Qalamkar Website Header Image

دھڑن تختہ الطاف حسین کا یا۔۔۔؟؟؟؟؟

rp_Anwar-Abbas-Anwar-new-291x300.jpgالطاف حسین اور اس کے وفاداروں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا جائے چاہے انہیں اڈیالہ جیل سمیت ملک کی کسی بھی جیل کے پھانسی گھاٹ کی زینت بنا کر بظاہر عبرت کا نشان بنا دیا جائے بے شک اس میں الطاف حسین کے حامی کالم نگاروں ، تجزیہ نکاروں اور صحافیوں کو بھی بھاری بوٹو ں کی نوک پر رکھ کر فضاؤں میں بلند کیا جائے لیکن یہ سب کچھ کرنے سے پہلے مجھے یقین دلایا جائے کہ اس عمل سے قائد اعظم اور علامہ اقبال کا پاکستان محفوظ ہو جائے گا، اس پاک دھرتی سے دہشت گردی نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے گی،ہر طرف امن و سکون دندناتا پھرتا ہوگا۔ کوئی ٹارگٹ کلر کسی ماں کے لخت جگر کو دن دیہاڑے موت کی نیند نہیں سلائے گا، ماؤں بہنوں اور بیوی بچوں کی دعاؤں کے ساتھ انکے لیے روٹی روزی کمانے کی غرض سے گھر سے نکلنے والے پاکستانیوں کو یقین ہوگا کہ وہ شام کو زندہ سلامت گھر واپس پہنچیں گے۔ ہم پاکستانیوں کو اپنی زندگیوں کی ضمانت ہی تو چاہیے۔
اب میں اسی تناظر میں ماضی میں لیے چلتا ہوں، ایوب خان نے کس کس کے خلاف غداری کے الزامات نہیں لگائے تھے۔جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا مودودی کو سزائے موت کس جرم میں سنائی گئی؟ غداری کے الزام میں مگر ہمارے برادر ایمانی کی مداخلت سے اس سزا پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور جماعت اسلامی ااج بھی قائم دائم ہے۔مولانا مفتی محمود اور اور انکے پیروکار آج بھی یہ کہنے میں میں کوئی ڈر اور خوف محسوس نہیں کرتے کہ ’’ ا للہ کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے‘‘کسی نے انکے خلاف ایکشن نہیں لیا اور نہ ہی کوئی قانون حرکت میں آیا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد خان عبدالغفار خان کو ہم نے غدار قرار دیا اور انکی آل اولاد آج بھی ایسے ہی الزامات کا سامنا کررہی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جمہوریت میں ولی خاں اور اسکے ساتھیوں پر حیدرآباد سازش کیس بنایا اور اسکی جماعت نیشنل عوامی پارٹی ( نیپ) کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریفرنس دائر کرکے اسے خلاف قانون قراردلوایاتو وہ جماعت نام بدل کر عوامی نیشنل پارٹی کی صورت میں منظر پر موجود رہی پھر اسی ذوالفقار علی بھٹو کے گھر کلفٹن اور لاڑکانہ میں تین اورچار اپریل کی درمیانی شب چھاپے مارے گئے اور قوم کو خوشخبری سنائی گئی کہ ذوالفقار علی بھٹو غدار قوم تھا اس کے گھر سے ملک دشمن مواد اور نقشے برآمد ہوئے ہیں، اس کے بعد تو غداری کے سرٹیفیکٹس ایک تسلسل سے تقسیم کیے جاتے رہے ہیں ۔اس سب کے باوجود خان عبدالغفار خان کی اولاد پاکستان کے اقتدار کا حصہ رہی۔۔۔ یہاں میں شیخ مجیب الرحمان کی بات نہیں کررہا کیونکہ اس حوالے سے بہت تلخ حقائق ہیں جو ہمارے حکمرانوں اور اسٹبلشمنٹ کو ہضم نہیں ہوتے اس لیے انکا ذکر گول کر نا ہی بہتر ہے۔
سیاست اور جمہوریت لازم وملزوم ہیں دونوں مین سے کسی ایک کے بغیر دوسری نامکمل ہے جمہوریت کے بغیر سیاست نہیں اور سیاست کے بنا جمہوریت کی کوئی قدر و قیمت نہیں اس لیے سیاستدان جمہوریت کے استحکام کے لیے دوڑتے پھرتے ہیں ۔کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے حقیقت یہی ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں غیر جمہوری ادوار حکومت نے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا ہے کیونکہ اگر پاکستان میں جمہوریت ہوتی تو ہر کسی کوئی اظہار رائے کی آزادی حاصل ہوتی اور ہر کوئی بلا جھجک اور رکاوٹ کے اپنی بات جمہوری طریقے سے کرتا اور اپنے مطالبات عوام اور حکمرانوں کے سامنے رکھتا۔ اگر حکمران حزب اختلاف کے راہنماؤں کی آواز پر کان نہ دھرتے تو وہ پاکستانی عوام کے پاس اپنا مقدمہ لیکر جاتے اسطرح عوامی اور جمہوری مسائل جمہوری انداز میں حل ہوجاتے۔ لیکن کچھ عناصر اس مملکت خداداد کو پھلتا پھولتا اور ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے انہوں نے اسی غیر جمہوری انداز میں چلانے والوں کی حمایت و تائید کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔
پاکستان میں کسی کو غدار قرار دینا نہ پہلے پاکستان کے لیے سود مند ثابت ہوا ہے اور نہ اب ہوگا کیونکہ عوام میں مقبول شخصیات کو غیر جمہوری اور غیر سیاسی انداز اور طریقہ کار کے ذریعے منظر سے ہٹانے کے تنائج بہت بھیانک اور خوف ناک ہوتے ہیں مشرقی پاکستان کی مثال ( میں یہاں نہیں دینا چاہتا تھا) ہمارے سامنے ہے۔ غداری کے الزامات لگا کر اور سزائے موت سنا کر نہ تو ہم مولانا مودودی کو ختم کرسکے اور نہ ہی انکی جماعت اسلامی کو پاکستان کی سیاست سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو سکے۔اسی طرح خان عبدالولی خان اور ذعالفقار علی بھٹو کی کی پیپلز پارٹی کو حوالے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ سے بہتر طور پر نمٹنے اور اس دھرتی کو امن کا گہوارا بنانے کے لیے نیشنل ایکشن پلان اپنی پوری مد و شد کے ساتھ جاری ہے اس ھوالے سے فوج نے حکمت عملی اختیار کی ہے کہ دہشتگرد چاہے کسی بھی جماعت ،مذہب اور قبیلے سے تعلق رکھتا ہو اسے کیفرکردار تھا پہنچا کر دم لیا جائیگا، اور یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ دہشتگردوں کے سہولت کاروں ،انکے لیے مالی معاملات دیکھنے والوں اور انکے لیے دل و دماغ میں نرم گوشہ رکھنے والوں سے بھی پوری قوت سے نمٹا جائے گا، اس ضمن میں اگر کوئی وضاخت کردے تو میرے سمیت بہت سوں کے اذہان و قلوب میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات دور ہونے میں مدد ملے گی، وہ یہ کہ ایم کیو ایم کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے اور ان کے سہولت کاروں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لانے کی باتیں ہو رہی ہیں، میرا سوال یہ ہے کہ کیا جنرل پرویز مشرف سمیت جس جس نے ایم کیو ایم کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے اسے قانون کی گرفت میں لایا جائے گا ؟ اگر تو جواب ہاں میں ہے تو یقیناََ یہ ملک دہشت گردی سے پاک ہو جائے گا لیکن اگر چہرے دیکھ کر سہولت کار ہونے یا نہ ہونے کے فیصلے کیے گے تو پھر وطن عزیز کو دہشتگردوں سے پاک کرنے کے دعوے محض دعوے ہی رہیں گے، اور پھر شیخ مجیب الررحمن،الطاف حسین اور دیگر ناپسدیدہ شخصیات پیدا ہوتی رہیں گی اور ہمارے لیے،ہمارے وطن کے لیے اور وطن عزیز کے پاسبانوں کے لیے مسائل اور خطرات پیدا ہوتے رہیں گے۔
بہتر تو یہی ہے کہ الطاف حسین کی ذات اور ایم کیو ایم کو طاقت کے ذریعہ ختم کرنے کے چکر سے باہر نکل کر سوچا جائے اور اس مصیبت سے سیاسی میدان میں سیاسی انداز میں نمٹنے کی حکمت عمل وضع کرنے کے بارے ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے۔ اگر ضرورت پیش آئے تو مذکرات کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے کیونکہ مذاکرات سے کسی طرح بھی پہلو تہی نہیں کی جا سکتی اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگوں کی تباہی کے بعد بھی مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنا پڑتا ہے اس لیے تجویز ہے کہ الطاف حسین کو ایک طرف رکھتے ہوئے باقی ایم کیو ایم کی مقامی قیادت سے ڈائیلاگ کیا جا سکتا ہے تاکہ کراچی کو بڑی تباہی سے محفوظ بنایا جا سکے۔
صلاح عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے۔۔۔باقی حکومت اور سکیورٹی اداروں کے پاس مجھ سے کہیں زیادہ بہتر عالی دماغ موجود ہیں جو وطن عزیز اور قومی مفاد میں بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
لوگ باتیں کرنے میں مصروف ہیں کہ ایم کیو ایم کے خلاف قومی اداروں کی کارروائی سے الطاف حسین کادھڑن تختہ ہوگا یا۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟ بس اس بات پر غور کرنا ضروری ہے

حالیہ بلاگ پوسٹس