اسلام کے صوتی علوم کے سلسلہ میں آج ہم جس فن کے بارے میں بات کر رہے ہیں اس کا تعلق لحن، ترنم سے تو نہیں لیکن یہ علم بجائے خود ایک بہت بڑا علم ہے۔اور تحت اللفظ یا خوانندگی کو بھی اگر صوتی فن یا صوتی علم تسلیم کر لیا جائے تو یہ فن اس طرح کے تمام فنون میں پہلے نمبر پر شمار کیا جائے گا۔یہاں ہماری مراد مرثیہ خوانی کے فن سے ہے۔مرثیہ گوئی شاعری کا نقطۂ عروج ہے اسی طرح مرثیہ خوانی ، تحت خوانی کا نقطۂ کمال ہے۔
اس علم کا آغاز اب سے کوئی ڈیڑھ دو سو برس لکھنؤ سے ہوا۔ ڈاکٹر نیر مسعود نے اپنی کتاب ’’مرثیہ خوانی کا فن ‘‘ میں لکھا ہے کہ گو یہ فن پہلے سے موجود تھا مگر اسے باقاعدہ فن کی حیثیت میر ضمیر نے دی جو مرزا دبیر کے استاد تھے۔ میر ضمیر کے سب کے اہم مد مقابل میر خلیق تھے ، چنانچہ انہوں نے بھی اس فن پر بھر پور توجہ دی۔میر ضمیر اور میر خلیق کے بعد مرثیہ کے میدان میں مرزا دبیر اور میر انیس نے اپنے جھنڈے گاڑے اور یوں مرثیہ گوئی کے ساتھ ساتھ مرثیہ خوانی کا فن بھی اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گیا۔ڈاکٹر نیر مسعود نے اپنی کتاب مرثیہ خوانی کے فن میں لکھا ہے کہ انیس ، اس فن کے سب سے بڑے فن کار تھے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اس فن کو بام عروج تک پہنچایا بلکہ اس کے عناصر بھی وضع کئے۔۔ مرثیہ خوانی کے جو عناصر قابل توجہ قرار پائے ان میں آواز، لہجہ، ادائے الفاظ، چشم و ابرو کے اشارے کے ساتھ ساتھ ہاتھوں اور بدن کی جنبشوں سے کوئی مضمون ادا کرنا شامل تھا جسے مرثیہ خوانی کی اصطلاح میں ’بتانا‘کہتے ہیں۔
مرثیہ خوانی کے یہ عناصر جو بیان کئے گئے بڑی توجہ کے حامل ہیں۔ مثلاً آواز سے مراد یہ ہے کہ مرثیہ خواں کی آواز بلند ہو اور اس میں مناسب اتار چڑھاؤ ہوں۔ لہجہ سے مراد ہے کہ اگر ایک مصرعہ کئی مرتبہ پڑھا جائے تو ہر مرتبہ اس کی نئی معنویت سامنے آئے۔ مثلاً مرزا دبیر کا یہ مصرعہ ’’ کیوں تم نے میرے بھائی کے قاتل سے بات کی‘‘ تین طرح پڑھا جا سکتا ہے۔اس انداز کو رخ سے پڑھنا بھی کہا جاتا ہے۔پھر ادائے لفظ ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کس مصرع کو کہاں کہاں روکنا ہے اور کہاں کہاں پڑھنا ہے۔ چشم و ابرو کے اشارے سے مراد ہے کہ مصرعے کو اس طرح پڑھا جائے کہ محسوس ہو کہ مرثیہ خواں جو کچھ بیان کر رہا ہے اسے دیکھ بھی رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب میر نفیس نے یہ مصرعہ پڑھا کہ ’’ وہ گرد اٹھی وہ جگر بند بو تراب آیا‘‘تو تمام اہل مجلس خوف زدہ ہو کر گردنیں گھما کے دیکھنے لگے معلوم ہوا ،جیسے کوئی شیر آ گیا ہو۔جہاں تک مرثیہ خوانی کے آخری عنصر یعنی ’بتانا‘ کا تعلق ہے، یہ سب سے مشکل بھی ہے لیکن اگر اس پر عبور ہو تو اس سے مرثیہ کی اثر آفرینی میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے۔ جناب زیڈ اے بخاری نے ایک مرتبہ مرثیہ انیس کے اس ایک مصرے ’’ان ننھے ننھے ہاتھوں سے اٹھے گا یہ علم ‘‘کو اس خوبی سے ادا کیا تھا کہ پوری مجلس داد و تحسین کے نعروں سے گونج اٹھی تھی۔
جناب زیڈ اے بخاری ، میر انیس کا مرثیہ پڑھنے میں بڑا کمال رکھتے تھے۔ ان کی جدید اور فعال طرز خوانندگی نے تحت اللفظ کو بڑا مقبول بنایا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں مرثیہ خوانی کے کئی اور مستقل سلسلے قائم ہو گئے۔مرثیہ خوانی کا ایک اسلوب وہ ہے جو جناب قیصر ؔ بارہوی نے وضع کیا ہے۔ یہ سوز اور تحت اللفظ کے درمیان ایک نیا لحن ہے جو قیصر ؔ بارہوی صاحب ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn