نیشنل ایکشن پلان جو کہ سانحہ (اے،پی،ایس)پشاور کے بعد تمام سول اور عسکری قیادت نے مل کے ترتیب دیا ، ساتھ ہی ساتھ ضربِ عضب کے نام سے دہشتگردوں کے خلاف بھرپور قسم کا آپریشن شروع کیا گیا ، پاکستان کی بقاء کی خاطر ایک ساتھ کئی اہم فیصلے کیے گئے۔
ملکِ پاک کو دہشتگردی کے ناسور سے پاک کرنے کا عزم لے کے سِول اور عسکری ادارے اپنی اپنی راہ پے گامزن ہوئے۔ عسکری ادارو ں کے حصے میں تھا وزیرستان،فاٹا کی تمام ایجنسیاں جو دہشتگردوں کی جنت تھیں اُن کو پاک کرنا۔ ہم سب جانتے ہیں کہ معصوم عوام کو محفوظ مقامات پر پہنچانے کے بعد پاک آرمی کے لیے ایک طویل اورسخت جنگ تھی جو کہ سرحد کے اندر بیٹھے دُشمن سے لڑنی تھی کسی بھی مُلک کی آرمی کیلئے مُلک کے اندر کا معرکہ فتح کرنا ایک امتحان سے کم نہیں ہوتا اور پھر ایسے دُشمن سے لڑنا جو طویل عرصہ سے مُلکِ پاک کی زمین پر قابض تھا ۔فاٹا،وزیرستان،شوال اور افغان بارڈر تک کے علاقوں میں مُکمل ہولڈ رکھنے والے طالبان کے اپنے ریڈیو چینلز ،مساجد پر مضبوط طالبانی نیٹ ورک کا قبضہ اور تکفیری مدرسوں کے نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ جدید اسلحے کے انبار اور پہاڑوں کے اندر محفوظ پناہ گاہیں اور تربیتی سنٹر اور اُس علاقے میں جانے والے ہر راستے پر بارودی سُرنگوں کا جال ۔یقیناًیہ ایک ایسی جنگ تھی جو حُب الوطنی کے جزبے و مضبوط اعصاب کے ساتھ ہی لڑی جا سکتی تھی ۔اور پھر ہم نے دیکھا کے اِس مُشکل میدان میں پاک افواج نے نعرہ تکبیر لگا کر اُس وقت قدم رکھا جب کوئی روز پاکستان کے اندرایسا نہیں تھا جب لاشیں گرانے ،بمب بلاسٹنگ و دستی حملوں سے خالی ہو اور ایک سال کے بعد ہی
حالات یکسر تبدیل تھے پاک افواج نے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا حق ادا کردیا اور آئے روز دھماکوں سے گونجنے والے شہر پشاورسمیت
زیادہ حصہ پاکستان کا محفوظ ہو گیا ۔لیکن ایک ذمہ داری ایسی تھی جو سِول اداروں کے سپُرد تھی۔ نیشنل ایکشن پلان کی اُن شقوں پر کام کرنا جو سِول اداروں کی ذمہ داری ہے۔نمبرایک کالعدم جماعتوں کی فنڈنگ کو بند کرنا اور کسی بھی قسم کی ایکٹیویٹی سے کالعدم جماعتوں کو روکنا اور فورتھ شیدول کے تحت تمام کالعدم جماعتوں کے رہنماوں پے کڑی نظر رکھنا ۔نمبر2تمام صوبوں کے اندر مدارس کو رجسٹر کرنا اور اُن کے ڈیٹا کو اکٹھا کرنا ۔نفرت انگیز تقاریر کے خلاف چارہ جوئی کرنا اور سخت سزائیں دلوانا اس جیسی کئی ایسے کام جو نیشنل ایکشن پلان کے مُطابق سِول اداروں موجود ہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کرنے تھے ۔سانحہ آرمی سکول پشاور کی دوسری برسی قریب آ چُکی ہے مگر اب تک حکومتوں نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔ پہلی شِق کالعدم جماعتوں کو جلسے ،جلوسوں اور ریلیوں سے روکنا تھا جو بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سِول حکومتوں نے نہیں کیا اور پاکستانی عوام جانتی ہے کہ یہی کالعدم جماعتیں تمام بڑے شہروں میں وال چاکنگ کےذریعے طالبان کو دہشتگردانہ کاروائیوں پر مُبارکبادیں پیش کرتی تھیں میں نے2012 میں اسلام آباد دارلحکومت میں ایک کالعدم جماعت کی طرف سے کی گئی وال چاکنگ دیکھی جِس میں لِکھا گیا تھا” ہم بھی بنیں گے طالبان”۔ لیکن وہ کالعدم جماعت اور اُس ہی کالعدم جماعت کے کارندے جو فورتھ شیڈول میں ہونے کے باوجود ہر ہر صوبے میں آزادانہ جلسے جلوس کرتے پِھر رہے ہیں جِس کی وجہ سے عوامِ پاکستان اور وارثینِ شہداء پاکستان کی تشویش بڑھتی جا رہی ہے ۔جہاں ضربِ عضب کی کامیابی خوشی کا با عث بنتی ہے وہیں نیشنل ایکشن پلان پر یکسر عمل نہ ہونا باعثِ تکلیف ہے۔ حتیٰ کہ اب تو آرمی چیف نے بھی نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے خطرات کا اظہار کیا۔ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل نہ ہونے کی وجہ سے ضربِ عضب کی کامیابی بھی خطرے میں پڑ رہی ہے ۔ آرمی چیف کا یہ بیان واضح کرتا ہے کہ وفاقی حکومت و صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ابھی تک ناکام ہیں۔ ہمیشہ آمریت آمریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو چاہیے کہ اپنی قومی و مِلی ذمہ داری سمجھتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کریں تا کہ سِول حکومتوں پر عوام کا اعتماد قائم ہو سکے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn