صدیاں بیت گئیں جب حوا کی بیٹی کی پیدائش کو باعثِ شرم و ندامت سمجھا جاتا تھا۔ اس پر اکتفانہ تھا ان کو زندہ گاڑھنا عام سی بات تھی۔ ان کی موت پر نہ کوئی دل ملول ہوتا اور نہ کوئی آنکھ اشکبار ہوتی بلکہ بہادری اور عزت و ناموس کی علامت سمجھا جاتا۔
شاید انہی معصوم و معطر کلیوں کی آہ و بقا رب العالمین کے دربار میں منجاب ہوئی کہ اس رب زو لجلال نے رحمت العالمین ﷺکو مبعوث فرمایا وہ دین انقلاب لائے اور وہی منحوس باعثِ شرم و ندامت بیٹیاں رحمت بن گئیں۔ کچھ عرصہ یہ رحمتیں یونہی سایہ فگن رہیں کیو نکہ اسلام نے ان کے حقوق و فرائض متعین کر دئیے۔مگر دیکھتے ہی دیکھتے زمانے نے پھر روٹ لی۔ حوا زادیاں ایک دفعہ پھر زیرِ عتاب آگئیں اور آدم زاد میدان میں اتر آئے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور کیا ہے اوپر انکے (فرض) اگر ایمان لائیں اللہ پر اور آخرت پر اور خرچ کریں(بیویوں پر) اس چیز سے جو دیا انکو اللہ نے ار ہے اللہ خوب جاننے والا (سورۃ النسا آیت نمبر ۳۹)
لیکن آج کے مرد نے تو اس عورت کو بازار میں لاکر کھڑا کر دیا کہیں وہ فیکٹریوں میں کام کرتی ہے تو کہیں گھروں میں برتن دھوتی ہیں۔ کیونکہ اسے تو اپنے بچوں کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ مرد تو آزاد ہوا بیوی بچوں سے۔ صبح کا نکلا شام کو گھر آیا۔ کبھی کسی دکان پر بیٹھ کر وقت گزار ا یا نشہ کر کے آیا۔ آتی جاتی لڑکیوں پر آواز یں کس کے۔ اسے خبر نہیں کہ بیوی اور بچے کس حال میں ہیں۔
جس نے جونہی گھر کی دہلیز پار کی تو وقت کا فرعون بن گیا۔ مجھے کھانے کا تقاضہ شروع کر دیا اور بچوں کو مار پیٹ شروع کر دی۔ اور سو گیا۔کیونکہ وہ تھکا ہوا تھا۔ اور یوں بیوی نے ساری رات رو رو کر آنکھوں میں گزار دی کہ آخر وہ کس طرح بچوں کی پرورش کرے اس تو اپنی جان تک سنبھالی نہیں جاتی۔ روز کی یہی کھینچا تانی اتنی بڑھی کہ نوبت طلاق تک جا پہنچی۔لیکن یہ کیا؟ اس نے تو طلاق میں ساتھ بچے بھی لکھ دئیے کیونکہ وہ مرد ہے اور معاشرے نے اس کو طاقت دی ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔یہ حوازادی اپنے بچوں کو لیکر اب کدھر جائے ؟نہ اس کا زمین میں ٹھکانہ نہ آسمان میں ۔
طلاق مرد دیتا ہے اور داغ عورت کے ماتھے پر لگتا ہے ۔چاہیےاس میں مرد کا قصور ہو یا عورت کا مرد سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تم نے اپنی بیوی کوطلاق کیوں دی بلکہ سب عورت کو ہی قدم قدم پر احساس دلاتے ہیں کہ تم ہی گھر بسانے کے قابل نہیں تھی۔
حوا کی بیٹی تو جس کلاس میں بھی ہے سمجھوتے کرنا تیرا مقدرٹھہرا۔ تو تو پیدا ہی قربانیاں دینے کیلئے ہوئی ہے۔ آہ حوازادی تیرا باپ بیمار ہے تیرا بھائی آوارہ ہے تیری ماں اس دنیا کے دکھوں سے چھٹکارا پا چکی ہے ۔ تجھے اب کمر کس لینی ہے۔ کیونکہ زندہ رہنے اور رکھنے کیلئے تجھے ہی کچھ کرنا ہے بالآخر تو نے وہی کیا۔ گھر سے قدم نکالا ۔ تو نے وہ سب کیا جس کے کرنے کی تجھ میں سکت بھی نہ تھی۔
لیکن یہ کیا تیرا بھائی تو اب باغیرت بن گیا ہے۔ وہ تجھے باہر نکلنے سے منع کر رہا ہے ورنہ تجھے قتل کر کے عبرت کا نشان بنا دے گا۔بالآخر تیرے بھائی کی آوارگی پر غیرت کی مہر لگ ہی گئی اور اس نے تجھے نشانِ عبرت بنا ڈالا۔وہ غیور ٹھہرا اور تیر ے معصوم بہن بھائی منزل پر پہنچ کر بھی منزل نہ پاسکے۔
یہ کہانی آج کی نہیں عرصہ دراز سے عورتوں پر ظلم ایک فیشن بن چکا ہے۔میں پوچھتی ہوں آخر کب تک مری کی ماریہ جلتی رہے گی؟ کب تک باغیرت بھائی معصوم بہن کو چھریوں کے وار سے تڑپا تا رہے گا؟ کب تک رشتہ کے تنازع پر معصوم کلیوں پر تیزاب اچھالا جاتا رہے گا؟کب تک عورت طلاق کا دا غ لگا کر گھر سے نکالی جاتی رہے گی؟ کب تک حوازادیوں کی عزت لٹتی رہے گی۔ کب تک حوازادیاں درندوں کی ہوس کا نشانہ بنتی رہیں گی؟
شرمین عبید کے ٹیلی فلم بنانے یا حقوقِ نسواں بل پاس کروانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ آج اگر خواتین پر تشدد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے تو اسکے ذمہ دار میں ‘آپ اور خود اسلامی نظریاتی کونسل ہیں۔کیونکہ میں بھی نسرین جلیل کے الفاظ سے اتفاق کر تی ہوں کہ کونسل کے ارکان جدید قانون سے لاعلم ہیں، غیرت کے نام پر قتل میں قصاص اور دیت کے قانون کا اطلاق کرنا اور Rape Casesمیں DNA Reportکو تسلیم نہ کرنا بھی سرا سر قیانوسی ہے۔ بیشک اب اسلامی نظریاتی کونسل کی معیاد پوری ہو چکی ہے۔ اب اس کو تحلیل کرنا چاہیے اور عورتوں کے تحفظ کا قانون پاس کروانے کے ساتھ ساتھ اسکو لاگو بھی کروانا چاہیے۔
خدا حوازادیوں پر اپنا رحم فرمائے۔آمین!
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn