پانامہ لیکس کے انکشافات نے پاکستانی سیاست میں تلخی بڑھا دی ہے۔ حکومت کے دسترخوان سے شکم سیری فرمانے والے چند "اہلِ دانش” کہلانے والے تو اس حوالے سے جو بھی کہہ رہے ہیں وہ ایسے ہی ہے کہ گندم ابھی کھیتوں میں پڑی ہو اور شدید ژالہ باری ہو جائے۔ صدقے جاؤں "چارکے ٹولے” کے ان کی بھی ہر بات اور ادا نرالی ہے کہ فقیر راحموں نے اگلی شب نوبل پرائز والی کمیٹی کو ای میل بھجوائی ہے کہ اگلی بار ایک عدد پرائز "بغولیات” کا بھی رکھ لیا جائے۔ تماشے دیکھنے کے شوقین پاکستانی چندہ کر کے پرائز کی رقم بھجوا دیں گے۔ خیر صورت یوں بن گئی ہے کہ طیفے برف والے کے ابا کا نام پانامہ لیکس میں آیا ہے۔ آپ طیفے کو نہیں جانتے؟ بڑی عجیب بات ہے۔ طیفے نے ساری عمر نواب شاہ اور کراچی کے زرداری ہاؤسز میں "سردیوں” کے موسم میں برف سپلائی کی ہے۔ اس لئے آصف علی زرداری بھی پانامہ لیکس کی زد میں آ گئے۔ عمران خان کے دوست ذلفی بخاری کی بہنوں اور ایک چچا زاد کی آف شور کمپنیاں ہیں۔ فیصل آباد کے رستم ٹانگے والے مرحوم کی کمپنی نکلی ہے۔ یہ رستم ٹانگے والا وہی ہے جو بجلی بھری ہے میرے انگ انگ میں کے مصداق وفاقی وزیرِمملکت پانی و بجلی عابد شیرعلی کو کسی زمانے میں گھر سے سکول اور سکول سے گھر لے جانے کی خدمات سرا نجام دینے کے بعد انہیں شام کی سیر بھی کرواتا تھا۔ میرے سوتر والے کی آف شور کمپنی نےجناب چودھری شیر علی کی طرف مشتبہ اشارے دینا شروع کر دئیے ہیں۔ میرے سوتو والے کی سوتر منڈی فیصل آباد والی دکان پر ہی 1970 ء اور 1980ء کی دہائی میں چودھری شیر علی اپنا نیلے رنگ کا لمریٹا سکوٹر پارک کیا کرتے تھے۔ ولید کھادا بھائی بھی ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔ ولید کھادا بھائی وہ عظیم ہستی ہیں جنہوں نے اپنے الطاف حسین کو جو ابھی "بھائی” کے درجہ پر فائز نہیں ہوئے تھے،ہنڈا پچاس سی سی لے کر دیا تھا۔
بات یقیناََ آپ کی سمجھ شریف میں آ گئی ہو گی کہ زرداری، عمران اور بھائی الطاف کا ذکر بھی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے ہے۔ اپوزیشن کے نگوڑے اپنے لیڈروں کی پردہ پوشی کے لئےاکیسویں صدی کے مہان شریف خاندان پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ ابھی تو میں نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ ودود راکٹ کی بھی کمپنی برآمد ہوئی ہے۔ یہ ودود راکٹ ہمارے چودھری اعتزار احسن کے منشی کی خالہ کی بیٹی کے سسرال والے گاؤں کے برکت کے سسرالی گاؤں سے تعلق رکھتا ہے۔چودھری اعتزاز احسن سمجھتے ہیں کہ ودود راکٹ کا نام وفاقی حکومت کی خفیہ ایجنسی نے تلاش کیا اور انہیں بدنام کرنے کی سازش کی ہے۔ اپنے مرشد پاک سید خورشید شاہ زمانہ ملازمت( یہ گیارہ ماہ کے قریب ہے) کے دوران سکھر میں دفتر کے باہر جس کھوکھے والے سے دن میں معاف کیجیئے گا ڈیوٹی کے اوقات میں سات بارشڑپ شڑپ کر کے چائے پیا کرتے تھے اس چائے والے محمد پرئیل کے داماد قاسو ڈوم کی خالہ زاد بہن کے شوہر رحیم داد کے بہنوئی اکبر کی بھی آف شور کمپنی نکلی ہے۔ اب آپ کی سمجھ میں آیا کہ پیر سید خورشید شاہ وزیرِاعظم پر کیوں ناراض ہیں۔ ہمارے خفیہ ذرائع نے باوثوق اطلاع دی ہے کہ سینٹ کے سابق چیئرمین سید نیئر حسین بخاری کے صاحب زادے نے چند دن ادھر اسلام آبا دکی کچہری میں جس پولیس اہلکار کو تھپڑ مارا تھا، اس کا اصل مقصد شاہ جی کی تلاشی لینا نہیں تھا۔ شاہ معروف سیاستدان اور لاکھوں میں فیس لینے والے وکیل ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہے کہ جہاں تلاشی دینا ہو وہاں دینی ہی پڑتی ہے۔ جھگڑا اس بات پر شروع ہوا کہ پولیس کانسٹیبل نے شاہ کو دیکھتے ہی کہا ” بخاری صاحب آپ کے گارڈ کے سالے کے چچا کی آف شور کمپنی نکلی ہے”۔ بس شاہ جی غصے میں آ گئے۔ اچھا اگر شاہ جی کے گارڈ کے سالے کے چچا کی کوئی کمپنی ہے بھی تو اس میں سید نیئر حسین بخاری جیسے اللہ لوگ شخص کا کیا لینا دینا۔ حکومت اگر ریاستی ملازموں کے ذریعے شرفاء کی پگڑیاں اچھلوائے گی تو پھر وہ بھی جواب کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
حکومتی ارکان، جاتی امرا کے دسترخوانوں اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں ماہر ہمارے چند صحافی دوستوں کا غصہ اس پر ہے کہ اپوزیشن کے بڑے بڑے رہنماؤں کے بھی تو دور پار کے تعلق داروں ، محض سلام دعا لینے والے رشتہ داروں کے نام بھی پانامہ لیکس میں ہیں تو اس پر بات ہی نہیں کرتا۔ سب اک حکومت کو بدنام کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کے "مالکان” نے 1984ء سے لے کر آج تک جب بھی موقع (یعنی اقتدار) ملا، دیانت اور لیاقت سے اپنے کاروبار پر توجہ دی، تاکہ ان کی فیکٹریوں سے لوگوں کو روزگار ملے، ہمارے ایک شناسا اسلام آباد میں طرم خان ٹائپ صحافی ہیں، یار لوگوں نے کئی سال سے ان کی چھیڑ "ہیلی کاپٹر گروپ کا سر خیل” بنائی ہوئی ہے۔ یاد پڑتا ہے بلکہ یاد کیا، اس طالب علم کے پاس ان کی اس تاریخی انکشافات سے بھر پور خبر کی کٹنگ موجود ہے جو انہوں نے 12 اکتوبر 1999 کے بعد اپنے اخبار میں اپنی کریڈٹ لائن سے چھپوائی تھی۔ اس خبر میں بتایا گیا تھا کہ ایوانِ وزیراعظم کے اس کمرے میں جس میں میاں نواز شریف کی رہاش تھی، کچھ رسالے، چند فلمیں اور بعض ادویات بھی برآمد ہوئیں جنہیں کوئی شریف آدمی اپنے گھر میں اس طرح نہیں رکھتا۔ ان دنوں یہی صحافی صبح شام اپوزیشن کو کوستے ہوئے فرما رہے ہوتے ہیں کہ اللہ لوک حاجی و نمازی وزیر اعظم اور ان کے حافظ قران بچوں کی کردار کشی کرنے والوں کی قبر میں کیڑے پڑیں گے۔ پانامہ لیکس کا مفاد بھی عجیب ہے ، ہر شریف آدمی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ ایک دوست نے دلچسپ لطیفہ سنایا "رشتہ کروانے والی ماسی لڑکی والوں کے گھر پر ، لڑکے والوں کی خاندانی وجاہت، دولت و ثروت اور دنیاوی اثاثوں کی تفصیلات عرض کر چکنے کے بعد، بوتل کا گھونٹ بھرتے ہوئے بولی کیا بتاوں آپا جی، لڑکے کے والد اور چاچا کا پانامہ لیکس والے سیاپے میں بھی نام نکل آیا ہے” یہ سننا تھا کہ لڑکی والوں نے جھٹ سے رشتہ منظور کر لیا، دو دن قبل فقیر راحموں نے محلے کی مسجد کے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ حضرت یہ پانامہ لیکس والوں کا کیا بنے گا۔ مولوی جی فرمانے لگے، اللہ بڑا رحیم و کریم ہے، تُسی کسی پانامے والے نوں میرےے کول لے کے آو، مدرسے وچ کجھ کمرے بنوانے نے۔ یہ فقیر راحموں بھی نہ کسی دن مجھے بلاوجہ مروائے گا۔ دسیوں بار سمجھایا ہے کہ شہادت کا کوئی شوق نہیں، اچھا بھلا بندہ مر گیاتو کس کام کا، لیکن پھر بھی شرارتوں سے باز نہیں آتا۔ کل پوچھ رہا تھا شاہ جی، ایہہ دانیال عزیز وہی ہے نا جس کے ابا جی کو وزیر اعظم محمد خان جو نیجو نے کرپشن کے جرم میں وزارت سے برطرف کیا تھا، جی وہی ہے، مگر آپ کو مسئلہ کیا ہے، بولے مسئلہ کوئی نہیں، بس وقت کے کرشموں پر حیران ہوں، دانیال عزیز چوہدری بھی کرپشن کے خلاف ہے۔ ویسے اللہ کی شان ہے ان دنوں میاں نواز شریف کی حب الوطنی پاکستان اور جمہوریت کے لیئے خاندانی قربانیوں اور جمہوری قیادت کے گن گا رہے ہیں، جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف اور اس کی جماعت کو کرہ عرض کی سب سے بھیانک بیماری کہا کرتے تھے۔ اللہ کو جان دینی ہے اس لیئے کسی صورت بھی زاہد حامد ، دانیال عزیز ، ماروی میمن ، کشمالہ طارق و غیرہ کا نام نہیں لوں گا۔ یہیاں کون سا اصولوں کی سیاست ہوتی ہے، اپنے سابق کامریڈ پرویز رشید اور سابق جیالے رانا ثنا اللہ فیصل آبادی ان دنوں پیپلز پارٹی کے بارے جن خیالات کا اظہار کرنے کے ساتھ اس کی جس قسم کی تاریخ بیان فرما رہے ہیں، اس سے تو خود بھٹو صاحب اور ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بھی آگاہ نہیں تھیں۔ لیجئے فقیر راحموں نے پھر پھڈا ڈال دیا ہے کہتے ہیں کہ اگر میاں نواز شریف نے پانامہ لیکس کے بحران سے طاہرہ سید والے بحران کی طرح نکلنا ہے تو فوری طور پر ایک عدد وزارتِ بغولیات قائم کریں ۔ یا پھر اطلاعات و نشریات کی وزارت کا نام بدل لیں، کبھی کبھی مجھے فقیر راحموں پر شک ہونے لگتا ہے کہ اسے کسی عالمی یا ملکی طاقت نے تو مجھ پر مسلط نہی کر رکھا۔ خیر اللہ تعالی اپنا کرم فرمائیں، چلتے چلتے ایک دلچسپ خبر پر بات کر لیتے ہیں، عمران خان نے ہمارے محب مکرم حضرت قائد انقلاب مولانا فضل الرحمن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کانام "پاکستان کرپشن بچاو پارٹی” رکھ لیں، خدا لگتی بات ہے کہ مشورہ برا نہیں ، حسب حال ہو قال ہے ۔ مولانا کی مرضی وہ اس مشورے کو بھی یہودی لابی کی سازش قرار دے کر مسترد کر دیں، حرف آخر یہ ہے کہ مرشدی سید یوسف رضا گیلانی کا مغوی صاحب زادہ علی حیدر گیلانی 3 سال بعد رہا ہو کر اپنوں کے درمیان لوٹ آیا ہے، گیلانی خاندان کی کالی رات تمام ہوئی البتہ ان صاحبانِ فن پر ہمیں افسوس ہے جو اس میں بھی سازشی تھیوریاں تلاش کر کے لا رہے ہیں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn