Qalamkar Website Header Image

میں غریب ہوں۔۔۔

sakhawat hussainیوں تو میرے کافی نام ہیں لیکن آپ کی دنیا میں تعارف کے لئے مجھے کسی نام کی ضرورت نہیں۔آپ کی دنیا میں میرا کوئی نام نہیں ۔میرا بس ایک نام ہے وہ ہے غریب۔میرا دوسرا نام ہے ضرورت مند۔۔مجھے اکثر معاشرے کے حسیں ماتھے کا کلنک سمجھا جاتا ہے۔شاید بہت سے لوگ کہتے ہوں اس کے پاس نہ بیٹھو بو آتی ہے۔دیکھو کتنا گندہ ہے۔ پسنے کی بو لئے پھرتا ہے۔گنوار بات کرنے کے آداب بھی نہیں  اس کو۔یہ باتیں میں اسی معاشرے کے باعزت لوگوں سے روز سنتا ہوں ۔
صاحب آپ کچھ بھی کہ سکتے ہو۔ صاف گھروں میں جو رہتے ہو۔صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہو۔ برینڈ بریینڈ کرتے رہتے ہو۔میں ایک ٹھیلا لگانے والا مزدور ہوں ۔ میری پہچان غربت ہے۔مزدور خود بیمار ہو یا اس کا کوئی گھر والا۔ گھر کے امور ہی رک جاتے ہیں۔میری ماں کو کچھ دن سے کمر اور پٹھوں میں درد  سا محسوس ہورہا تھا۔ بڑھتے بڑھتے یہ پاؤں تک پہنچا تو ایک دن اماں بے اختیار بولی۔ پتر ۔درد اب برداشت نہیں ہوتا۔ کسی ڈاکٹر کو دکھا دے۔
محلے کے ڈاکٹر کو دکھا یا تو اس نے اسی شعبے کے ماہر ڈاکٹر کو دکھانے کو کہا۔ہم غریب لوگ پیاروں کو لے کر ہاسپٹل کے دھکے کھاتے پھریں نہ تو گھر میں موجود باقی لوگ بھوک کی وجہ سے اللہ کو پیا رے ہوجاتے ہیں۔سارا دن ہاسپیٹل کے دھکے کھانے کے بعد مشکل سے باری آئی اور ڈاکٹر صاحب نےہاتھ لگائے بنا یعنی مریض کو دیکھے بنا علامات پوچھ کر ہی کچھ دوائیاں لکھ دیں ۔باہر بیچ پر بیٹھے ڈاکٹر کے روئے پر غور کر رہا تھا۔ کہ ایک بابا جی پاس آئے ۔ انہوں نے غالبا چہرے کے تاثرات پڑھ لئے تھے۔
"بیٹا یہا ں تو ایسے ہی تشخیص ہوتی ہے”۔
"بابا جی بڑے پروفیسر ڈاکٹر صاحب چیک نہیں کرتے کیا”؟
بابا جی ہنسے” بیٹا کس دنیا میں رہتے ہو۔ وہ مشکل سے آتے ہیں ۔ وارڈ میں کبھی مریض دیکھ لیتے ہیں۔ اور اپنے کلینک اور پرائیویٹ ہاسپیٹل کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں”۔
"بابا جی یہ تو اتنا پڑھے لکھے ہیں ۔ ہسپتال میں پروفیسر۔آتے بھی کم ہیں ۔ ساتھ پرائیویٹ ۔وہاں پر اتنا اچھا اخلاق۔ یہ سب کیا صحیح ہے”؟
بابا جی ہنسے ” بیٹا چھوڑو یہ باتیں ۔ان کے کلینک جاؤ، ماں کو دکھا و ۔ پچیس سو فیس لیتے ہیں۔یا بس شکایت کرنی ہے تو کرتے رہو لیکن سنے گا کون۔ غریب ہو،کوئی گھا س بھی نہیں ڈالے گا”۔
اس دن مجھے احساس ہوا غریبی کتنا سنگین جرم ہے۔انسان غریب ہو تو اپنوں کا علاج تک نہیں کروا سکتا۔جیسے تیسے پیسے جوڑ کر پروفیسر صاحب کے کلینک میں پہچا تو وہاں بھی اپنی کمیونٹی کے کافی لوگ نظر آئے۔ہر چہرے پر ایک کہا نی تھی جس کا عنوان تھا غربت اور ضرورت۔
کافی انتظار کے بعد باری آئی ۔میری آخری باری تھی۔
ماں کو لے کر اندر پہنچا تو ڈاکٹر صاحب اپنے کسی دوست سے محو گفتگو تھے۔
کرپٹ معاشرے ۔ کرپٹ حکمران۔ اور عوامی حقوق کی بابت اپنا نظریہ پیش کر رہے تھے۔
مجھے بتایا گیا کہ ماں جی کا ایم آر آئی کرنا پڑے گا۔
سرکاری کرواؤں گا تو وہی دھکے انتظار۔ ہا ں البتہ پرائیویٹ کرواؤں گا تو اسی وقت ہو جائے گا۔لیکن بس سات آٹھ ہزار خرچ کرنے ہوں گے۔
میں غریب تھا لہذا سرکاری ہسپتال کو ہی ترجیح دی۔ ایم آر آئی میں تیں ہفتے لگ گئے۔
تیں ہفتے بعد رپورٹ لے کر پہچا تو مجھے نوید سنائی گئی کہ جلد از جلد سرجری کرنی پڑے گی۔اور اگر میں پرائیویٹ ہاسپیٹل سے کرتا ہوں تو پروفیسر صاحب اپنے دست مبارک سے خود سرجری کریں گے۔ اور دو دن میں ماں کو بیڈ ریسٹ کے لئےگھر بھیج دیا جائے گا۔ جبکہ اس پر خرچہ کم از کم دو لاکھ آئے گا۔ لیکن اگرسرکاری ہاسپیٹل سے  کرتا ہوں تو کم از کم بھی ایک مہینے سے کم کا وقت نہیں ملے گا۔اور پروفیسر صاحب وہاں سرجری خود نہیں کرتے بلکہ ان کے اسسٹنٹ کرتے ہیں۔
میری آنکھوں میں آنسو تھے۔اور آنکھیں آسمان کی طرف۔دنیا کے نظام کو دیکھ رہا تھا۔جہا ں میرے ساتھ ایک امیر کو بھی سرجری کا کہا گیا تھا۔
اس نے اگلے دن ہی پیسے جمع کروائے اور اس سے اگلے دن اس کی سرجری بھی ہو گئی۔جبکہ میری ماں  غربت کے کمبل میں منہ چھپائے اپنی بے بسی کا تماشادیکھ رہی تھی۔اگلے دن بڑی مشکل سے پروفیسر صاحب کے کمرے میں پہنچا ان کو اپنی مجبوری بتائی۔ انکھیں نم تھیں ۔ لیکن پروفیسر صاحب کے دل پرذرا بھر بھی اثر نہیں ہوا۔ بولے "میاں تمھارے لئے اتنا کر سکتا ہوں ٹوٹل سے بیس ہزار کی رعایت کردوں ۔ یا اتنا مسئلہ ہے تو سرکا ری ہاسپیٹل میں چلے جاؤ۔لیکن وہاں کے رش کا تمھیں پتہ ہے اور تمھارے ماں کو جلد سرجری کی ضرورت ہے”۔
"ڈاکٹر صاحب آپ پھر اتنی رعایت کردیں کہ آپ جس ہاسپیٹل میں ہیں وہاں میرا نمبر جلدی لگوادیں” ۔
غریب کی بات سن کر ڈاکٹر کو جوش آیا اور بولے”دیکھو میاں یہا ں روز بہت سے لوگ آتے ہیں۔ ان سب کے نمبر لگواتا پھروں تو میں ڈاکٹر نہیں پرچی والا ہی کہلاؤں گا۔ ساتھ سرکاری ہاسپیٹل میں ہر کام قاعدے سے ہوتا ہے۔جب باری آئے گی تب آپریشن ہوگا”۔ اور انہوں نے اپنے پی اے کو بلا یا اورخو ب ڈانٹا کہ مریض کے علاوہ کسی کو کیوں اندر بھیجتے ہو۔۔
میں بس ان کا چہرہ تک رہا تھا۔ جو معاشرہ کا انتہائی پڑھا لکھا طبقہ تھا۔ جو کرپشن اور بدعنوانی پرگھنٹوں بول لیتے تھے۔ لیکن کیا اور کیوں بولتے تھے میں
سمجھ نہیں پا رہا تھا۔روتے دل کے ساتھ سرکا ری ہاسپیٹل پہنچا ۔ماں کو اکسٹھ نمبر ملا ہے۔ پتہ نہیں کب باری آئے گی۔ لیکن جب تک آپریشن نہیں ہوجاتا وہ وارڈ میں رہیں گی۔ساتھ میں بھی رہوں گایا کوئی دوسرا۔روز خرچہ ہوگا۔روز اندر جاتے ہوئے چوکیدار کو بیس روپے دینے ہوں گے۔مجھے اپنا ٹھیلا کئی دن بند رکھنا ہوگا۔ماں کے ساتھ کیا ہوتا ہے پتہ نہیں لیکن میں ایک غریب ہوں۔آپ کو جہاں ملوں مجھ سے نفرت کیجئے۔میں نفرت کے ہی قابل ہوں۔عید آرہی ہے۔۔۔مجھ جیسے کتنے غریب بھوک سے مرجائیں گے۔لیکن آپ کے فریج گوشت سے آباد رہیں گے۔عید قرباں پر بھی غریب کو نہ کپڑے ملتے ہیں نہ پیٹ بھر کر خوراک۔مجھے کسی ڈاکٹر سے شکایت نہیں۔نہ آپ سے ہے۔ جب میرے ساتھ یہ سب ہونا ہے تو ہو جائے۔لیکن یا د رکھئے بہترین گاڑیوں میں پھرتے،بہترین ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہوئے،کسی غریب کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہوئےاور ہمیں جاہل گنوار کہتے ہوئےپھر سسٹم کو برامت کہیں۔غریبوں کے حقوق کے بارے میں مت بولیں،یہ آپ پر نہیں جچتا۔آپ کی دنیا ۔۔۔پڑھے لکھے صاٖف ستھرے لوگ۔۔۔۔
اور ہم آپ کی دنیا کے ماتھے کا کلنک

یہ بھی پڑھئے:  نور درویش سالگرہ مبارک ہو - عامر حسینی

 

حالیہ بلاگ پوسٹس