Qalamkar Website Header Image

جی کی بپتا

Haider Javed Syedہم دونوں دریائے چناب کے کنارے کی ریت پر پچھلے کئی گھنٹوں سے چہل قدمی اور بحث میں مصروف تھے۔ اچانک اس نے اپنی بات روکی اور کہا کہ فقیر راحموں نے کہا تھا’’اقرار۔۔۔۔۔ بھلا وہ کیا جان سکتے ہیں اس کی حقیقت کو جنہوں نے بے اختیاری کے موسم کا ذائقہ نہ چکھا ہو‘‘
بے اختیاری کا موسم، بھلا اقرار کی سرشاری سے اس کا کیا ناطہ؟۔۔۔ چناب کے پانیوں سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے اس نے کلام کیا۔ اک یہی موسم سارے موسموں پر حاوی ہوتا ہے اقرار کا نغمہ الاپتے یار کے کوچے میں بے اختیار کھنچے چلے جانا ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ من و تو کے سارے فرق مٹ گئے ہیں۔ ۔۔یہ تو اپنی ذات سے عشق والا معاملہ ہوا؟
جواب ملا
بے اختیاری میں اپنی ذات رہ کہاں جاتی ہے؟ ذات کے ہونے کا زعم ہو تو آدمی من چاہی خواہشوں کی تکمیل کے لئے پاپڑ بیلتا ہے۔بے اختیاری میں اقرار کا نغمہ الاپنے والوں کو سرشاری کا ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔ ہم چاہیں بھی تو اس میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔
ہم کیا ہیں؟
’’پانی میں گندھی مٹی جسے آگ پر تپایا گیا‘‘۔۔۔
’’یہی صحیح ہے یاکچھ اور‘‘ اس نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے دریافت کیا۔۔۔ آگ ہی آگ ہے اند ر بھی اور باہر بھی۔۔۔ ویسے الاؤ دہکتے رہتے ہیں تو پھاڑ کھانے والے درندے فاصلے پر رہتے ہیں، آدمی بذات خود بھی تو درندہ ہی ہے، بے لگام خواہشوں سے جڑا جو حساب کتاب سے زیادہ پالینے کو ترجیح دیتا ہے اور مل جائے تو اسے نوچنا شروع کر دیتا ہے۔ گدھ کہو ناں۔ نوچتے تو گدھ ہیں۔۔۔ نہیں گدھ مرداروں کو نوچتے ہیں۔ آدمی دو پایا جانور ہے۔ ہونے کے احساس اور مقصدِ زندگی سے کورا نہ ہو تو پھر وجد کے عالم میں کہہ اٹھتا ہے۔
’’ہم کیا ہیں؟ وہی ہے۔ جسے پانے کے لئے سارا سفر طے ہوتا ہے۔ ایک مقام ایسا لازم ہے جہاں سارے فرق مٹ جاتے ہیں‘‘۔۔۔
اس کی بات پوری ہوئی تو میں نے کہا’’جس مقام پر سارے فرق مٹتے ہیں اس مقام تک کا سفر اختیاری ہے یا اقرار کی سرشاری سے گندھی بے اختیاری سے طے ہوتا ہے؟‘‘
سوال سن کر اس نے آنکھیں موند لیں۔ چند ساعتیں اس حال میں گزریں کہ سانسوں کے آنے جانے کی آوازیں دریا کی لہروں کے شور پر حاوی محسوس ہوئیں۔ پھر اس نے بند آنکھیں کھولیں اور کہنا شروع کیا۔
’’سنو! محبت کی میم سے عشق کے عین تک کا سفر پلک جھپکتے طے نہیں ہوجاتا۔ اس سفر میں نفسِ امارہ کی قربانی اولین شرط ہے۔ ذات دوسری اور اختیار تیسری۔ یہ مراحل جو طے کر لے وہی’’میں نے پا لیا، چھو لیا، چکھ لیا‘‘ کی سہ حرفی الاپتہ ہے۔۔ہمارے عہد میں تو سارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ جو لوگ ’’ذات‘‘ سے آگاہ نہیں ہوتے وہ بھید پا لینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کی آنکھیں دعوؤں کا ساتھ نہیں دے رہی ہوتیں۔ آنکھوں میں سوال ناچ رہے ہوتے ہیں۔ ۔۔ زندگی تو بذاتِ خود سوال ہے؟
رسان سے کہا’’صرف سوال نہیں پورا امتحانی پرچہ ہے۔ کبھی ہر سانس کے ساتھ جواب کھوجنا پڑتا ہے کبھی جوابوں کے انبوہ میں سوال گم ہوجاتے ہیں۔ ’’سوال بھی کبھی گم ہوتے ہیں‘‘ میں نے دریافت کیا۔۔
جواب ملا۔۔۔’’ہاں سوال گم ہوجاتے ہیں جب یہ حقیقت آشکار ہو جائے کہ ظرف کے پیالے میں چھید ہی چھید ہیں۔۔۔‘‘
’’اگر زندگی چھیدوں سے عبارت ہو تو‘‘؟ ایک لمحہ کو اس نے دور خلاؤں میں دیکھا اور پھر کہا ’’خواہشیں زندگی میں چھید ڈالتی ہیں‘‘۔
اسی لئے تو بلھے شاہ نے کہا تھا
’’خواہشوں کے بے لگام گھوڑے پر کاٹھی ڈالنا ہر کس و ناکس کے بس میں کہاں؟ جو ایسا کر لیں سولی چڑھتے ہیں، سر کٹواتے ہیں یا پھر تیرے عشق نچایا کر کے تھیاں تھیاں!‘‘
’’سمجھا نہیں‘‘۔
جواب ملا’’ایک ہی بات ہے۔سولی چڑھے، سر کٹوائے یا عشق نچائے‘‘
وضاحت اور بھی ضروری ہو گئی ہے
عجیب حیرانی سے اس نے دیکھا اور پھر چپ سادھ لی۔ گہری لمبی چپ۔۔ سورج تھک کر مغرب میں اترنے لگا تو میں نے کہا ’’چپ کا روزہ لازم ہوا ہے یا جواب اجتناب پر مجبور کئے ہے‘‘؟
ریت پر آڑھی ترچھی لکیریں کھینچتے اس نے سر اٹھا کر بغور دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’بعض جواب ایسے ہوتے ہیں جو الفاظ کے محتاج نہیں ہوتے، اقرار میں گندھی ٹھنڈک سب سمجھا دیتی ہے‘‘۔ کلام میں ساعت بھر کا وقفہ ہوا۔ پھر اس نے سلسلۂ کلام جوڑتے ہوئے کہا
’’کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے ہم اپنے اندر ایک خانقاہ بنا لیتے ہیں اور زندگی بھر اس پر یادوں کے چڑھاوے چڑھاتے رہتے ہیں۔ پھر مہینوں ، سالوں یا عشروں بعد ایک لمحہ ایسا لازم آتا ہے جس لمحے اس سچائی کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ میم سے عین کے درمیان کا فاصلہ تمام ہونے کو تھا تو غرض کی کلہاڑی کا وار کر کے جو چلا گیا اس کی یادیں اور خانقاہ دونوں سے نبھا لازم کیوں؟ ایسا کرو تم بھی بھید کھول دو۔اپنے اند ر کی خانقاہ سے باہر نکل کر بے اختیاری کے موسم کا ذائقہ چکھو، اقرارِ ذات کا حظ لو اور کتھائیں کھول کر سناؤ‘‘
یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے اس سے کہا ’’میں نے پا لیا، چھو لیا، چکھ لیا۔ مگر میں ہوں کہاں؟ وہی تھا، وہی ہے ، وہی رہے گا۔ اسی نے رہنا ہے‘‘
یہی جی کی بپتا ہے جو سناتے بھی ہیں چھپاتے بھی۔۔۔

حالیہ بلاگ پوسٹس