Qalamkar Website Header Image

فنِ سخن میں جنوں کی حد تک ریاضت کرتی شاعرہ۔۔۔ سدرہ میر

fazalآدمی پتے کھانے اور پتے اوڑھنے کے وقت سے لیکر آج تک کے سفر میں فقط کھانے پینے اور پہننے میں مگن نہیں رہا بلکہ نت نئے خیالات، جذبات، تجربات، مشاہدات کو بروئے کار بھی لاتا رہا ہے۔ پتے کھانے اور اوڑھنے والا آدمی اب اپنی بنی سواری سے چاند تک پہنچ گیا ہے۔ انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ اظہار ذات کا تعلق بھی انسان جتنا ہی قدیم ہے اور انسان جدید نے اسے جدید آہنگ دیکر نئے اسلوب کیساتھ آب نمایاں کردیا ہے۔ اظہار ذات کے لیے انسان نے قلم ہاتھ میں لیا اور پتوں، گتوں اور کپڑوں پر لکھتا ہوا صفحہ قرطاس پر پہنچا۔ اب جو ہک انسان اپنے ذاتی اظہار کو خلق خدا تک پہنچانے میں کوئی دیر نہیں لگتی خط لکھ کر برسوں جواب کا انتظار نہیں کرنا پڑتا، بس آنکھ جھپکتے ہی آپ کی تحریر ہزاروں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے۔ فقط انگلیوں سے ٹائپ کرنے کی دیر ہے، پوسٹ کی تحریر ادھر کمنٹس اور لائکس کی بھرمار شروع ہو جاتی ہے۔ فیس بک دور جدید کا تیز ترین سوشل میڈیا ہے۔ خبر سے ادب تک آدمی متحرک ہے۔ شاعری کی باد نسیم بھی چل رہی ہے، شجر ادب کے پتے، ٹہنیاں، غزل اور شعر کی خوشبو سے معطر ہیں۔ ادب کی مہک دور دور تک پھیلی ہوئی ہے، شعراء اور شاعرات کی غزلیں شاں شاں فیس بک پر پوسٹ ہورہی ہیں۔ دل فیس بک سی نعمت سے مسرور ہورہا ہے اور نئی نئی پختہ تحریریں، مستند خبریں آنکھ کو پڑھنے کے لیے بروقت میسر ہیں۔ شعراء اور شاعرات کی ایک عظیم صف ہے جو فیس بک پہ اپنا کام سرانجام دے رہی ہے۔ ان میں سے ایک نام سدرہ میر صاحبہ کا ہے جو کہ اپنی مثال آپ ہیں۔
ہر شاعر اور شاعرہ کی بوسیلہ سخن اپنی اپنی خوشبو ہے اور اپنا اپنا سلیقہ و طریقہ ہے مگر سدرہ میر کی شاعری گلِ گلاب ہے۔ جس کی مہک دامن الفت کو لپیٹے ہوئے ہے جس کا آنچل صباِ ادب میں اُڑ رہا ہے۔ سدرہ میر اپنی شاعری میں حرفوں کو ابیر و گلال کا رنگ دیکر لفظوں کا جل تھل تھال اپنی غزل میں اٹھائے ہوئے ہے۔ طبیعت میں غصہ اور تھوڑی سی رعونت ہونے کے باوجود بھی سدرہ کی شاعری پڑھتے وقت ایسی مٹھاس محسوس ہوتی ہے جس سے زبان و گوش دونوں شیریں ہوجاتے ہیں۔ اب جبکہ اس دورِ پُرآشوب میں تاریکیوں کا دامنِ دراز پھیلا ہوا ہے مگر شاعرہ اپنی شاعری سے افلاکِ سخن پہ جگمگاہٹ پیدا کررہی ہے۔ گلستانِ ادب میں نئی نئی پھوٹتی ہوئی کونپلیں، آفاقِ سخن پہ تاروں کا مقام رکھتی ہیں تو سدرہ میر بصورت چاند دکھائی دیتی ہے۔ سدرہ میر کی شاعری پڑھتے وقت مجھ پر بھی جوش ملیح آبادی کے عید کے دن کی کیفیت طاری ہوئی۔
ہائے دل میں وہ صبح عید کی دھومیں ، انگنائی میں وہ رنگوں کی گھومیں ، وہ سقف و بام کے قہقہے ، وہ زمین و آسمان کے چہچہے ، وہ رنگ و پے میں خوشی کی سرسراہٹیں و سینے میں کسی الھڑ کی سی آہٹیں، وہ لبوں پر بے اختیار مسکراہٹیں، وہ فواروں کی سی اچھلتی امنگیں، وہ ترنگوں کی غزالانِ رمیدہ کی سی شلنگیں، سانس اندر کھینچتا تو جگر تک ٹھنڈک جاتی اور سانس باہر لاتا تو کڑم دھم، کڑم دھم کی صدا آتی۔
sidra meerاب میں اپنے محبوب و محترم قاری کو سدرہ میر صاحبہ کی شاعری کی طرف لے جاتا ہوں۔
کیا ہی خوب تخیل ہے اور دیکھنا ہے کہ شاعرہ اپنے شعر میں کیا کہنا چاہ رہی ہے۔ میرا کرب، میرا درد، میرا تخیل، میرا جذبہ، میرا کام جو میں نے سرانجام دینا تھا وہ آہوں کی صورت میرے جسم میں مدفن ہوگیا ہے۔ مگر میں نے جو کام کیا ہے یہ بھی کوئی کم نہیں۔ میرے چلے جانے پر ہی پتہ چلے گا میں نے اندھیرے میں کتنے چراغ جلائے ہیں ، میرے چلے جانے پر میری مرقد ہی رہنمائی کرتی رہے گی۔ میرا جینا تو جینا مرنا بھی الفتِ آدمیت میں نشان منزل رہے گا۔ شعر دیکھیے۔
آہیں میری مدفون میرے ساتھ ہیں سدرہ
مرقد سے اگر اٹھا چراغوں کا دھواں اور
بارِ ہجر ایسی بلا ہے جو انسان تو انسان نباتات و حیوانات کی طبیعت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس حوالے سے شعر دیکھیے۔
چاند گم سم ہے ستاروں پہ خاموشی چھائی
ہجر کی رات ہے یہ رات بہت مشکل ہے
جب معاشرہ جمود کا شکار ہو اجتماعی سوچ مفقود ہو جائے تو حالات کے بدلنے کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ وقت بھی کبھی نہیں ٹھہرتا مگر معاشرہ جو ایک ہی وقت کی صورت جمود میں ہو اپنے ذہن پہ ایک ہی وقت مسلط کردے اور زمین بھی متحرک ہے مگر ادمی جو زمین کو معلق اور وقت کو ٹھہرا ہوا جانتے ہوئے مدہوشی میں پڑا رہے موجودہ حالات کی خوبصورت عکاسی کی ہے، شاعر نے اپنے شعر میں۔ شعر دیکھیے۔
وقت ٹھہرا ہے زمیں بھی ہے معلق سدرہ
کیسے بدلیں میرے حالات بہت مشکل ہے
واہ کیا خوب کہا ہے کہ ایسی ہستی جس نے لہو سے دیے جلاکے ایسی روشنی کی جو حشر تک قائم رہے گی۔ جو حشر تک ظلمت کا منہ چڑاتی رہیگی۔ جو حشر تک ظالم کا گریبان پکڑے رکھے گی جو حشر تک غاصب کو سرنہیں اٹھانے دے گی جو حشر تک جہالت کو سرنگوں رکھے گی ایسی مقدس ہستی نے اپنا لہو دے کے زمانے کو ظلمت سے بچالیا۔ کیا خوب شعر ہے سدرہ میر کو میں دل سے مبارکباد دیتا ہوں اس شعر پہ۔ شعر دیکھیے۔
اس میں تقدیس لہو کے ابھی جلتے ہیں چراغ
دیکھ لو آج بھی طلمت میں ضیاء ہے صحرا
***
ہم پہ غم حیات نے پھونکا طلسم تھا
ہم ہی تھے جو طلسم سے پتھر نہیں ہوئے
***
پیاس آنکھوں میں تڑپتی رہی لہروں کی طرح
غم کے دریا میں کہیں چھوڑ گیا ہے صحرا
***
دہلیز شب پہ دن کے اجالے پہنچ گئے
اے یاد رفتگاں مجھے کب تک جگاؤ گی
***
یہ زندگی کو بتا دے کوئی
میں ایک مدت سے مرچکی ہوں
***
پاؤں میں تھے صحرا کبھی سر تک رہے دریا
روا داد ہے اتنی سی محبت کے سفر کی
***
ذہن جب قتل کرچکا وہ میرا
کرکے گیا زیست کے حوالے مجھے
***
ایک ایک قطرہ اشک سمندر سے کم نہیں
ایک روز ان میں دیکھنا تم ڈوب جاؤ گی
***
گم سم ہے ذہن آنکھوں سے گہری اداسیاں
کب تک کسی کی یاد سے رشتہ نبھاؤ گی
***
زخمی ہے روح سدرہ دھڑکن رکی رکی سی
شیشہء جاں پہ برسے پتھر جدائیوں کے
***
ہجر کی راہ یہ لگتی ہے مجھے
تم یہ کس سمت چلے ہو صاحب
***
یہ لگ رہا ہے کہ طوفاں گذر چکا سدرہ
شکستہ شاخوں میں دیکھے ہیں آشیاں الجھے

حالیہ بلاگ پوسٹس