آگے بڑھنے اور اصل موضوع پر بات کرنے سے قبل دو باتوں کی وضاحت کرنا ازبس ضروری ہے۔ اولاََ یہ کہ طالب علم روزِ اول سے ایم کیو ایم کا ناقد رہا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ اس تنظیم کی داغ بیل ڈلوانے والوں کے پیشِ نظر فقط ایک بات تھی۔ وہ یہ کہ کراچی کے لوگوں کے دلوں سے جمہوریت کی محبت نکالی جائے۔ نسلی شاؤنزم اس کا بہترین حل تھا۔ ثانیاََ یہ کہ کبھی یہ نہیں کہا لکھا کہ کراچی میں قانون کی بالادستی قائم نہیں ہونی چاہیے۔ یا یہ کہ ایم کا ایم کا دامن ایسا صاف ہے کہ ’’دامن نچوڑدے تو فرشتے وضو کرنے لگ جائیں گے‘‘ پچھلے تیس سالوں کے دوران کراچی میں جو ابتری اور ادھم مچا ایم کیو ایم بہر طور اس کی ذمہ دار تھی اور ہے۔ لیکن کیا فقط ایم کیو ایم مجرم ہے؟ اس کے نسلی شاؤنزم اور تھنڈر سکواڈ کے ذریعے مفادات حاصل کرنے والے ’’انڈوں سے تازہ تازہ نکلے چوزے ہیں‘‘؟ ۳۰ سال تک ایم کیو ایم کو ریاستی و سیاسی اشرافیہ اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتی رہی اور اب مجرم ایم کیو ایم والے اور باقی سارے حاجی ثناء اللہ؟؟؟(رانا ثناء اللہ خان نہ سمجھ لیجئے گا)۔ الطاف حسین کی ۲۲ اگست والی تقریر کے بعد بنے ماحول میں بہت سارے ایسے لوگ بھی ایم کیو ایم کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں جنہیں شائد یہ بھی معلوم نہ ہو کہ جناب فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کے ساتھ ۲۲ اور ۲۳ اگست کی درمیانی شب رینجرز ہیڈ کوارٹر میں کیا معاملات طے پائے تھے۔ میرا سوال بہت سادہ ہے وہ یہ کہ جب یہ طے کر لیا گیا تھا کہ ایم کیو ایم سیاسی عمل میں شریک رہنے کے لئے فوری طور پر دو کام کرے گی۔ اولاََ الطاف حسین سے لاتعلقی اور ثانیاََ تھنڈر سکواڈ کی حمایت سے دستبرداری۔ تو پھر یہ ضروری تھا کہ معاملات کو طے شدہ سمت میں آگے بڑھنے دیا جاتا۔ کم از کم مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس معاہدہ پر (یاد رکھیئے میں معاہدہ کہہ رہا ہوں) خود ریاست کے بڑے دو حصوں میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ یہاں ایک ضمنی سوال ہے۔ کیا ریکارڈ سے یہ بات ثابت نہیں کہ ڈاکٹر عشرت العباد کو ۲۰۰۲ء میں سندھ کا گورنر بناتے وقت اس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے ان کے خلاف درج۹ سنگین مقدمات میں سے ۵ میں معافی دی تھی تبھی وہ گورنر کا حلف اٹھا سکے ؟
جناب عشرت العباد بھی مزارقائداعظم پر ۱۴ اگست ۱۹۷۹ء کو پاکستانی پرچم جلانے کے اس مقدمے میں نامزد ملزم تھے جس کے مرکزی ملزم الطاف حسین تھے۔ سو اگر پاکستانی پرچم جلانے اور بغاوت کے دو اور سانحہ کلاتھ مارکیٹ کے نامزد ملزم کو معافی دے کر سندھ کا گورنر بنایا جاسکتا ہے تو پھر ۲۲ اور ۲۳ اگست کی درمیانی شب طے پانے والے معاملات پردیانتداری سے عمل میں کیا امر مانع ہے؟ اگر ایم کیو ایم کا سیاسی کردارقابلِ قبول نہیں تھا تو کس احمق نے مشورہ دیا تھا کہ ڈاکٹر عشرت العباد کی ثالثی کو قبول کر لیا جائے؟پھر کیا فقط چند درجن یا چند سو افراد کے خلاف کاروائی سے منہ موڑ کر کراچی کی نصف کے قریب آبادی کو ہی ناقابلِ قبول قراردینا مقصود ہے؟ ایسا ہے تو نتائج کا کسی کو اندازہ ہے؟ مثال کے طور پر ۲۲ اگست کے بعد سے ۱۶ ستمبر کے درمیانی ۲۵ دنوں میں ایم کیو ایم کے جو ۱۴۰ غیر قانونی دفاتر مسمار کیے گئے وہ رینجرز کو پچھلے دس پندرہ سالوں میں کیوں دیکھائی نہ دیئے؟ نہیں دئیے تو پھر خود رینجرز کی کارکردگی پر سوالات ہیں ان کا جواب کون دے گا؟ ایک سوال یہ ہے کہ سپاہ صحابہ کے مرکز مسجد صدیق اکبر اور ملحقہ مرکز میں غیر قانونی تعمیرات کیوں رینجرزکی نگاہوں سے اوجھل ہیں؟ یہ بھی کہ شکار پور سے پکڑے گئے زندہ خود کش بمبار کے بیان کی روشنی میں کراچی میں واقع مدرسہ ابوہریرہ کے خلاف کیا کاروائی ہوئی؟ نہیں ہوئی تو وجہ کیا ہے؟ کیا کہیں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیمیں شہر میں ایم کیوایم کا متبادل بن سکتی ہیں؟ ایسا ہے تو کوئی اس بات پر بھی غور کرے کہ ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ایم کیو ایم کو سیاسی جماعتوں کا متبادل بنانے کا نتیجہ کیا نکلا؟
لاریب ہم میں سے ہر شخص کراچی میں دیرپا امن اور جمہوری عمل کے آگے بڑھنے کا خواہش مند ہے مگر جمہوریت کیا ہے؟ حضور صاف سیدھی بات ہے لوگوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیئے( یہ الگ بحث ہے کہ ایم کیو ایم کا حق نمائندگی جعلسازی سے بنائی گئی حلقہ بندیوں کا مرہونِ منت ہے) ۲۰۱۸ء کے انتخابات میں ابھی وقت پڑاہے۔ اس دوران کراچی کے لوگوں کے ان کے حقوق دیجیئے۔ ترقیاتی منصوبوں کے لئے وسائل فراہم کیجئے۔ حالات کو پرامن رکھیئے تاکہ سیاسی عمل آگے بڑھے۔ لوگ چاہیں تو اگلے انتخابات میں ایم کیو ایم کو ووٹ دیں یا مسترد کردیں۔ حتمی فیصلہ لوگوں کو کرنے دیں نا کہ ان پر کوئی فیصلہ مسلط کریں۔ بدقسمتی سے پچھلے ۲۵ دنوں کے دوران کراچی میں جو ریاستی اقدامات ہوئے کوئی بھی جمہوریت پسند ان کی کلی تائید نہیں کر سکتا۔ فیس بکی مجاہدین یا بعض ایم کیو ایم کا شکار لوگوں کا معاملہ الگ ہے۔ ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جو لاہور سے جہلم تک اس کتے کا تعاقب کرتے ہیں جو بقول ان کے ان کا کان لے گیا ہے۔ جہلم پہنچ کر احساس ہوا کہ کان تو اپنی جگہ موجود ہے۔ مگر وہ شرمندہ ہونے کی بجائے اب بھی کتے کو گالیاں دے رہے ہیں اور اسے کوس رہے ہیں جس نے کہا تھا ’’کتا تمہارا کان لے گیا‘‘۔ مکرر عرض ہے قانون کی بالادستی بہت ضروری ہے البتہ بالادستی کے سرسام یا’’واری کے بخار‘‘ کا شکار ہو کر اٹھائے گئے اقدامات کے نتائج مثبت نہیں منفی نکلیں گے۔ مثال کے طور پر ۱۶ دسمبر کی سہ پہرجس طرح سندھ میں اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ایم کیو ایم کی مرکزی رابطہ کمیٹی کے رکن خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اس کی ضرورت نہیں تھی۔ خواجہ اگر واقعتاََ ایم کیو ایم کے تھنڈر سکواڈ کے چیف ہیں تو اصل سوال رینجرز کے سربراہ سے بنتا ہے کہ انہوں نے ۲۳ اگست کی صبح انہیں رہا کیوں کیا؟ خواجہ کی گرفتاری پر ایک حلقہ مہاجر مہاجر کھیل رہا ہے تو دوسرے کو ایس ایس پی راؤ انوار کی شکل میں محمود غزنوی مل گیا ہے۔ نظری اعتبار سے دونوں گروہوں کا رویہ غلط ہے۔ دونوں فریق بنیادی حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں وہ یہ کہ ریاست کا ایک حصہ ایم کیو ایم اور رینجرز معاہدہ کو تسلیم نہیں کرتا۔ یہ بھی ہے کہ خواجہ اسی شہر میں رہتے ہیں۔ ان پر جو مقدمات یا الزامات ہیں ان کے تحت گرفتاری عمل میں لانے کے لئے درست طریقہ نہیں اپنایا گیا۔ سوا ل یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں سبکی کس کی ہوئی؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ۱۶ دسمبر کو جب فاروق ستار میڈیا کو پریس بریفنگ دے رہے تھے تو ان کے کارکنوں نے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے؟ یہ موقع کس نے دیا؟ کیا خواجہ کی گرفتاری کسی طویل المدتی منصوبے کا حصہ تھی۔ میرا جواب اثبات میں ہے۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر لکھ رہا ہوں کہ کھیل بگڑ رہا ہے۔ ثانیاََ یہ کہ راؤ انوارہمیشہ سے متنازع رہے۔ وہ اس پولیس ٹیم کا حصہ تھے جس نے مرتضیٰ بھٹو کو قتل کیا تھا۔ بجا کہ وہ ۱۹۹۲ ء اور ۱۹۹۶ء کے آپریشنوں کا کردار بھی رہے۔ لیکن اب بات کچھ آگے کی ہے۔ کیا ایک ایس پی کو یہ حق ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کے فیصلے کے خلاف ٹی وی چینلوں پر بھاشن دے؟ پھر اگر خواجہ کی گرفتاری لازمی تھی تو سندھ اسمبلی کے سپیکر سے اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری کی اجازت لی جاتی جو کہ اسمبلی قواعد کی روشنی میں لازم ہے۔ اور خواجہ سڑک چھاپ نہیں سندھ اسمبلی کا اپوزیشن لیڈر ہے۔ انتظامیہ ان سے گرفتاری کے لئے کہتی تو وہ خود گرفتاری دے دیتے مگر جو انداز اپنایا گیا اس کا ردعمل صاف سامنے ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مکرر عرض ہے اصلاح احوال کے لئے جس سنجیدگی کی ضرورت ہے اس سے محرومی کا تاثر دن بدن بڑھ رہا ہے۔ الطاف حسین یا ان کے تھنڈر سکواڈ کی قیمت پر پوری ایم کیو ایم کو ایک لاٹھی سے ہانکنا درست نہیں۔ ’’انقلاب‘‘ کا سودا جن کے سر میں سمایا ہے ان سے سوال ہے کہ کیا ان میں اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ وہ جنرل ضیاء الحق، سید غوث علی شاہ، مرحوم جام صادق، ڈاکٹر عشرت العباد اور جنرل پرویز مشرف پر مقدمہ چلا سکیں۔ یہ سارے بھی تو ایم کیو ایم یا الطاف حسین کے جرائم میں برابر کے شریک تھے۔ بہت ادب کے ساتھ عرض کروں گا کہ درمیانی راستہ اختیار کیجیئے۔ سانپ آپ کی (ریاست کی) آستین میں ہیں یا ایم کیو ایم کی دونوں کا علاج کیجیئے۔ یہ درست نہیں ہو گا کہ آپ اپنی آستین میں رکھے سانپوں کو دودھ پلاتے رہیں اور ایم کیو ایم کے تھیلے میں موجود سانپوں کا شکار کرنے نکل کھڑے ہوں۔
حرف آخر یہ ہے کہ کل سے ایک بار پھر کچھ مہاجر دوست سندھ کے ۸۰ فیصد حصے پر ملکیت کادعویٰ ٹھوک رہے ہیں۔ فرماتے ہیں جو ہم چھوڑ کر آئے ہیں اس کے بدلے ۸۰ فیصد سندھ ہماراہے۔ ان عقل کے اندھوں کو کوئی سمجھائے کہ بٹوارے کے وقت موجودہ پاکستان کے چاروں صوبوں سے ہندو اور سکھ بھارت گئے تھے۔ ہندوستان سے آنے والے مسلمان مہاجرین کو قیمت تنہا سندھ کیوں ادا کرے؟ ثانیاََ یہ کہ مسلمان بھارت میں(جو ہجرت کر کے آئے) ۲ ارب ۲۷ کروڑ کے اثاثے چھوڑ کر آئے جبکہ ہندو اور سکھ ۷ ارب ۵۳ کروڑ کے اثاثے چھوڑ کر گئے۔(یہ اعدادوشمار موجودہ پاکستان سے ہجرت کر کے جانے والے ہندوؤں اور سکھوں میں سے بعض کی لکھی گئی سوانح عمریوں میں موجود ہیں) جو اثاثے ہندو اور سکھ چھوڑ کر گئے ان کا ۷۱ فیصد پنجاب میں ہے۔ باقی ۱۸ فیصد سندھ اور ۱۱ فیصد خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں۔ مگر وصولی یہ دوست ساری سندھ سے چاہتے ہیں۔ کیوں بھائی؟ لاوارث ہیں کیا سندھی؟ یہاں ایک اور بات بھی ہے وہ یہ کہ دوبارمارشل لاء مہاجر آرمی چیفس یعنی ضیاء اور مشرف نے لگایا۔ کیا اس کی بنیاد پر دیگر اقوام نے مہاجرین کو اجتماعی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا؟جی نہیں افراد کے اعمال کی سزا کسی قوم یا لسانی گروہ کو نہیں دی جاسکتی۔ یہی وہ نکتہ جس کی بنیاد پر ہم ایسے طالب علم کہتے ہیں کہ الطاف حسین اور اس کے تھنڈر سکواڈ کے جرائم کی سزا ساری اردو بولنے والی برادری کو نہیں دی جاسکتی۔ بارِ دیگر عرض ہے ریاست کو ہر قدم سنبھل کر اٹھاناچاہیے۔ عاجلانہ فیصلوں کے عذاب بہت بھگت چکے ہم۔ اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزرتے کثیر القومی ملک میں اب عاجلانہ فیصلوں کی گنجائش نہیں۔ اعتدال، توازن، قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے ساتھ پسند و ناپسند کے گھٹیا کھیل سے جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn