Qalamkar Website Header Image

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان۔۔۔

Haider Javed Syedایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان کو پولیس میں تھانیدار بننے کا شوق تھا لیکن بھرتی کے عمل میں دو میل کی دوڑ کے ٹیسٹ میں وہ تیسرے فرلانگ پر ہانپ کر بیٹھ گیا۔ ظاہر ہے کہ اس وجہ سے وہ سب انسپکٹر بھرتی نہ ہوسکا۔ زمانہ اچھا تھا۔ ابھی کمیشن، کرپشن اور اقربا پروری ناسور نہیں بنے تھے۔ نوجوان بہت مایوس ہوا۔ صدمے سے اس نے دوپہر کا کھانا نہ کھایا۔ اسی شام اس کے والد نے اسے کہہ کہلا کر شہری دفاع والے رضاکاروں کادو پھییتوں والا افسر بنوا دیا۔ اگلے تین دن تک وہ رضا کاروں کی پولیس سے ملتی جلتی وردی پہنے اپنی گاڑی شہر کی سڑکوں پر دوڑاتا پھرا۔ اکثر چوکوں پر ٹریفک پولیس کے اہلکار اسے پولیس کا سب انسپکٹر سمجھ کر سلام کرتے تو من میں لڈو پھوٹنے لگتے۔پھر ایک دن اس کے ایک چچا زاد نے سمجھایا’’میاں اے کی کردا پھردا ایں؟ کسے نوں پتہ لگ گیا کہ توں پولیس آلا نئیں رضاکار ایں تے سلام دی جگہ ’’عزت‘‘ کرد ے گا‘‘۔ بات سمجھ میں آگئی مگر وردی اتارنے سے قبل اس نے چند اہم شخصیات کے ساتھ تصویریں ضرور بنوا لیں۔ کافی دنوں تک وہ تصویریں ڈرائنگ روم میں لگی رہیں۔ کچھ عرصہ بعد اسی نوجوان نے والد سے ضد کی کہ وہ نائب تحصیلدار بننا چاہتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے وہ تحریری امتحان میں ناکام ہوگیا۔ صدمہ دوچند ہوا۔ بہت اثر لیا اس نے دل ودماغ پر۔ اصلاح کی جب کوئی صورت نہ بن پڑی تو اس کے ابا جی نے اسے ائیر مارشل (ر) اصغر خان کی تحریک استقلال میں جمع کروا دیا۔ ایک سرمایہ دار خاندان کا لڑکا تحریک استقلال میں شامل ہوا توائیر مارشل صاحب نے بغیر کسی تاخیر کے اسے پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کا رکن اور فنانس کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا۔ تھانیداری اور تحصیلداری کے امتحانات میں ناکام رہنے والا نوجوان سیاستدان بن گیا۔
کہتے ہیں اسی نوجوان کی تجویز پر ہی تحریک استقلال نے روزنامہ ’’آزاد‘‘ ٹھیکے پر لیا اور اخبار استقلالیوں کے انقلاب کا ترجمان بن گیا۔ تحریک استقلال نے 1975-76 میں جب وفاق اور صوبوں میں شیڈو کابینائیں بنائیں تو یہ نوجوان پنجاب کی شیڈو کابینہ کا وزیرِ خزانہ تھا۔ دوغ برگردنِ راوی ، نوجوان نے اپنی گاڑی پر ’’صوبائی وزیرِ خزانہ شیڈو کابینہ تحریک استقلال‘‘ کی پلیٹ لگا لی۔پھر یوں ہوا کہ اس کی گاڑی کو دو تین بار پولیس اہلکاروں نے مختلف سڑکوں پر روکا اور پلسی انداز میں پوچھا’’اوئے منڈیا! کتھوں دا وزیرِ خزانہ ایں توں‘‘؟ ایک بار تو ایسی صورتحال میں صاف لگ رہا تھا کہ اب پولیس وزیرِ خزانہ صاحب کو تھانے لے ہی جائے گی کہ گاڑی کی دوسری سیٹ پر بیٹھا اس کا چھوٹا بھائی ( اب مرحوم) نیچے اترا۔ اس نے وزیرِ خزانہ والی پلیٹیں گاڑی سے اتار کر سڑک پر پھینکتے ہوئے پولیس والوں سے کہا’’لو پاجی! اے پئی جے وزارت تے سانوں اجازت دیو‘‘۔ اس شام کھانے کی میز پر بڑے بھائی نے ابا جی سے کہا’’ویکھو جی اے مینوں وزیر نئیں مندا‘‘ ابا جی نے چھوٹے بیٹے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ کہنے لگا’’ابا جی جے میں وزارت آلی پلیٹ گڈی توں لا کے سڑک تے نہ سٹی ہوندی تے وزیر صاحب دے نال میں وی ہن حوالات اچ پیا ہوندا‘‘۔ جہاندیدہ باپ کو بات سمجھ میں آگئی۔ اس نے اگلے روز ایک ’’زندہ شہید‘‘ صحافی کو اپنے صاحب زادے کا سیاسی اتالیق مقرر کرتے ہوئے کہا’’شہید صاحب! اس منڈے نوں سیاست پڑھاؤ‘‘ استادِ مکرم روزانہ ایمرسن روڈ پر واقع اس خاندان کے کاروباری دفتر پہنچتے اور شاگرد عزیز کو سیاسی اسباق پڑھاتے۔ شاگرد بڑا دلچسپ ثابت ہوا۔ وہ سب سے پہلے تو استاد جی سے پوچھتا’’استاد جی تسی اج ناشتہ کی کیتا سی‘‘؟ وضع دار استاد بتاتے میں ناشتے میں صرف دو سلائس اور ایک کپ چائے لیتا ہوں۔ شاگرد حیران ہو کر پوچھتا’’تسی کدی کھد، پاوے تے ہریسے دا ناشتہ نئیں کیتا‘‘؟
ابا جی کی بریگیڈئیر قیوم قریشی سے یاد اللہ تھی۔ اس یاد اللہ کی وجہ ذوالفقار علی بھٹو سے عناد تھا۔ بریگیڈیئر قیوم قریشی اپنا گھر بنانے لگے تو ابا جی نے صاحبزادے کو تعمیراتی نگران مقرر کر دیا۔ گھر مکمل ہونے کے بعد قریشی صاحب نے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ تقریب کے لئے تیار کروائے گئے کھانوں کی نگرانی بھی اسی نگرانِ تعمیرات نے کی۔ مہمانوں نے گھر اور کھانے دونوں کی تعریف کی۔ پنچاب کے اس وقت کے فوجی گورنر جنرل جیلانی خان تو گھر کی تعمیر میں نفاست اور ذائقہ دار کھانوں سے بہت خوش ہوئے۔ وہ تعریف کر چکے تو قریشی صاحب نے ایک نوجوان کو اس کے والد صاحب سمیت گورنر کے حضور پیش کرکے بتایا کہ یہ میرے دوست ہیں اور یہ ان کا ذہین صاحبزادہ جس کی وجہ سے میرا بہت سارا پیسا اور وقت دونوں بچے اور گھر بھی تعمیر ہوگیا۔ آج کی دعوت کا کھانا بھی اس نوجوان کی نگرانی میں تیار ہوا۔ گورنر نے نوجوان کے کاندھے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا اور اس کے باپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’میاں صاحب! اتنا لائق بیٹا آپ نے کہاں چھپا کر رکھا ہوا تھا‘‘؟ چند دنوں بعد گورنر نے اس نوجوان کو وفاقی مجلس شوریٰ کی طرز پر صوبوں میں بننے والی کونسلوں میں پنجاب کونسل کا رکن نامزد کر دیا۔ کچھ عرصہ بعد مزید ’’اعلیٰ خدمات‘‘ کے صلے میں نوجوان کو پنجاب کا وزیرِ خزانہ بنا دیا گیا۔ پنجاب کے وزیرِ خزانہ نے اس دن تین گھنٹے تک لاہور کی سڑکوں پر جھنڈے والی سرکاری گاڑی دوڑائی اور ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے چھوٹے بھائی سے کہا ’’ویکھ کنج سلام ہورئے نیں‘‘
جنرل ضیاء الحق نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ گورنر جیلانی اور بریگیڈیئر قریشی کے کہنے پر نوجوان نے لاہور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ایک ایک حلقے سے کاغذات نامزدگی داخل کئے اور امیدوار کے طور پر میدان میں اتر گیا۔ قومی اسمبلی کی نشست پر اس کے مقابل جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے سید اسد گیلانی تھے۔ ایک صاحبِ علم و دانش، کئی کتابوں کے مصنف اور لاہور میں مختلف الخیال طبقات میں یکساں طور پر قابلِ احترام سید اسد گیلانی گورنر کے پسندیدہ امیدوار سے بھلا کیسے جیت پاتے؟ انتخابات سے ایک دن قبل نوجوان امیدوار نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں اپنے گھر پر لاہور بھر کے اخبارات و جرائد کے ایڈیٹروں اور دوسرے صحافیوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے سے قبل پنجاب کے اس سابق وزیرِ خزانہ اور لاہور سے قومی و صوبائی کی ایک ایک نشست کے امیدوار سے ایک صحافی نے سوال کیا’’میاں جی! نومین لینڈ کے تنازع پر آپ کیا کہتے ہیں‘‘؟(ان دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی علاقوں میں نومین لینڈ کا تنازع عروج پر تھا) نوجوان نے لاہور کے ایک سینئر صحافی کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہنے لگا’’میرے ویرو چلو روٹی شوٹی کھاؤ۔ بڑے چنگے کھانے بنوائے نے تہاڈے لئی‘‘۔ سوال کرنے والا صحافی جواب پر مصر ہوا تو نوجوان نے کہا کل ان شاء اللہ آپ کا بھائی قومی اسمبلی کا رکن بن جائے گا۔ پھر پولینڈ ہو ، آئرلینڈ یا نومین لینڈ، سب کی آزادی کی حمایت کرے گا۔جی اگلے دن نوجوان قومی اور پنجاب اسمبلی دونوں کا رکن بن گیا۔ پھر اس نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی۔ اسے پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بنا دیا گیا۔ دوبار پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بننے والا وہ نوجوان اس دور کی سول و ملٹری اشرافیہ کا دلنواز محبوب تھا۔ ریاستی اداروں نے 1988ء کے انتخابات میں اسے بینظیر بھٹو کے مقابل متبادل رہنما کے طور پر پیش کیا۔ آگے بڑھایا۔ وہی نوجوان آج کل تیسری بار اس ملک کا وزیراعظم ہے۔
ایک بار کا ذکر ہے اس کے سمدھی نے ایک بیان حلفی دیا کہ شریف خاندان نے قاضی فیملی کے اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تھی۔ ایک بار یہ بھی ہوا کہ یہ محبوب رہنما معافی مانگ کر خاندان سمیت ملک چھوڑ گیا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کم پارکر نامی خاتون صحافی سے پوچھا کہ تمہارا کوئی بوائے فرینڈ ہے؟ پھر ایک دفعہ یہ ہوا کہاس کا سب سے چھوٹا بھائی غسل خانے میں نماز فجر کے لئے وضو کرنے گیا۔ اورپانی کی بالٹی میں لگے الیکٹرک راڈ سے کرنٹ لگنے پر جاں بحق ہوگیا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ لاہور کے ڈپٹی کمشنر آفس کے ریکارڈ روم اور مال خانے میں آگ لگ گئی جس سے جاتی امراء کیلئیخریدی گئی زمینوں کا ریکارڈ جل گیا۔ ایک بار پھر ایسا ہوا کہ ایل ڈی اے پلازہ میں آگ لگی اور میٹرو منصوبے کے ساتھ ساتھ دانش سکولوں والے منصوبے کا ریکارڈ جل گیا۔ ایک بار پھر ایسا ہوا کہ نندی پور پاور پراجیکٹ کا ریکارڈ’’برباد‘‘ کر دیا گیا۔ اس سے اگلے روز پراسرار طور پر رمضان شوگر مل میں آگ لگ گئی۔ ایک دوست نے کہا جب سے شریف دور کے منصوبوں اور بعض خریداروں کا ریکارڈ جلنا شروع ہوا ہے ہمارے محبوب وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار پریشان رہنے لگے ہیں۔ ویسے ایک دفعہ کا ذکر یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی 13 اگست والی قدیم تاریخ پیدائش کو 25 دسمبر میں تبدیل کرواتے ہوئے کہا تھا’’ابا جی سے تاریخ پیدائش درج کرواتے ہوئے بھول ہو گئی‘‘۔

یہ بھی پڑھئے:  دہشت گرد کہہ رہے ہیں کہ وہی دہشت گردی کے خلاف لڑرہے ہیں؟

بشکریہ: روزنامہ خبریں ملتان

حالیہ بلاگ پوسٹس