دو ماہ پہلے کراچی ٹول پلازہ سے مبینہ طور پہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہاتھوں جبری گمشدہ ادیب واحد بلوچ کے خاندان نے ایک اپیل پوسٹر کی شکل میں سوشل میڈیا کو جاری کی ہے جس میں انہوں نے واحد بلوچ کی رہائی کی تحریک چلانے والوں سے درخواست کی ہے کہ ان کے والد کی بازیابی کی اپیل کرتے ہوئے ،ان کے والد کو ایسے سیاسی خیالات اور جماعتوں سے منسوب نہ کیا جائے ، جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اس پوسٹ کا ایک پس منظر یہ ہے کہ ایک بلوچ قوم پرست ویب سائٹ جو کہ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی حامی ہے اور مسلح جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ،نے واحد بلوچ کی تصویر اور ہانی بلوچ کی تقریر کے بیک گراؤنڈ میں مبینہ آزاد بلوچستان کا جھنڈا لگایا اور ساتھ ہی مبینہ الگ بلوچ ریاست کا ترانہ بھی اس کلپ کے ساتھ شامل کردیا۔واحد بلوچ کے خاندان کا خیال یہ ہے کہ اس طرح کی پوسٹوں سے واحد بلوچ کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوگا کہ وہ پاکستانی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی تھے ، ان کے دہشت گردوں سے تعلقات تھے ، اور بلوچستان میں وہ پاکستانی ریاستی فورسز سے لڑنے والوں کی مدد کررہے تھے 150اس سے یہ تاثر بھی پختہ ہوگا کہ واحد بلوچ کوئی بہت ہی خطرناک قسم کے مجرم تھے جن کو ٹھیک ہی غائب کردیا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ واحد بلوچ کے خاندان کی بات یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ واحد بخش بلوچ کو وہ بناکر پیش کیوں کیا جائے جو وہ تھے نہیں ، اور آزاد بلوچستان پانے کے لئے مسلح جدوجہد کا راستہ اپنانے والی بلوچ تنظیموں کو واحد بلوچ کا کندھا اپنے کاز کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئیے 150لیکن واحد بلوچ کی بازیابی کے کیس کو ملنے والی اہمیت اور اس حوالے سے پاکستان میں چھائی خاموشی ٹوٹ جانے سے پیدا ہونے والی صورت حال کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
واحد بلوچ جب جبری گمشدہ افراد کی لسٹ میں شامل ہوئے تو پہلے پہل اس کیس کو معمول کا ایک کیس خیال کیا گیا۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کراچی چیپٹر نے اسے واحد بلوچ کے خاندان کے ان سے رابطہ کرنے پہ ہینڈل کرنا شروع کیا۔اور اس حوالے سے ان کو ایف آئی آر کے اندراج تک میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ ریاست کے متعلقہ حکام اس حوالے سے ہیومن رائٹس کمیشن فار پاکستان کی جانب سے لکھے گئے خطوط کا جواب تک دینے سے انکاری تھے۔پھر جب ہانی بلوچ (واحد بلوچ کی بیٹی)نے سندھ ہائی کورٹ میں اس حوالے سے رٹ دائر کی تو سندھ حکومت ، وفاقی حکومت ، سندھ رینجرز اور سندھ پولیس نے اس بات سے ہی انکار کرڈالا کہ واحد بلوچ کے اہل خانہ نے ان سے کبھی رابطہ کیا یا خط بھیجے تھے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے پیچھے جو عناصر کارفرما ہیں ،وہ کتنے طاقتور ہیں۔لیکن اس کے بعد واحد بلوچ کی بازیابی کے حوالے سے ایک فیصلہ کن موڑ اس وقت آیا جب مجھ سمیت کئی لوگوں نے یہ دیکھا کہ مین سٹریم میڈیا کے کئی بڑے نام اور سول سوسائٹی کے بھی کئی لوگ واحد بلوچ کی بازیابی پہ سوال اٹھانے اور ٹاک شو کرنے تک سے احتراز برت رہے ہیں تو سوشل میڈیا کو استعمال کیا گیا۔جبکہ انفرادی روابط بھی کئے گئے اور اس طرح سے ایچ آر سی پی کراچی میں ہی ایک بڑی میٹنگ رکھی گئی اور پھر 3 اکتوبر کو ایک بڑی احتجاجی ریلی بھی کراچی سے نکلی ، اس دوران دوستوں کی کوشش سے انٹرنیشنل میڈیا اور سوشل میڈیا کے کئی نامور بلاگرز نے بھی واحد بلوچ کی بازیابی کا سوال اٹھایا۔اور اس ساری تحریک کے نیجے میں اب لاہور میں بھی 21 اکتوبر کو ایک بڑا احتجاجی ریلی کا انعقاد کیا جارہا ہے جبکہ فیصل آباد و اسلام آباد میں بھی ایسی ہی ریلیوں کا انعقاد ہوگا۔مین سٹریم میڈیا میں انگریزی پریس کے موڈ میں بدلاؤ آیا ہے اور دی نیوز اور ڈیلی ٹائمز نے تو باقاعدہ اداریوں میں واحد بلوچ جبری گمشدگی کیس پہ سوال اٹھاتے ہوئے ، جبری گمشدگیوں بارے سوالات اٹھائے ہیں۔ڈیلی ڈان نے بھی اس حوالے سے ہانی بلوچ کا خط اور دیگر خبریں شایع کی ہیں۔اکرچہ اردو پریس ابھی تک کھل کر اس حوالے سے اپنی جھجھک دور کرنے میں ناکام رہا ہے۔لیکن سندھی پریس نے اپنی زندگی کا ثبوت دیتے ہوئے ، اس معاملے پہ کھل کر بات کی ہے
واحد بلوچ بازیابی تحریک کی پہلی کامیابی یہ ہے کہ اس نے سیاسی کارکنوں ، سماجی رضاکاروں ، دانشوروں ، ادیبوں صحافیوں ، اساتذہ سمیت کئی عوامی حلقوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔ اور ریاست کی جانب سے یہ جو غالب پروپیگنڈا ریاستی و نجی میڈیا پہ ہر وقت چلتا رہتا ہے کہ ریاستی اقدامات بلوچستان کے اندر غیر ملکی سازشوں کا خاتمہ ، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے اور بلوچستان میں ترقی کے نئے راستے کھولنے کے لئے کیا جارہا ہے ، اسے تھوڑی سی شکست دینے میں مدد ملی ہے۔
واحد بلوچ کی بازیابی کی تحریک کے بڑھ کر تمام جبری گمشدہ لوگوں کی بازیابی کی تحریک بننے کے امکانات روشن ہیں۔اور اس دوران کیچ ڈسٹرکٹ بلوچستان سے یہ خبر سامنے آئی ہے کہ وہاں پاک۔چین اقتصادی راہداری کے خلاف مہم چلانے والے بلوجستان سٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے ترجمان شبیر بلوچ کو سیکورٹی ایجنسیوں نے ایک آپریشن کے دوران اٹھالیا ہے۔شبیر بلوچ ایک طالب علم ہے اور اس کا عسکریت پسندی یا دہشت گردی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ہاں وہ سی پیک کو بلوچستان کی ترقی کا راستہ خیال نہیں کررہا تھا اور اس کے خلاف پرامن بیداری کی تحریک چلانے کی کوشش کررہا تھا۔اب یہ ریاستی اداروں کو بتانا ہے کہ سی پیک کی محالفت کرنا اور اس کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرنا کہاں کی غداری یا دہشت گردی ہے۔میگا پروجیکٹس کے بارے میں اختلاف رکھنا ریاست سے غداری کب سے ہونے لگی ہے ؟ یہ سوال شبیر بلوچ کے اٹھائے جانے سے صاف سامنے آیا ہے۔واحد بلوچ ، شبیر بلوچ ، مجید بلوچ سمیت ابتک جتنے بھی بلوچ جبری طور پہ گم کئے گئے ان کے بارے میں آج تک کسی بھی سطح پہ یہ حقیقت سامنے نہیں لاجاسکی کہ اکر وہ آئین و قانون سے بالا سرگرمیوں میں ملوث تھے تو ان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کو عدالتوں کے سامنے پیش کرنے سے گبھراہٹ کیسی ہے؟حکومت اور ریاست کے ترقیاتی ماڈل پہ اختلاف کرنے اور اس حوالے سے پرامن جدوجہد کرنے والوں کا ریاستی اداروں کی جانب سے اٹھایا جانا ، گم کردیا جانا کسی بھی لحاظ سے درست نہ ہے۔ریاست ایسے سوال اٹھانے والوں کی آواز بھی خوف اور تشدد کے زریعے سے بند کردینا چاہتی ہے۔اور یہ طریقہ سامنے آیا ہے کہ اختلاف کرنے والوں کے خلاف یا تو انسداد دہشت گردی ایکٹ کا استعمال کیا جائے ، جیسے انجمن مزارعین پنجاب اوکاڑہ کے صدر مہر عبدالستار کے خلاف کیا گیا یا پھر پاکستان پروٹیکشن ایکٹ کا استعمال ہو اور سب سے بدترین یہ کہ سادہ لباس والے اختلاف کرنے والوں کو چپکے سے اٹھاکر غائب کردیں اور پھر ریاست کا کوئی ادارہ زمہ داری قبول نہ کرے کہ مذکوہ فرد ان کی کسٹڈی میں ہے 150 مسخ شدہ لاشوں کا ملنا ، دانشور ، ادیب ، سیاسی کارکن کا گم کردیا جانا دہشت پھیلانے ، اور خوفزدہ کرنے کے لئے ہے۔لیکن واحد بلوچ کی بازیابی کے گرد تعمیر ہوتی تحریک نے اس خوف کے بت کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ امید کی جاسکتی ہے کہ یہ تحریک بڑھتی چلی جائے گی اور ریاست کو ماورائے آئیں و قانون حربے ، ہتھکنڈے ترک کرنے پڑیں گے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn