اسلام کے صوتی علوم کے سلسلے کی تیسری کاوش حاضر خدمت ہے۔
ٓآج کے علم اور فن کا عنوان ہے نعت خوانی۔نعت گوئی اور نعت خوانی، دونوں ہی ایسے فنون ہیں جن کی تاریخ حضور اکرمﷺ کی حیات مبارکہ سے شروع ہوجاتی ہے۔حضرت ابو طالبؓ پہلے فرد ہیں نعت گوئی کی نعمت سے فیض یاب ہوئے۔ تاریخ کی سبھی کتابوں میں ان کی کہی ہوئی نعت کے الفاظ موجود ہیں ۔حضرت ابو طالبؓ کے بعد جو صحابہ کرام نعت گوئی کے اعزاز سے مشرف ہوئے ان میں سر فہرست نام حضرت حسان بن ثابتؓ کا ہے۔حضرت حسان بن ثابتؓ کو ان کے اس شرف کی وجہ سے شاعر رسول اللہ ﷺ بھی کہا جاتا ہے۔حضرت حسان بن ثابتؓ کے بعدکئی صحابہ تابعین اور تبع تابعین نے نعتیں کہیں۔عربی ادب کے ساتھ ساتھ دنیا کی تقریباً سبھی زبانیں حضور رسالت مآب ﷺ کی نعتوں سے مالا مال ہوئیں۔اردو ادب میں بھی نعت کو ایک مضبوط اور توانا صنف سخن کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
نعت گوئی کے ساتھ ساتھ نعت خوانی بھی ایک بہت مقبول فن ہے۔اچھے نعت خواں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہذب اور متمدن اور تعلیم یافتہ اور باکردار یعنی با عمل اور سچا مسلمان ہو۔ وہ نہ صرف یہ کہ خوش گلو ہو بلکہ اسے زبان و ادب پر بھی عبور ہو، تاکہ جب وہ نعت خوانی کے لئے کسی شاعر کے کلام کا انتخاب کرے تو اسے اس کلام کا مفہوم معلوم ہو۔اچھا نعت خواں وہ ہوتا ہے جو مخارج اور تلفظ پر عبور رکھتا ہو۔ رموز و اوقاف سے آگاہ ہواور اضافت و اعراب سے واقف ہو کہ کہاں رکنا ہے کہاں نہیں رکنا، کہاں توڑنا مناسب ہے اور کہاں نا مناسب۔
بر صغیر کی تقریباً تمام زبانوں میں اور تمام علاقوں میں نعت خوانی کی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ۔ یہ سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے اور کیوں نہ ہو، خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ورفعنا لک ذکرک اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلندی عطا کی۔نعت خوانی میں نہ صرف علاقائی زبانوں کے ٹکڑے ، جملے، اشعار، بیت، دوہڑے،قطعات اور رباعیات شامل کر دیئے جاتے ہیں بلکہ اس کی بندشیں اور طرزیں مقامی اور علاقائی ثقافت ،لوک دھنوں اور بعض اوقات روائتی اور مقبول عوامی گیتوں سے بھی متاثر ہونے لگتی ہیں ۔لیکن اردو داں طبقات اس سلسلہ میں بندشوں یعنی لحن اور ترنم کی ترتیب مین خصوصی احتیاط اور اہتمام برتتے ہیں۔سندھی زبان میں مولود کا اپنا ایک مخصوص انداز ہے جو نعت خوانی ہی کی ایک شکل ہے۔ مقامی طور پر میلاد کی محفلوں میں عربی ، فارسی اور اردو کی بجائے پنجابی، سندھی اور سرائیکی زبانوں میں بھی نعتیں اور اشعا ر پڑھے جاتے ہیں اور اس زبان کے فطری اور بنیادی آداب اور انداز ادائیگی سے بھی استفادہ کیا جاتا ہے۔
بعض قاری صاحبان جب قرات کے اسلوب ادائیگی سے استفادہ کرتے ہوئے اس کی مخصوص جگہیں نعت خوانی میں استعمال کرتے ہیں تو نعت خوانی میں مزید نکھار اور انفرادیت پیدا ہو جاتی ہے۔گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کے طول و عرض میں نعت خوانی کی تعلیم و تربیت اور فروغ کے لئے ملک کے طول و عرض میں متعدد اداروں کا قیام بھی عمل میں آیا ہے۔ جن میں نعت اکیڈمی اور انجمن عندلیبان ،ریاض رسول کے نام بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔پاکستان میں نعت خوانی کا مستقبل بڑا تابناک ہے۔ اگرچہ اب بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ اس فن کے باقاعدہ دبستان ادائیگی مقرر کئے جائیں اور اس کے اصول و ضوابط مرتب کر کے اسے ایک باقاعدہ علم و فن کی شکل دی جا سکے۔ یوں نعت خوانی کی بنیاد سائنسی اور تکنیکی خطوط پر استوار ہو سکے گی۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn