Qalamkar Website Header Image

امام حسین علیہ السلام: ایسی مرنی مرن گیا جو سنے وہ رو

rp_aamir-hussaini-new-247x300.jpgگرو جی بابا نانک نے جب کربلاء والوں کی ٹریجڈی بارے سنا تو ان پہ اس کا اتنا اثر ہوا کہ بے اختیار ایک شعر کہا

جگت حسین ؑ گرو ایسا ہور نہ کوئی

 ایسی مرنی مرن گیا جو سنے وہ رو
سارے جگ کے گرو حسین ؑ ایسا کوئی اور نہیں ہے ، ایسی موت ہوئی کہ جو سنتا ہے روتا جاتا ہے
گرونانک کے اس شعر پر مجھے سردار دھرم سنگھ اودھ والے یاد آگئے ۔ یہ مغلیہ دور میں “لکھنؤ ” میں علم عباس تیار کیا کرتے تھے اور عاشورہ کے دنوں میں اس کی زیارت کا اہتمام تزک واحتشام سے کیا کرتے ، ان سے کوئی پوچھتا کہ
دھرم سنگھ ! تم سکھ ہو اور یہ حسین ؑ کے لئے عقیدت کیسی ؟
تو سردار دھرم سنگھ گرو نانک کا قصّہ سناتے:
"انہوں نے اپنے ایک چیلے سے کہا کہ ” غم حسین ؑ منایا کرو ” اس نے اس پر تامل کیا ، تو کہا کہ اگر میں تمہیں کہوں ، اپنی بہن سے شادی کرلو ، تو کرو گے ، چیلے نے کہا ، نہیں ، گرو نانک نے کہا کیوں نہیں کروگے ؟ تو چیلے نے کہا میرے ضمیر کی آواز ایسا کرنے سے روکتی ہے تو گرو نانک نے کہا کہ جسے تم ضمیر کی آواز کہتے ہو ، وہ ہی تو حسین ؑ ہے ۔ ” غم حسین ؑ منانا ” اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا ہے”
میرے ایک دوست جن کی ” انا ” ان کے قد سے بہت بڑی ہے اس بات پر بہت پریشان تھے کہ ایسے ترقی پسند دانشور جو”مذہب ” سے دور بھاگتے ہیں ( حالانکہ ان کو کہنا چاہئیے تھا کہ ” ملائیت سے دور بھاگتے ہیں ) محرم آتے ہی “مذہبی ” کیوں ہوجاتے ہیں ؟ (حالانکہ مذہبی کی بجائے ان کو ” حسینی ” لکھنا چاہئیے تھا ) تو مجھے لگا کہ گوہر ملسیانی نے ایسے کم نظروں کے لئے یہ شعر کہا تھا ،
عشق بے خبر گزرے خیر و شر کے عقدوں سے ۔ آزو کی سیتا کو رام کون ، راون کون
اور میرے دوست اگر ” عبرت پکڑتے ” تو وہ دیکھ لیتے کہ ان کی اس عبارت کے فیس بک پر ظہور کرتے ہی کیسی دھماچوکڑی مچی ، کیسے فرقہ پرست ان کی اس بات کو لے اڑے اور ان کے لفظوں سے ہی ” جھاگ ” نکلتے تھے اور ایسے لگتا تھا جیسے کوئی ” وحشی ” شام کی گلیوں اور بازاروں میں کسی کو ” نیزہ مار کر اور اس کا کلیجہ نکال کر ” کسی چبانے والی کو دینے کا قصّہ منظوم اشعار میں سنارہا ہو اور کوئی ” عتبہ و شیبہ و ولید ” کے قتل کا حساب برابر کرنے کا فلسفہ ” قتل حسین ؑ ” کو قرار دے رہا ہو
مجھے ایک بے چینی لگی ہوئی ہے اور بےچینی اس وجہ سے ہے کہ سوشل میڈیا پر ” اردو ” میں اس ” فلتھی اور کوڑا کرکٹ ” کی گندی صحافت کا احیاء ہورہا ہے جو ایک زمانے میں پنجاب اور ” اودھ ” کے ورناکیولر پریس کا وطیرہ رہی ہے اور فیس بک سٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہوئے ، اس میڈیم کو بہت ہی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت استعمال کیا جارہا ہے ۔
اس مرتبہ ” محرم الحرام ” میں جس طرح سے ” محرم کی ثقافت ” کو "فرقہ وارانہ اور تکفیری فاشزم ” کی تنگ قبروں میں دفنانے کی کوشش ہوئی ، اس نے مجھے احساس دلایا کہ میں اور زیادہ ” محرم ” کے گنگا- جمنی ۔ سندھو ثقافتی پس منظر اور اس سے ابھرنے والی سیکولر مذہبیت پر لکھوں ۔
کسی نے یہ کام تاریخ کے راستے سے کرنے کی کوشش کی ، کسی نے یہ کام ” قرآن اور حدیث ” کا نام لیکر کرنے کی کوشش کی ، کسی نے ریشنل ازم اور ریشنلٹی کے نام پر ، کسی نے لبرل ازم کے نام اور کسی نے سماج واد ، اشتراکیت کے نام پر اور اس سب کا مقصد یہ تھا اور ہے کہ ” کربلاء ، عاشور اور حسین ؑ ” ملکر برصغیر پاک و ہند میں جس ” گنگا ۔ جمنی ۔ سندھو تہذیبی ثقافتی محرم ” کی روایت کو تشکیل کرتے ہیں ،اس کو ایک اجنبی ، وقت کا ضیاع ، ڈرامہ بازی ، اسراف پسندی ، اسلام کو مسخ کرنے والی ، یہودی سازش ، استحصالی طبقات کا ڈرامہ ، تاریک خیالی ، رجعت پرستی قرار دے دیا جائے اور نئی نسل کو اس تہذیب اور ورثے سے بے گانہ کیا جائے
کتنی عجیب بات ہے کہ مجلس ، سبیل ، نیاز حسین ؑ ، نوحہ خوانی ، مرثیہ خوانی ، جلوس عزاداری کو روکنے کے لئے ایک طرف تو تکفیری فاشسٹ ہیں جو خودکش بم دھماکوں ، ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے سے اس روایت کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں تو دو سری طرف کیا دایاں بازو ، کیا کمرشل لبرل ، بائیں بازو کا دم چھلّہ لگائے بہروپئے اور کیا خود کو سماج واد کہتے پھرتے ٹٹ پونجئے دانشور اور احمق قسم کے جغادری تجزیہ نگار ” سوفسٹری سے ، سفسطہ پن سے ہر دلیل کو اس ساری پریکٹس کے خلاف استعمال کررہے ہیں اور اسے زبردستی بس مسلمانوں کے ایک مکتبہ فکر ” اثناء عشری شیعہ ” تک محدود کرنے کی کوشش کررہے ہیں-
خود ” اثناء عشری شیعہ ” میں ایسے ” وہابی شیعہ ” کا جنم ہوا ہے جو ” محرم کی ثقافت کی گونا گونی اور رنگا رنگی ، تنوع اور تکثیریت ” سے چڑ کھاتے ہیں اور وہ اس کی ” سیاسی غیر تاریخی ، غیر ثقافتی تجریدی تعبیر "کے اتنے شوقین ہیں کہ اسے علم کلام کا ایک نظری ایشو کے علاوہ کچھ اور سمجھنے کو تیار نہیں ہیں ۔
ان سب کا ہدف اور ٹارگٹ کیا ہے ؟ کیا وہی نہیں جو خودکش حملہ آوروں ، بارود سے بھری گاڑی یا ٹرک یا ریموٹ کنٹرول بم ڈیوائس کا ہے ؟ لشکر جھنگوی ، داعش ، القائدہ ، جماعت الاحرار ، طالبان کیا چاہتے ہیں ؟ وہ ریشنلسٹ / عقلیت پسند ، مارکس واد ، اشتراکی ، لبرل ، سیکولر جو “محرم کی ثقافتی جہتوں ” کو “ڈراما بازی قرار دیکر اس کو چار دیواری میں بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ، یا جو اس ثقافتی جہت کے ساتھ وابستہ ہونے والے ترقی پسندوں کو فتوی دیکر ” ترقی پسندی ” سے خارج کرتے ہيں ۔
کیا حق نواز جھنگوی ، ضیاء الرحمان فاروقی ، علی شیر حیدری ، محمد احمد لدھیانوی ، اورنگ زیب فاروقی ، اور ان سب سے پہلے شیخ ابن تیمیہ ، محمد بن عبدالوہاب نجدی اور بعد میں اسامہ بن لادن ، ایمن الاھزاوی ، مصعب الزرقاوی ، شیخ التونسی ، ابوبکر البغدادی ،تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان الخراسانی سے مختلف ان کا ہدف ہے ؟ہرگز نہیں
بہرحال انتظار حسین ؑ نے اپنی کتاب ” جستجو کیا ہے ” جو دھلی سے شایع ہوئی اس میں ” حسینی برہمن زادی ” سے ملاقات اور ” حسینی برہمن ” کے دو باب شامل کئے ہیں اور بتایا کہ کیسے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی شعبہ تاریخ کی پروفیسر نونیکا دت سے ان کی ملاقات ہوئی اور ایک لیکچر جس کے دوران انہوں نے ” حسینی برہمن ” کو ایک افسانوی وجود قرار دیا تو یہ پروفیسر نونیکا دت تھی جو کھڑی ہوئی اور اس نے کہا کہ ” حسینی برہمن ” ایک حقیقت ہیں اور وہ اسی ” حسینی برہمن ” خاندان سے تعلق رکھتی ہے ، معروف اداکار سنیل دت نے  لاہور شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ڈونیشن کے لئے منعقدہ تقریب کے دوران اپنی تقریر میں ” حسینی برہمن ” ہونے کا اعتراف کیا اور کہا کہ ان کے آباءواجداد نے امام حسین ؑ کے لئے قربانی دی تو وہ بھی کربلاء والوں کے لئے قربانی دینے سے دریغ نہیں کریں گے
پروفیسر نونیکا دت نے انتظار حسین ؑ کو بتایا تھا کہ ان کے گھروں میں کچھ اشعار ہیں جو عقیدت و محبت اور بطور مقدس بھجن کے پڑھے جاتے ہيں
بجے بھیر کو چوٹ ، فتح میدان جو پائی
بدلہ لیا حسین ؑ دھن دھن کرے لوکائی
راہب کی جو جد نسل ہوئی حسین ؑ جوائی
دئے سات فرزند بھئی کبول کمائی
سب کائر بھاگ گئے ، جاندے نظر نہ آوے
مدد دی حسین ؑ ، کدم پیچھے نہ پاوے
نونیکا دت نے انتظار حسین ؑ کو دو ایک موٹی انگریزی کی پرانی تاریخ کی کتابوں سے کچھ اوراق پڑھ کر سنائے تھے اور بتایا تھا کہ ” راہیب دت اور ان کے سات بیٹے ” 680ء میں واقعہ کربلاء کے وقت امام حسین ؑ کی خدمت میں موجود تھے اور یہ سات بیٹے امام حسین ؑ کی دعا کا نتیجہ تھے اور یہ سب کربلاء میں امام حسین ؑ کی خاطر لشکر یزید سے لڑے اور سات بیٹے وہاں شہید ہوگئے اور راہیب دت وہاں سے زندہ واپس آئے ، یہ افغانستان کے راستے سے ہوتے ہوئے پہلے ننکانہ اور پھر سیالکوٹ آئے اور وہان ایک بستی ” ویرن تن ” کے نام سے بسائی تھی ، اداکار سنیل دت اور نرگس کے والد یعنی سنجے دت کے نانا ” حسینی برہمن ” تھے اور نونیکا دت کے مطابق حسینی برہمنوں کے ہاں جب بچے کے سر کے بال مونڈھے جاتے تو یہ کام ” امام حسین ؑ ” کا نام لیکر کیا جاتا ہے-
مغلوں کے دور میں ہندوستان کی ریاست ” اودھ ” جو بعد میں اتر پردیش کے نام سے مشہور ہوئی پہلا علم مغلوں کے ہاں سپہ سالار سردار دھرم سنگھ نے تیار کیا تھا اور یہ علم عباس بہت مقبول ہوا تھا اور اسی سردار دھرم سنگھ نے لکھنؤ کی معروف کربلاء ” کاظمین ” بنائی تھی ، جھانسی کی رانی ” لکشمی بائی ” نے جھانسی کے اندر ایک امام باڑہ بنایا اور ہر عاشور پر مجلس عزاء کا اہتمام کیا جاتا جس میں رانی جھانسی خود شریک ہوا کرتی تھی اور بعد ازاں بھی رانی جھانسی کی شروع کردہ یہ مجلس اسی امام باڑہ میں اہتمام کے ساتھ ہوتی رہی-
روپ کماری کا مرثيہ نگاری میں اہم مقام ہے اور روپ کماری نے مرثیہ نگاری میں اپنی عقیدت کا اظہار سنسکرت ،پراکرت اور ہندؤ مت میں بلند رتبہ لوگوں کے لئے استعمال کئے گئے استعاروں سے امام حسین ؑ اور کربلاء سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا-
انتظار حسین ؑ اسے ” گنگا -جمنی مرثیہ کہتے ہیں ، ہندوستان کا شمال ہو کہ جنوب دونوں میں بولی جانے والی زبانوں میں جناب حسین ؑ اور واقعہ کربلاء کے لئے عقیدت موجود ہے اور اس کو وہاں کی مقامی ثقافتوں میں قبول عام ملا ہے ، ہندوستانی راجواڑے ہوں ، کہ تیلگو ، ملیالم ، برج بھاشا ، ہریانوی ہو کہ پنجابی ، راجھستانی ہو کہ سرائیکی ، سندھی سب میں ” حسینی کلچر ” کی خوشبو اور مظاہر نظر آتے ہیں-
میں نے ” کربلاء اور حسین ؑ ” کے برصغیر کی ثقافت میں اہم مقام ہونے کا اشارہ کیا ہے ورنہ اگر آپ مڈل ایسٹ ، شمالی افریقہ ، وسط ایشیا جہاں بھی جائیں گے وہاں وہاں کی مقامیت کے اندر ” حسینیت اور اس کے ثقافتی نشانات ” آپ کو بخوبی نظر آئیں گے اور آپ کا کینویس وسیع ہوتا چلاجائے گا-
کربلاء میں عراق کے مسیحی جو کہ قدیم اساری ، کلادین اور آرمینین نسلوں کے باشندے ہیں ایک ہزار سال سے عاشوراء محرم کے موقعہ پر صلیبیں اٹھائے آتے ہیں اور جناب یسوع مسیح اور پاک مریم کی جانب سے حسین ؑ علیہ السلام کو اپنے مخصوص انداز میں عقیدت کے پھول پیش کرتے ہیں-
مبشر زیدی ” سو لفظوں کی کہانی ” والے نے حال ہی میں اپنی کربلاء یاترا کے موقعہ پر رپورتاژ لکھتے ہوئے بیان کیا کہ
رات کو کراچی سے ایک دوست کا فون آیا ، کہنے لگا کہ کربلاء سے تھوڑی سی خاک شفا لیتے آنا ، میں نے کہا
یار تم تو ملحد ہو ، خدا کو نہیں مانتے تو اس خاک کا مطالبہ کیسا ؟
اس نے بے اختیار کہا
ملحد ہوں مگر حسین ؑ کو مانتا ہوں
مجھے اس روپ کماری کا سلام عقیدت بحضور امام حسین ؑ یاد آیا
بے دین ہوں، بے پیر ہوں
ہندو ہوں، قاتل شبیر نہیں
حسین ؑؑ اگر بھارت میں اتارا جاتا
یوں چاند محمد کا، نہ دھوکے میں مارا جاتا
نہ بازو قلم ہوتے، نہ پانی بند ہوتا
گنگا کے کنارے غازی کا علم ہوتا
ہم پوجا کرتے اس کی صبح و شام
ہندو بھاشا میں وہ بھگوان پکارا جاتا
انگریزی میں اپنے ” طنزیہ جملوں ” سے کمرشل لبرل مافیا کی خبر لینے والے ” ریاض ملک ” نے اس ساری صورت حال پر جو تبصرہ کیا وہ بھی کمال کا ہے ، وہ لکھتے ہیں

یہ بھی پڑھئے:  انسان اشرف المخلوقات

The global Azadari for Imam Hussain continues in defiance of multiple suicide attacks by Takfiri Deobandi and Salafi terrorists. The so-called “Progressives”, Sufyani “liberals” and Uncle Tom Shia collaborators and apologists for Takfiri terror groups continue to lecture against Azadari and continue to deflect the blame away from the actual terrorists.

تکفیری دیوبندی سلفی دہشت گردوں کے خودکش حملوں کے جلو میں عالمی عزادری امام حسین ؑ کا سلسلہ جاری ہے ۔ نام نہاد ” ترقی پسند ” سفیانی ” لبرل ” اور انکل ٹام شیعہ مدگار و تکفیری دہشت گردوں کے معذرت خواہ عزاداری کے خلاف اپنے بھاشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور ” اصل دہشت گردوں پر الزام دہی ” کو کسی اور طرف پھیرنے کا کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں

Those who make a living out of campaigning for Baloch and Sindhi nationalism continue with their selective, dastardly, insensitive and obfuscatory narrative regarding the women and children killed in the bomb blasts targeting Azadari processions in Balochistan and Sindh in the last 48 hours.

وہ جو سارا سال بلوچ اور سندھی نیشنل ازم کی مہم چلاتے رہتے ہیں ، کزشتہ 48 گھنٹوں میں بم دھماکوں میں سندھ اور بلوچستان کے اندر عزاداری کے جلوسوں میں خودکش بم دھماکوں میں شہید ہونے والے بچوں اور عورتوں کی ہلاکتوں کے بارے میں اپنا بزدلانہ ، بے ذوق و بے حس اور گول مول بیانیہ جاری رکھے ہوئے ہیں

یہ بھی پڑھئے:  ہنوز دلی دور است

Those who persistently and selectively protest in favour of Palestinians and whose outrage is only awakened when Hindutva thugs spray ink on their opponents; are least bothered by the ongoing massacres of Hussaini Azadars in their own backyard in Pakistan.

وہ جو مسلسل اور انتہائی منتخب کردہ انداز میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاج جاری رکھتے ہیں اور جن کا خون صرف اس وقت ابلتا ہے جب ہندو اپنے مخالفین کے چہروں پر سیاہی پھینک دیتے ہیں ان کا یہ خون کم از کم اپنے پیچھے صحن میں پاکستان کے اندر حسینی عزاداروں کے قتل عام پر کم ہی جوش میں آتا ہے

It is revealing that Takfiri Deobandi terrorists groups like ASWJ-LEJ concentrate on targeting the Sunni, Shia, Christian, Athiest and Hindu Azadars of Imam Hussain. Similarly sectarian bigots who disguise their prejudice with lefty-secular discourse focus their outrage on the same Azadari instead of those cowards who attack unarmed Azadars.

یہ بہت واضح ہے کہ تکفیری دیوبندی دہشت گرد گروپ جیسے اہلسنت والجماعت ہے کا نشانہ شیعہ ، مسیحی ، ملحد اور ہندؤ عزادارن امام حسین ؑ ہیں تو ایسے ہی فرقہ پرست متعصب جو کہ اپنے تعصبات کو لیفٹی ۔ سیکولر ڈسکورس میں چھپاتے ہیں ، اپنے غصّے کا رخ ان بزدلوں کی جانب کرنے کی بجائے جو ان غیر مسلح عزادروں پر حملہ آور ہوتے ہیں کی بجائے انہی عزاداروں پر کرتے ہیں

Meanwhile the Alam (flag) of Maula Abbas, symbolic of sacrifice and taking a stand, continues to flutter from New York to Nigeria. The rhythmic beats of hand hitting chest as a universal symbol of protest is heard worldwide as Azadars of all ۔

اسی دوران علم عباس ، جوکہ اس قربانی کی علامت ہے نیویارک سے نائجیریا تک ایستادہ اور پھڑپھڑاتا نظر آرہا ہے اور احتجاج کی ایک عالمگیر علامت کے طور پر سینوں پر پڑتے ہاتھوں سے برآمد ہونے والی موسیقائی لہریں عزاداروں کے ذریعے چار دانگ عالم میں سنائی دے رہی ہیں
اور کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ
در حسین ؑ پرملتے ہیں ہرخیال کے لوگ

 یہ اتحادکامرکزہے آدمی کے لئے
اور روپ کماری نے کہا تھا
نجف ہمارے لئے ہر دوار و کاشی ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس