حیرت ہے غفلت کی سی غفلت ہے۔ آپس کی لڑائیاں ہیں ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہیں۔ دشمن ہے کہ معرکہ پر معرکہ سر کیے جا رہا ہے اور ادھر ہم ہیں کہ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹ لیں دشمن سے بعد میں نبٹا جائے گا۔ اس کی چالوں پر نظر ہی نہیں بس اپنے ذاتی مخالفوں کو تو برباد ہی کر دیں۔
کچھ احساس ہے کہ دشمن آپکو بھوکا پیاسا مارنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اور ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ اپنی منزل کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے اور ہم اس بات ہر لڑ رہے ہیں کہ اپنے پالے ہوئے دہشت گرد لشکروں کو کیسے بچایا جائے۔ دوسری پارٹی کو کیسے برباد کیا جائے۔ ایک دوسرے کے کپڑے سرِ بازار کیسے اتارے جائیں۔
پاکستانی پنجاب ایک زمانے میں پورے برِّ صغیر کی غذائی ضروریات پوری کرتا تھا۔ آج اپنی پنجاب کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں۔ ہندوستانی پنجاب جو تقسیمِ ہند سے قبل بنجر علاقہ تھا آج سر سبزو شاداب ہے اور پورے ہندوستان کو کھلا رہا ہے۔پنجاب کا نہری نظام دنیا کا سب سے شاندار نظام تھا جس کے تحت پورے صوبے کے ہر گاؤں قصبے تک میں پانی جاتا تھا۔ آج نہریں کیا دریا سوکھے پڑیں ہیں۔ دو دریا آپ ویسے دشمن کو دے چکے۔ باقی پر اپنی ہٹ دھرمی چالاکی اور آپکی غفلت کے باعث دشمن ڈیم پر ڈیم بنا چکا اور آپکے حصے کا سارا پانی لے گیا۔ اور آپ کے حکمران اپنی ذاتی دوستی کے بدلے چپ سادھے رہے۔ عجیب بے حسی ہے جیسے اپنا ملک نہ ہوا غیر کا مال ہوا کہ دوسروں کو لوٹنے دیا جائے۔
نہروں کے بدلے فصلوں کو اب ٹیوب ویل کے ذریعے سیراب کیا جا رہا ہے ۔ جس کی وجہ سے ایک طرف بجلی کا بےتحاشا استعمال ہو رہا ہے اور کاشت کاری مہنگی ہو رہی ہے۔ دوسرا پانی کی زیرِ زمین سطح دن بہ دن گرتی جا رہی ہے۔ جو پانی چند فٹ نیچے مل جاتا تھا اب سو فٹ سے بھی گہرا ہو چکا۔ ہر گھر میں موٹر لگ چکی ہے زمین سے پانی کھینچنے کیلیے۔مگر کسی کو کیا۔
فصلیں باغات دن بدن ہاؤسنگ کالونیوں میں بدل رہے ہیں اور اداروں کو کچھ پتا ہی نہیں کہ اس کے کتنے منفی اثرات معاشرے پرمرتب ہوں گے۔ جب اگے گا ہی نہیں تو کھاؤ گے کہاں سے؟ دوسری طرف بارڈر کے اس پار پالیسیاں اتنی اعلیٰ ہیں کہ لوگ خود سے کاشت کاری کرتے ہیں۔ کیونکہ وہاں یہ ایک انتہائی منفعت بخش کاروبار ہے۔ بے بہا دریائی و نہری پانی، مفت بجلی، زیرِ زمین نزدیک گہرا پانی کاذخیرہ۔ ہر طرف باغات و کھیت کھلیان۔ ہاؤسنگ کالونی بنانے پر اداروں کا سخت کنٹرول۔
تنزلی ہی تنزلی ہے۔ رہنما ہیں ایسے جن کے پاس شعور نام کو نہیں۔ مستقبل میں جھانکنے والی آنکھ چاہیے ہوتی ہے جو ادھر ناپید ہے۔ ان کا مطمعِ نظر اور سوچ یہاں تک ہی ہے کہ نئی سڑک بنواؤ، سریا لگواؤ کمیشن کھاؤ، اور مال بنا کے ملک سے باہر بھجواؤ۔کیا کسی نے سوچا ہے تقسیم نے جو پنجاب کے سینے پر خونی لکیر کھینچی اس کا نقصان پنجاب کو کتنا شدید ہوا۔ ہوش کے ناخن لیجیے معاملے کی سنگینی کا احساس نہ کیا گیا تو یاد رہے یہاں ہندوستان کو ہمیں ہتھیار سے مارنے کی ضرورت ہی نہیں پڑنی۔ یہاں خوراک اور پانی کی عدم دستیابی ہی وہ حالات پیدا نہ کر دے کہ آپ خود انہیں خاکم بدہن نہ کہہ دیں کہ ہمیں اپنے میں شامل کر لو تاکہ دریاؤں کے راستے کھلیں اور پیاسی دھرتی کو پانی مل سکے۔
وہ پنجاب جو ہندوستان کا غلہ ڈپو تھا، سب کا سقّا تھا ۔ خدارا اسے پیاسا مت مارئیے۔اس پر رحم کیجیے۔ اس کے حق اس کے پانی کیلیے آواز اٹھائیے ہر ممکن اقدامات کیجیے قبل اس کے کہ وقت کی ڈور آپکے ہاتھ سے نکل جائے اور پنجاب کٹی پتنگ کی طرح کسی دوسرےکے دامن میں جا گڑے۔
پنجاب آپکی دھرتی ماں ہے اور ماں کو پیاسا مت مارئیے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn