاس غیر جانبداری کے پردے میں چھپنے کے لئے کوئی آپشن نہیں ، جو حسینی ؑ راستہ ہے وہی حق ہے اور دوسرا راستہ یزیدیت ہے ۔
حسین و منی و انا من الحسین ، الحسن و الحسین سید الشباب اھل الجنۃ سمیت دیگر احادیث اور اپنے عمل کے ذریعے حضرت محمد مصطفیؐ نے بارہا اپنے نواسوں کی فضیلت و برتری سے لوگوں کو آگاہ اور ان سے بغض رکھنے سے خبردار کیا لیکن امت نے دنیاوی فائدے کے لئے آخرت کو داؤ پر لگا دیا ۔خلیفہء وقت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد حسب وصیت یزید بن معاویہ تخت نشین ہوا ۔ امیر معاویہ نے اس اقدام کیلئے بڑی حد تک میدان ہموار کردیا تھا ۔ صرف چند ہی شخصیات ہی ایسی رہ گئی تھیں جنہوں نے یزید کی بدکاریوں اور اسلام دشمن حرکت کے باعث مطالبہء بیعت کو ٹھکرادیا تھا ۔ یزید نے حاکم مدینہ کو حکم دیا کہ یاتو بیعت لو یا پھر سر قلم کردو ۔ دیگر شخصیات کی نسبت حضرت امام حسین ؑ سے یزید کے مطالبہء بیعت میں شدت تھی کیونکہ خانوادۂ رسالت کے جانشین ہونے کی حیثیت سے آپ کی بیعت یزید کی خلافت کیلئے ایک سند کا درجہ رکھتی تھی۔ انکار بیعت کے بعد مدینے میں شہید ہوجانے کے خطرے کے پیش نظر امام ؑ نے رخت سفر باندھا اور اپنے خاندان کے ہمراہ ۲۸ رجب ۶۰ ہجری کو مکہ کا رخ کیا ۔ پانچ روز بعد تین شعبان کو آپ وارد مکہ ہوئے کیونکہ صورتحال کی نزاکت کے پیش نظر یہ سفر تیزی سے طے کیا گیا تھا ۔ ایک مقررہ مدت تک قیام کیلئے مکہ کا انتخاب امام حسین ؑ کا ولیانہ تدبرتھا ۔ اس زمانے میں نشر و اشاعت کے جدید ذرائع نہیں تھے لہٰذہ ایام حج میں دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاج حسینی اغراض و مقاصد کو جلد پھیلانے کا ذریعہ ہوسکتے تھے ۔
آج کہا جاتا ہے کہ بڑے بڑے صحابہ اور مدینہ کے مدبر افراد امام کو مشورہ دے رہے تھے کہ مدینے سے باہر نہ جائیں تو پھر امام نے کیوں ہجرت کی؟ اس کا جواب دوران سفر بارہا امام حسین ؑ نے دیا کہ اللہ چاہتا ہے کہ مجھے شہید دیکھے ۔ میں وہی چاہتا ہوں جو اللہ چاہے تو پھر غیر معصوم لوگوں کے مشورے پر کیسے عمل کروں ۔ نیز میں نہیں چاہتا کہ مدینے میں ایک اور جعدہ بنت اشعت پیدا کرکے مجھے بھی قتل کردیا جائے اور میری شہادت بھی میرے بھائی حضرت امام حسن ؑ کی شہادت کی طرح مخفی رہ جائے ۔ اما م حسین علیہ السلام نہیں چاہتے تھے کہ مدینے کی بربادی اور حرم رسول ؐکی بے حرمتی کا الزام ان کے دامن پر آجائے ۔
اہل مدینہ کی بزدلی اور مذہبی جوش و جذبہ کی کمی بھی امام ؑ عالی مقام کے پیش نظر تھی ۔ رہی سہی کسر ابتدائی تین خلافتوں کے زمانے میں فتوحات سے ہاتھ آنے والے بیش بہا مال غنیمت نے پوری کردی تھی ۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ خاندان نبوت ؐ کا وہ درجہ ان لوگوں کی نگاہوں میں نہ تھا جو کہ ارباب اقتدار کا تھا جس کا عملی مظاہرہ امامؑ اپنے بھائی حضرت امام حسن ؑ کے جنازے میں دیکھ چکے تھے ۔ اہل مدینہ نے رسول ؐ کے بڑے نواسے کے جنازے پر تیر برستے دیکھے لیکن ٹس سے مس نہ ہوئے ۔ دین میں جاری خرابیوں اور رخنہ اندازیوں کا کسی کو احساس تک نہ تھا ، جنہیں احساس تھا وہ بھی حکومت وقت کے خوف سے خاموش تماشائی بنے رہے ۔ ایسے میں امام حسین ؑ کا مدینہ میں قیام جس قدر خطرناک تھا ، اتنا ہی بے نتیجہ بھی ۔
امام حسین علیہ السلام مکہ میں حاجیوں کے بھیس میں قاتلوں کی موجودگی کے ادراک کے ساتھ ہی حج کو عمرے سے تبدیل کرکے کوفہ کی جانب روانہ ہوئے اور کئی منزلیں طے کرتے ہوئے ۲ محرم کو داخل کربلا ہوئے ۔ یزید کے سپہ سالار حر بن یزید ریاحی نے امام ؑ کے قافلے کو روکا اور کربلا کے مقام پر خیمہ زن کروادیا ۔ بعد میں یہی سپہ سالار امام حسین ؑ کے اخلاق سے متاثر ہوکر اپنے کئے پر پشیمان ہوئے اور یوم عاشور اپنے بھائی ، بیٹوں اور غلام کے ہمراہ لشکر حسینی سے جا ملے ۔ حق و باطل کے معرکہ میں امام حسین علیہ السلام کی بصیرت کے باعث وہ کامیابیاں حاصل ہوئیں کہ اس سے زیادہ کی امید عبث ہے ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ کی بہن بی بی زینب بنت علی ؑ ا ور بیٹے اما م زین العابدین ؑ اپنے خطبوں کے ذریعے قیام حسینی کے مقصد کی ترویج کرتے رہے اور حاکم وقت کے مکر و فریب کا پردہ چاک کرتے رہے ۔ جس طرح تاریخ بادشاہان بنو امیہ و بنو عباس اپنی تمام تر برائیوں اور تلخیوں کے ساتھ یاد رکھی جائے گی ، اسی طرح امام حسین ؑ کی اپنے جانثاروں کے ہمراہ یہ بے مثال اور عظیم الشان قربانی ہر دور کے یزید کے خلاف خروج کرنے والوں کو جراّت و توانائی عطا کرتی رہے گی ۔
شاہ است حْسین بادشاہ است حْسین
دیں است حْسین دیں پناہ است حْسین
سر داد نہ داد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنا لا الٰہ است حْسین
ذکرِ حسین ؑ سے آپ کا جگر کیوں چھلنی ہوتا ہے صاحب؟ حیدر جاوید سید
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn