Qalamkar Website Header Image

ذکرِ حسین ؑ سے آپ کا جگر کیوں چھلنی ہوتا ہے صاحب؟

Haider Javed Syedمحرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی بنو امیہ کی روایات فونڈری میں ڈھالی گئی جعلی احادیث اور سیف بن عمر تمیمی کی داستانوں کو تاریخ و مذہب کے نام پر پیش کرنے والوں کے غول امنڈے چلے آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جعلی داستانوں اور روایات پیش کر کے آبادی کے ایک بڑے طبقے کی توہین و تکفیر کا فائدہ کیا؟ کیا بدامنی، بے ترتیبی اور انتہا پسندی سے معاشرے سلامت رہتے ہیں؟ سادہ سا جواب ہے کہ ہرگز نہیں۔ معاشرے اعتدال، توازن، محبت اور باہمی تعاون و احترام کے جذبوں پر استوار ہوتے ہیں اور یہی ان کی سلامتی کے ضامن بھی ہیں۔ مجھے اپنے کچھ دوستوں کی یہ بات بہت عجیب لگتی ہے کہ ’’شاہ جی! شیعہ کلنگ اور کربلا کے حوالے سے ناصبی مؤقف کی مذمت کر کے آپ اپنا وزن ایک فرقے کے پلڑے میں ڈال دیتے ہیں‘‘۔ حضور! کسی فرقے کے پلڑے میں وزن نہیں ڈالتا۔ ایک ادنیٰ طالب علم کا وزن ہی کیا؟ ہاں آپ کی تکلیف مجھے یہ ضرور سمجھاتی ہے کہ ’’بات جگر کو چیر گئی‘‘۔ یہ وہ بنیادی بات ہے جس کی بنیاد پر پچھلے چالیس برسوں سے (جب سے صحافت کے کوچے میں ہوں) صاف صاف عرض کرتا رہتا ہوں کہ پاکستان کے دستور کا بیانیہ فرقہ پرست ملاؤں کی قراردادِ مقاصد کو نہیں بلکہ محمد علی جناح کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء کو دستور ساز اسمبلی میں کی گئی تقریر کو ہونا چاہیے تھا جس کا ذکر آتے ہی عقیدوں کے کوٹھے چلانے والوں کا کاروبار خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ بہت حیران ہوتا ہوں ان دوستوں پر جو ہمیں تو اسلام اور امن کا بھاشن دیتے ہیں اور خود جالندھر کے ایک قصائی کا مذہبی چورن محرم الحرام میں جوش و جذبے سے فروخت کرتے ہوئے دوسرے طبقات کی دل آزاری کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں مولوی عبدالعزیز برقع پوش مجاہد اسلام دیکھائی دیتا ہے اور قوم پرست اسلام کے دشمن۔ یعنی مسلمان کہلانے کے لئے لازم ہے کہ جالندھر کے قصائی اور مولوی برقع پوش کے نظریات پر ایمان لایا جائے۔
ہم آگے بڑھتے ہیں، تمہیدی سطور میں کچھ دوسری باتیں زیرِ بحث آگئیں۔ میرا سوال وہی ہے کہ محرم اور ربیع الاول کے اجتماعات سے ان کو بیر کیا ہے؟ خدا کے بندوں دستورِ پاکستان میں لکھا ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے مذہبی و سیاسی اور شہری حقوق کی بلاامتیاز محافظ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ریاست نے کبھی اپنے حقیقی فرائض پر توجہ ہی نہیں دی بلکہ مخصوص مقاصد کے لئے مسلح لشکر پالے۔نتائج بائیس کروڑ پاکستانیوں کو بھگتنا پڑے۔ کسی شیعہ مسلمان مردوزن کے سفاکانہ قتل پر قلم اٹھاؤ تو یہ غم خوارانِ اسلام لمحہ بھر کی تاخیر کے بغیرسمجھانے آجاتے ہیں کہ ’’یہ نہ کہیں کہ شیعہ قتل ہوا ہے۔ یہ کہیں کہ پاکستانی قتل ہوا‘‘۔ ارے بھئی کیوں؟ جب قتل ہونے والے کو قتل ہی اس کی شیعہ شناخت پر کیا گیا تو بات بھی اسی شناخت کی بنیاد پر ہو گی اور احتجاج بھی۔ مثال کے طور چند دن قبل کوئٹہ میں جن چار شیعہ خواتین کو مسافر بس میں شناخت کے بعد قتل کیا گیا یا ۵ اکتوبر کی شام کراچی میں معروف ماہر تعلیم سید منصور زیدی کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی تو ہم اسے کیا نام دیں؟ اچھا یہ انسانیت پر حملہ تھا تو انسان دوست کہاں مر گئے؟ مسلمانوں پر حملہ تھا تو ملت اسلامیہ کا لڈو بیچنے والے دکان بند کر کے گھروں میں کیوں دبک گئے؟ معاف کیجیئے گاآگ لگے ایسی انسان دوستی اور باز آئے ہم ایسی مسلمانی سے جو سچ بولنے کے مانع ہو۔ پر کیا یہ سچ نہیں کہ پاکستان میں شیعہ نسل کشی کا دروازہ جنرل ضیاء الحق کی ایما پر ۱۹۸۵ء میں بننے والی انجمن سپاہ صحابہ نے کھولا۔ تین ناموں سے کالعدم ہوئی یہ دہشت گرد تنظیم آج کل اپنے چوتھے کالعدم نام سے سرگرم عمل ہے۔ ریاست اس دہشت گرد تنظیم کے لاڈ ایسے اٹھاتی ہے جیسے گھر داماد کے اٹھائے جاتے ہیں۔
سن ۱۹۸۵ سے پہلے کا پاکستان مختلف مکاتبِ فکر کے درمیان چند امور پر اختلافات کے باوجود پرامن پاکستان تھا۔ عزادارئ شبیر ؑ میں شیعہ سنی مل کر شریک ہوتے تھے۔ یہ تو ۱۹۷۳ء میں کراچی کے مولوی سلیم اللہ خان پر الہام ہوا کہ شیعہ مسلمانوں کے ایامِ غم اور ایام مسرت دونوں دراصل کچھ اسلامی ہستیوں سے بدلہ لینے کے ہیں۔ صاف سیدھے لفظوں میں یہ عرض کردوں کہ سلیم اللہ خان فطری اور فکری طور پر اس ٹولے سے تعلق رکھتے ہیں جسے آلِ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے خدا واسطے کا بیر ہے۔
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آلِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ایام مسرت کو زبردستی کسی کے غم کا دن قرار دینے کی بدعت نے مسائل پیداکئے۔ بہت وضاحت کے ساتھ بھی اس پہلو اور سازش پر عرض کیا جا سکتا ہے لیکن ایک مثال سے پوری سازش سمجھ لیجئے۔ خلیفہ دوئم حضرت عمرؓ کی شہادت ۲۶ ذی الحج کو ہوئی لیکن پاکستان میں ۱۹۷۳ء کے سال سے یہ یکم محرم الحرام کو منائی جاتی ہے۔ کیا مولوی سلیم اللہ خان طبری، جوذی، ابنِ اسحٰق، یعقوب جیسے مرحوم تاریخ نویسوں سے بڑے آدمی ہیں؟ کیا محض ایک شخص کے فتنے کو ’’حرمت‘‘ مان کر پوری تاریخ پر پانی پھیر دیا جائے؟ مکرر عرض کروں گا کہ آخر یہ سارے بیہودہ الزامات، حوالے اور اموی فونڈری میں گھڑی گئی رام لیلائیں محرم الحرام کی آمد کے ساتھ ہی کیوں یاد آنے لگتی ہیں؟ ثانیاََ یہ کہ شیعہ نسل کشی پر ریاست کی مجرمانہ خاموشی کو ہم کیا سمجھیں؟ سو اگر اندریں حالات یہ کہا جا رہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا مطلب و مقصد ہی شیعہ نسل کشی اور تکفیری درندوں کی ریاستی سطح پر سرپرستی ہے تو یہ کچھ غلط بھی نہیں۔ جب شیعہ سڑکوں پر، بسوں میں، گھروں کی دہلیزوں پر بے جرم خطا مارے جائیں گے اور قاتلوں کے سیاسی و مذہبی چہروں کو ریاستی تحفظ حاصل ہو گا تو سوال ہی نہیں انگلیاں بھی اٹھیں گی۔ حرفِ آخر یہ ہے کہ آپ اپنا عقیدہ اپنے پاس رکھیئے، دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلنے کی عادت ترک کر دیجئے۔ یا پھر اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیجئے اور کہہ لکھ ڈالئے کہ آپ یزید اور اس کی فکر کے وارث ہیں۔ یہ کیا کہ ’’صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں ‘‘مجھے ان آزادی پسندوں اور انسان دوستوں سے بھی شکوہ ہے (چند ایک کے سوا) جو شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں۔ اور جیسے ہی کسی طرف سے مذہبی اجتماعات خصوصاََ محرم اور میلاد کے جلوسوں کو عبادت گاہوں تک محدود کرنے کی بات آتی ہے تو آستینیں الٹ کر ہاں میں ہاں ملانے لگتے ہیں۔ ان جلوسوں سے مذہبی جذبات متاثر ہوتے ہیں، چلیں مان لیا تو پھر سیاسی جماعتوں کے دھرنوں اور جلوسوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں آپ؟ یہ بھی تو سو فیصد لوگوں کی ترجمانی نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے طبقوں کی نمائندگی فرماتے ہیں؟ صاف سیدھی بات یہ ہے کہ جیسے ہی حسین ؑ و کربلا کا ذکر آتا ہے آپ کو اپنے پرکھوں کے مظالم اور جرائم یاد آجاتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں اور آپ فکر یزید کے وارث نہیں تو پھر فیصلہ کیجئے اپنی شناخت کا۔ کیونکہ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ کربلانے دو کردار متعارف کروائے۔ ایک حسینیت ؑ اور دوسرا یزیدیت۔ خاموشی یزیدیت کی ہمنوائی ہے۔اور غیر جانبداری کھلی منافقت۔

حالیہ بلاگ پوسٹس