Qalamkar Website Header Image

ورلڈ پوسٹ ڈے اورپاکستان میں نظام ڈاک

akhtar-sardar-chڈاک کا مطلب ہے کہ ایک ایسا نظام جس کے ذریعے خطوط ،دستاویزات ،دیگر ایسی اشیاء جو لفافے میں بند ہوں ،ایک جگہ سے دوسری جگہ ،دنیا بھر میں بھیجی جاتیں ہیں ،اسے ڈاک کہتے ہیں۔ آج سے سات ہزارسال پہلے مصر کے دور فرعون میں ڈاک کا حوالہ ملتا ہے۔ بابلی دور میں تازہ دم اونٹوں اور گھوڑوں کے ذریعے سرکاری اور نجی ڈاک کا نظام قائم ہوا۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے ڈاک کے نظام پر خصوصی توجہ دی۔ ایک ہزار سالہ اسلامی دور حکومت میں ڈاک کی ترسیل کا تیزترین اور محفوظ ترین نظام کام کرتا رہا ۔حضرت عمر فاروق ؓ نے خاص خاص فاصلوں پر چوکیاں بنائی تھیں۔جہاں گذشتہ چوکی کا ہرکارہ ڈاک لے کر پہنچتاتو اگلا ہرکارہ تازہ دم گھوڑا لئے تیار ہوتا۔ اسی طرح یہ سلسلہ قائم رہتا اور بنا کسی تاخیر کے ڈاک ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ۔بدلتے وقت کے ساتھ اس نظام میں تبدیلیاں آئیں اور موجودہ ڈاک کا نظام قائم ہوا ۔
پاکستان سمیت ہر سال 9 اکتوبر کو دنیا بھر میں ڈاک کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اس عالمی دن کے موقع پر تمام ممالک ڈاک ٹکٹ کا اجراء کرتے ہیں ۔اس ادارے یونیورسل پوسٹل یونین (یو۔ پی۔ یو) کا قیام 9 اکتوبر 1847ء کو عمل میں آیا، اِس دن سوئٹزر لینڈ کے شہر ’’برن‘‘ کے مقام پر عالمی ڈاک سے متعلق کانفرنس ہوئی۔ جس میں ’’جنرل پوسٹل یونین‘‘ نامی تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی۔ یہ معاہدہ 22ملکوں نے منظور کیا اور یکم جولائی1875ء سے نافذالعمل ہوا۔ یونین، یکم جولائی1948ء کو اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسی بنی۔ اِس کا مقصد تمام ممالک میں ڈاک کی ترسیل کی ترقی اور ڈاک کے نظام کی بہتری ہے ۔
پہلے تو یہ صرف خط پارسل وصول کرنے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کی ایک رسید تھی مگر 1969ء میں ٹوکیو کانگریس نے یہ طے کیا کہ ترقی پذیر ممالک کو ترقی یافتہ ممالک سے جس قدر مقدار میں ڈاک وصول ہو گی، اس اضافی وزن کا معاوضہ انہیں 0.50 گولڈ فرانک فی کلوگرام کے حساب سے ادا کیا جائے ۔ اس لین دین کے حسابات کو ادارہ یونیورسل پوسٹل یونین UPU دیکھ رہا ہے ۔
دنیا کے مشہور مشغلوں میں سے ایک مشغلہ ڈاک ٹکٹ جمع کرنا ہے ۔یہ ایک مہنگا شوق بھی ہے ۔پہلے نواب و بادشاہوں کا شوق تھا، اب تو آسانیاں ہیں ،اب یہ عوامی شوق ہو گیا ہے اور کروڑوں لوگوں نے اس کو کاروبار کا ذریعہ بنا دیا ہے ۔ ایک وقت تھا کہ ڈاکئے کو ہمارے معاشرے میں محبت کا پیغام بر قاصد سمجھا جاتا تھا ۔ڈاکیے کے کردار پر کہانیاں لکھی جاتی تھیں، شاعری کی جاتی تھی ۔اسے خوشی و غم کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ڈاکیا اور ڈاک بچھڑوں کو ملانے ،اس کی خیر خبر پہنچانے کا ذریعہ تھا ۔لیکن اب دور بدل گیا ہے۔ اب ٹیلیفون ،موبائل،انٹرنیٹ،تھری جی ،فور جی وغیرہ نے اسکی جگہ لے لی ہے ۔اب وہ انتظار کی لذت وہ بے چینی ختم ہو چکی ہے، جو پہلے ڈاک کے انتظار میں اٹھانی پڑتی تھی ۔
اب ڈاک کا نظام کسی حد تک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ جدید ٹیکنالوجیکے استعمال سےاس نظام کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا شائد ہو نہ سکے کیونکہ اس میں لگتی ہے محنت زیادہ مثلاََ اگر منی آڈر کی بجائے ایزی پیسہ سروس کو صرف ڈاک کے نظام کے تحت کر دیا جاتا (یعنی کوئی نجی شاپ نہ بنا سکتا)تو ڈاک کے نظام کو بہت حد تک سہارا مل سکتا تھا۔
پاکستان کے ڈاک ٹکٹ کے بارے میں ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب تک ایک اندازے کے مطابق کم و بیش 1500 ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ یہ تعداد ایک اندازہ ہے (2006 ء تک 1200 تھے) ان تمام پر زیادہ تر، بادشاہوں، مشہور شخصیات اور عمارتوں کی تصویریں ہیں لیکن ملک کا عام آدمی، کسان اور مزدور کہیں کہیں نظر آتا ہے یعنی ان ڈاک ٹکٹوں میں عوام کم نظر آتی ہے اور دنیا میں پاکستان ہی شائد واحد ملک ہو جس ملک میں بانی پاکستان کی تصویر والا ٹکٹ بعد میں شائع کیا گیا، پہلے ایک فوجی حکمران کا شائع کیا گیا ۔پاکستان کے پہلے ڈاک ٹکٹ پر یومِ آزادی 15 اگست درج ہے۔ پہلے ٹکٹ پر فوری طور پر برطانوی عہد کے ٹکٹوں پر ہی پاکستان کا لفظ بڑا بڑا شائع کیا گیا( پاکستان میں جو ڈاک ٹکٹ چلایا گیا، اس میں بادشاہ کنگ جارج کی تصویر پر پاکستان چھاپا گیا۔گویا ہم نے پاکستان کی آزادی برطانوی سامراج سے حاصل کی) ۔
11 ستمبر1949ء میں قائداعظم محمد علی جناح کی وفات پر ٹکٹ جاری کیا گیا ،جس پر قائداعظم لکھا ہوا ہے، لیکن ان کی تصویر نہیں ہے ۔ایسے ہی علامہ اقبالؓ کے نام کا ٹکٹ پاکستان بننے کے گیارہ سال بعد شائع ہوا (علامہ اقبال کی 20 ویں برسی پر ) اس میں بھی علامہ اقبالؓ کی تصویر نہیں تھی ۔
ملیریا کی بیخ کنی کے لیے حکومت نے 7 اپریل1961ء میں مچھر کی تصویروں والی دو ٹکٹیں جاری کیں ۔فوجی جوانوں کے چہرے وہ پہلے انسانی چہرے ہیں، جو ڈاک ٹکٹوں پر ظاہر ہوئے ۔یہ ٹکٹ ،1965ء کی جنگ کے بعد اسی سال دسمبر میں جاری کیے گئے ۔ نومبر1966 ء میں کسی شخص کی تصویر پہلی بار دو ڈاک ٹکٹوں پر شائع کی گئی اور وہ تھے فوجی حکمران جنرل ایوب خان۔ اس وقت تک قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی تصویر کے ٹکٹ بھی منظر عام پر نہیں آئے تھے ۔31 دسمبر1966 ء کو پہلی بار قائد اعظم کی تصویر والے ٹکٹ جاری ہوئے ۔
ایک سال بعد علامہ اقبال کی تصویر ٹکٹوں کی زینت بنی ۔جنرل محمد ضیا الحق نے ملک میں عید میلادالنبی کے موقع پر اپنے دور حکومت میں ایک ڈاک ٹکٹ کا اجرا کیا، جس میں روضہ رسول ﷺ اور قرآن کریم کو اوپر دکھایا درمیان میں لکھا کہ ’’اور کہہ دو حق آیا اور باطل مٹ گیا‘‘ یعنی اس ڈاک ٹکٹ کے ذریعے پورے عالم اسلام کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہمارا ایمان قرآن پر ہے وہی سب سے اعلیٰ نظام ہے ۔

حالیہ بلاگ پوسٹس