عالمی افسانہ میلہ 2016ء عالمی افسانہ فورم
افسانہ نمبر 13 سانس کی ڈور
تحریر: امین صدرالدین بھایانی ۔ٹلانٹا، امریکا۔
٭……٭……٭
میں نے سلام پھیرنے کے لیے اپنا چہرہ موڑا تو میری نظر امی پر پڑی۔ آنکھیں چار ہوئیں تو وہ دھیرے سے مسکرا دیں۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ ہوتا تھا….! مگر یہ سچ تھا….!!!۔
امی نے آنکھیں کھول دی تھیں….! آج پورے ایک ماہ دس روز بعد امی کوما سے باہر نکل آئی تھیں….!!!۔
ٹھیک ایک ماہ دس روز قبل امی غسل خانے میں گر پڑیں۔ سر کا پچھلا حصہ زور سے فرش پر لگا۔ وہ اُسی وقت بیہوش ہوگئیں۔ وہ تو بھلا ہو لا لہ رُخ کا۔ وہ میری ہدایت کے عین مطابق غسل خانے کے دروازے کے ساتھ ہی لگ کر کھڑی تھی۔ امی کو لو بلڈ شوگر کا دیرینہ عارضہ ہے۔ جس کے سبب اکثر اُنہیں چکر آ جاتے ہیں۔ اِسی لیے میں نے لا لہ رُخ کو امی کے ساتھ چوبیس گھنٹے رکھ چھوڑا ہے۔ ساتھ ہی امی کو یہ تاکید بھی کر دی ہے کہ جب غسل خانے جائیں تو چٹخنی لگائے بناء ہی دروازہ بھیڑ دیا کریں۔ تاکہ کوئی ایسی ویسی بات ہو تو فوری طور پر مدد کی جا سکے۔ سو اُس روز میری احتیاط نے کام کیا۔ لا لہ رُخ کی چیخ و پکار پر میں وہاں پہنچا تو امی فرش پر بے سدھ پڑی تھیں۔
کچھ ہی دیر بعد ہم شہر کے سب سے بڑے ہسپتال میں موجود تھے ۔
ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے امی کو گھیر لیا۔ نرس نے خُون کے نمونے متعدد چھوٹی چھوٹی شیشیوں میں منتقل کئے۔ ’ارجنٹ‘ کا ٹکٹ لگا کر فوری تشخیص کے لیے ہسپتال ہی میں قائم لیب بھجوائے۔ ڈاکٹر کے اشارے پر پیرا میڈیکل عملہ امی کے اسٹریچر کو لے کر تیزی سے شعبہِ سی ٹی اسکین کی طرف دوڑ پڑا۔
سی ٹی اسکین کے مکمل ہوتے ہی امی کو آئی سی یو منتقل کر کے متعدد تاریں وٹیوبیں جسم سے منسلک کئے جاتے ہی انواع واقسام کی طبی مشینوں وآلات کی اسکرینوں پر رنگ برنگے ہندسے اور لکیریں نمایاں ہونے لگیں۔ میں آئی سی یو کے باہر شیشے کے پیچھے کھڑا تھا۔ جیسے ہی ڈاکٹر باہر آئے میں بے چینی سے آگے بڑھا۔ ’’ڈاکٹر صاحب، کچھ بتائیں تو سہی کہ آخر امی کو ہوش کیوں نہیں آ رہا؟….!!!‘‘۔
ڈاکٹر چہرے پر مدھم سی ہمدردانہ مسکراہٹ سجا کر بولے۔ ’’ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا….! تمام ٹیسٹس اور سی ٹی اسکین کی رپورٹ آ جانے دیں، اُس کے بعد ہی کوئی حتمی بات سامنے آ سکے گی….!!!‘‘۔
کوئی گھنٹہ بھر کے اندر ہی نرس نے آ کر بتایا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے کمرے میں مجھے بلا رہے ہیں۔ کمرے میں اندھیرا ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر اپنی میز کے پیچھے نصب مانیٹر پر مختلف زاویوں سے لی گئیں امی کے دماغ کی بیس پچیس ایکسرے نما تصاویر کی شیٹ کا انہماک کے ساتھ جائزہ لینے میں مصروف تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بتیاں روشن کیں اور میز کے سامنے لگی کرسی پر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود اپنی کرسی پر دراز ہوگئے۔
جی ڈاکٹر کرامت….! سب خیریت تو ہیں نا؟….! امی کو ہوش کیوں نہیں آیا اب تک؟….!!!‘‘۔ اس سے پہلے ڈاکٹر کچھ کہتے، خُود میں نے ہی بیتاب لہجے میں دریافت کیا۔
’’عالمگیر صاحب….! آپ کی امی….! کوما میں چلی گئی ہیں….!!!‘‘۔
’’کوما….! یااللہ رحم….!!!‘‘ میں کوما کا نام سُن کر لرز گیا۔ ’’ہمت رکھیں، ان شاءاللہ، اللہ بہتر کرے گا۔‘‘ ڈاکٹر نے میری ہمت بندھاتے ہوئے کہا۔ ’’انُہیں کچھ ہوگا تو نہیں نا؟….! کب تک ہوش میں آجائیں گی؟….!!!” میں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
’’آپ کی امی لیول ون کوما میں ہیں۔‘‘
’’لیول ون؟….! کوما؟….!!!‘‘۔ میں نے حیرت کے ساتھ سوالیہ انداز میں کہا۔
’’میں آپ کو آسان طریقے سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مریضہ کو جب یہاں لایا گیا تو اُن کا بلڈ شوگر لیول بہت لو تھا۔ اُسی وجہ سے اُنہیں چکرآ گیا اور وہ گرپڑیں۔‘‘ ڈاکٹر نے میز پر پڑی ایک پتلی سے چھڑی اُٹھائی اور امی کے دماغ کی اُوپری حصے کی ایک مکمل تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے۔
’’جس شدت سے سر فرش سے ٹکرایا، کاسہِ سر میں دماغ بے حد تیزی سے آگے پیچھے ہونے کے سبب چند رگیں جو ایک مخصوص حصے کو خون اور تازہ آکسیجن فراہم کرتی ہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئیں۔ وہ حصہ تازہ آکسیجن والے خون کی عدم فراہمی کے سبب سوجنا شروع ہوگیا۔ دیکھیں….! دماغ کئی حصوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ اُس کا سب سے بڑا حصہ سیریبرم (Cerebrum) کہلاتا ہے جو کہ ہمارے شعور سے متعلق کاموں مثلاً جذبات، سوچ، یاداشت اور Reasoning (جواز) وغیرہ کو کنڑول کرتا ہے۔ سیریبرم کے عین نیچے نیورونز سیلز (Neurons Cells) کا ایک بہت بڑا گچھا ہوتا ہے جسے تھیلامس (Thelemus) کہتے ہیں ۔ یہ نیورون سیلز برقی وکمیاوی سگنلز کو دماغ کے ایک حصے سے وصول اور پروسیس کرنے کے بعد مختلف مقامات پر ٹرانسمٹ کرتے ہیں۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پھر ایک گہرا سانس لینے رکے۔ ’’جوں جوں دماغ کے کسی حصے میں سوجن بڑھتی جاتی ہے، اردگر کی رگیں جن کا کام خون اور آسکیجن کی فراہمی ہے وہ بھی دبنا شروع ہوتی ہیں۔ خون اور آکسیجن کی فراہمی میں مزید تعطل پیدا ہوتا ہے۔ اگر دیر ہوجائے تو وہ حصہ مردہ ہونے لگتا ہے۔ آپ کی امی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ مگر شکر ہے کہ سوجن ایک بہت چھوٹے سے حصے میں ہوئی ہے۔ وہ حصہ گو کہ چھوٹا ضرور ہے مگر اُس نے تھیلامس سے جاری ہونے والے اُن تمام برقی وکمیاوی سگنلز کو بلاک کردیا ہے جو کہ سیریبرم میں واقع اُس حصے جسے ہم Reticular Activating System کہتے ہیں، میں جا کر کسی بھی انسان کو مکمل طور پر بیدار رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ جس کے سبب آپ کی والدہ مسلسل کوما میں ہیں۔ امریکی ریاست کلیفورنیا کے Rancho Los Amigos Hospital کے ماہرین کا تیارہ کردہ اسکیل جسے شعبہِ طب میں کوما کی شدت کا بین اقوامی معیار تسلیم کیا ہے کے مطابق لیول ون کے کوما کا مریض آواز یا درد پر کوئی ردِعمل نہیں کرتا اور مریض کا Somatic Nervous System جو کہ پٹھوں کو کنڑول کرتا ہے وہ بھی کام کرنا بند کردیتا ہے۔‘‘
’’اِس کا علاج؟….!‘‘ میں صرف اِتنا ہی کہہ سکا۔ ’’ایسا کوئی حتمی علاج نہیں کہ کسی مریض کو فوری طور پر کوما سے نکالا جا سکے۔ البتہ اُن تمام عوامل جن کے سبب مریض کوما میں چلا گیا ہے کا تدارک کر کے کوما سے باہر آنے کا راستہ ضرور ہموار کیا جا سکتا ہے۔‘‘
میرے چہرے پر الجھن کے آثار دیکھ ڈاکٹر مجھے تسلی دی اور بولے۔ ’’فوری طور پر ہمیں دماغ کے متاثرہ حصے جہاں رگوں کی ٹوٹ پھوٹ سے خون جمع ہو کر جمنا شروع ہوگیا ہے، سرجری کےذریعہ ایک ٹیوب داخل کر کے مواد کو باہر خارج کرنا ہوگا۔ مگر اُس سے پہلے مریضہ کا بلڈ شوگر لیول نارمل سطح پر لایا جانا ازحد ضروری ہے۔ میں نے ضروری اودیات شروع کروا دی ہیں۔ آپ فوری طور پر ان کاغذات پر دستخط کردیں تاکہ آپریشن کی تیاریاں شروع کی جاسکیں‘‘۔
میں نے دھڑکتے دل اور لرزتے ہاتھوں کاغذات پر دستخط کردیئے۔ آپریشن کے بعد امی کو دوبارہ آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا۔ ہم امی کو شام پانچ بجے کے قریب ہسپتال لے کر آئے تھے اور اب رات کے پونے دو بجنے والے تھے۔ میں نے اپنی بیگم فرحین کو سمجھا بجھا کر ڈرائیور کے ساتھ یہ کہہ کر بھجوا دیا کہ وہ گھر جا کر آرام کر لے۔ میں یہیں امی کے پاس رکوں گا۔
وہ رات مجھ پربے حد بھاری گزری۔ میں ساری رات آئی سی یو کے ساتھ والی انتظار گاہ کے صوفے پر بیٹھا پہلو بدلتا رہا۔ اُتنی طویل رات میں نے اپنی زندگی میں اُس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں ہمیشہ سے یہیں تھا۔ یہ رات اِسی طرح چلتی رہے گی اور ہمیشہ یہیں بیٹھا رہوں گا۔
اللہ اللہ کر کے فجر کا وقت ہوا۔ وہاں موجود جائے نماز بچھا کر مکمل خشوع وخشوع کے ساتھ نماز ادا کی۔ سجدہ میں جا کر گڑ گڑا کر امی کی جلد صحتیابی کی دعا مانگی۔ دل ودماغ جو پہلے کافی بھاری ہو رہے تھے، قدرے سُکون کی کیفیت میں آ گئے۔ صوفے کی پُشت سے سر ٹکایا تو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میری آنکھ لگ گئی۔ صبح ساڑھے آٹھ کے قریب وارڈ بوائے نے آ کر جگایا اور کہا کہ ڈاکٹر صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں رتجگے سے جلتی آنکھیں مسلتا ہوا ڈاکٹر کے کمرے میں پہنچا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ امی کا آپریشن کامیاب رہا ہے۔ اُنہیں کل کسی وقت آئی سی یو سے پرائیوٹ روم میں شفٹ کردیا جائے گا۔ دوا تو ہوچکی اب وقتِ دعا ہے۔
’’امی کے ہوش میں آنے کی کب تک امید ہے؟‘‘ میرے استفسار پر ڈاکٹر کے چہرے پرایک گہری سنجیدگی طاری ہوگئی۔ کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ ’’لیول ون کوما کے پچاس فیصد سے بھی کم لوگ کوما سے نکل پاتے ہیں۔ اُس پچاس فیصد میں سے صرف پانچ فیصد لوگ مکمل طور پر ریکیور ہو کر نارمل زندگی گزارتے ہیں….!!!۔
ڈاکٹر کرامت کی اِس بات نے مجھے سخت تشویش میں مبتلا کردیا۔ وہ دن تو میں نے جیسے تیسے ہسپتال ہی میں گزار دیا۔ رات کے وقت فرحین نے مجھے زبردستی گھر روانہ کردیا۔ نہا دھو کر صبح آٹھ بجے کا الارم لگا کر سو گیا۔ چند ضروری امور نپٹانے کے لیے دفتر جانے کا ارادہ تھا۔ چلتا ہوا کاروبار اور قابل وبھروسے مند اسٹاف کی موجودگی کے باعث مجھے دفتر جانے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ مگر کون جانے امی کتنے روز ہسپتال رہیں تب تک اُن کے پاس ہی رہنا چاہتا تھا۔
صبح نو بجے دفتر جا پہنچا۔ تمام اسٹاف مجھ سے امی کی مزاج پرسی کرتا رہا۔ اسٹاف کے سنیئر اراکین کو اپنی غیرموجودگی میں تمام تر امور کو بخوبی سر انجام دیئے جاتے رہنے کی ہدایات جاری کیں اور کسی اہم وناگزیر صورتحال پر مجھ سے موبائل پر رابطہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے وہاں سے نکل پڑا۔ ہسپتال پہنچنے پر معلوم ہوا کہ امی کو پرائیوٹ روم میں شفٹ کردیا گیا ہے۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ تمام تر طبی آلات، مشینیں اور مانیٹرز بھی امی کے ساتھ وہاں منتقل ہوچکے ہیں۔ اسٹریچر کے عین ساتھ کرسی پر لالہ رُخ بیٹھی امی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے دھیرے دھیرے سہلا رہی ہے۔ میں نے کونے پر لگے صوفے پر بیٹھی فرحین کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ باہر آتے ہی قدرے خفگی بھرے لہجے میں بولا۔ ’’ارے بھئی، یہ لالہ رُخ یہاں کیا کررہی ہے؟….! امی کی طبعیت اس قدر خراب ہے اور یہ لالہ رُخ امی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے یوں سہلا رہی ہے جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔‘‘ میری بات پر فرحین کے چہرے پر حیرت سی چھا گئی۔ ’’عالمگیر، آپ بھی ناں، کمال کرتے ہیں۔ ارے بھئی وہ بچی امی سے کتنا پیار کرتی ہے۔ کیا ہوگیا جو امی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلا رہی ہے۔‘‘ فرحین کی حمایت دیکھ کر میں خاموش ہوگیا۔ مگر مجھے یہ بات بالکل بھی اچھی نہ لگی۔
لالہ رُخ کی عمر بمشکل کوئی بارہ تیرہ سال کی رہی ہوگی۔ اُس کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقہ جات سے ہے۔ سُرخ و سفید رنگت والی بھولی بھالی گڑیا سی بچی جب اپنے علاقائی لہجے میں اُردو بولتی تو بہت ہی پیاری لگتی۔ امی نے باورچی گل محمد سے کہہ کر لالہ رُخ جو کے اُس کے بھائی کی بیٹی تھی کو چھوٹے موٹے کاموں اور بطورِخاص لو بلد شوگر کے عارضے کے سبب اپنا خیال رکھنے کے لیے گاؤں بلوایا تھا۔ اُسے آئے ہوئے اب کوئی چھے ماہ گزر چکے تھے۔ وہ امی کے ساتھ فوراً ہی گھل مل گئی۔ امی بھی اُس سے بے حد پیار کرنے لگی تھیں۔ انہوں نے اُردو، انگریزی اور قرآنی قائدہ منگوا کر روز دوپہر اُسے پڑھنا بھی شروع کردیا تھا۔
فرحین نے ہی مجھے بتایا کہ وہ مسلسل امی کے پاس ہسپتال جانے کی ضد کررہی تھی لہذا آج صبح ڈرائیور سے کہہ کر اُسے بلوالیا۔
اُس روز کے بعد لالہ رُخ نے مسلسل ہسپتال آنا شروع کردیا۔ اکثر وہ رات کو بھی امی کے پاس اپنی کرسی لگا کر بیٹھ جاتی۔ ہر وقت اُس کے ہاتھوں میں امی کا ہاتھ ہوتا جسے وہ دھیرے دھیرے سہلاتی رہتی۔ گو کہ مجھے اُس کا امی کے ہاتھ کو سہلانا ایک آنکھ نہ بھاتا مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ میں چاہ کر بھی کبھی اُس سے کچھ کہہ نہ سکا۔
ایک روز امی کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی۔ ڈاکٹر کچھ بتا تو نہیں رہے تھے البتہ اُن کے چہرے کے تاثرات سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے وہ امی کی طرف سے مایوس ہوچکے ہیں۔ میں پچھلے تین روز سے مسلسل ہسپتال میں ہی تھا۔ رات کے وقت فرحین لالہ رُخ کر لے کر وہاں پہنچی۔ ضد کر کے مجھے گھر بھجوا دیا۔ جانے کو تو میں گھر چلا گیا۔ مگر مجھے کسی کروٹ چین نہ آتا تھا۔ جیسے تیسے وہ رات کانٹوں کے بستر پر کاٹی۔ فجر کی نماز پڑھ کر ہسپتال کی طرف چل پڑا۔
ڈیوٹی ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے مجھے دیکھ کر مسکراتے ہوئے بتایا کہ امی کی طبعیت سنبھلنا شروع ہوگئی ہے۔ امی کے کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ حسبِ معمول لالہ رُخ کرسی پر بیٹھی امی کا ہاتھ تھامے اپنا سر اسٹریچر سے لگائے گہری نیند میں گم ہے۔ فرحین بھی صوفے پر دراز سو رہی تھی۔ میں اُنہیں یونہی سوتا چھوڑ کر باہر نکل آیا۔
دن گزرتے جارہے تھے۔ پھر اچانک اُس روز امی نے اپنی آنکھیں کھول دی۔ میں نے لالہ رُخ جو کہ امی کا ہاتھ تھامے بیٹھی تھی کو نرس کی کال بیل بجانے کا اشارہ کیا۔ جیسے ہی وہ آئی میں نے ڈاکٹر کرامت کو بذریعہ فون اطلاع کرنے کی درخواست کی۔ اطلاع ملتے ہی وہ تیر کی طرح ہسپتال پہنچ گئے۔ اُنہیں یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ امی کو ہوش آ گیا ہے۔ آتے ہی بھرپور مسکراہٹ اور گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے مبارکباد دی۔ میں نے بھی اُنہیں مبارکباد دی اور بولا۔ ’’ڈاکڑ کرامت……! یہ آپ کی دن رات کی محنت کا ثمر ہے کہ امی کو یوں موت کے منہ سے کھینچ لائے۔‘‘ میری بات سُن کر داکٹر کرامت کا چہرہ خوشی سے سُرخ ہوگیا۔ البتہ نہ جانے کیوں مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہنے کو تو میں نے کہہ دیا مگر کہیں میرے دل سے یہ آواز اُبھرتی تھی کہ یہ اللہ کے حضور میری دن رات کی گریہ وزاری کا انعام ہے ۔
دس بارہ روز بعد وہ دن بھی آ گیا جب ڈاکٹر کرامت نے امی کو گھر جانے کی اجازت دے دی۔ ہسپتال کے عملے نے اُن کی مکمل صحتیابی کی خوشی میں الوداعی پارٹی کا اہتمام کیا۔ کمرے میں ڈاکٹروں کی تین رکنی ٹیم، تمام متعلقہ نرسیں، نرسنگ اسسٹنٹ اور وارڈ بوائے کے علاوہ فرحین، میرے دونوں بچے ردا اور ریاض کے علاوہ لالہ رُخ بھی موجود تھی۔
ہوش آنے کے بعد سے امی میں ایک نمایاں تبدیلی محسوس کررہا تھا۔ ایک بہت ہی پیاری مگر معنی خیز سی مسکراہٹ اُن کے چہرے پر ہمہ وقت رقصاں رہتی۔ اُس وقت بھی وہی معنی خیز مسکراہٹ امی کے لبوں پر ہلکورے لے رہی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے امی کچھ کہنا چاہتی ہوں مگر جان بوجھ کر کچھ کہے بنا بات کو اپنی مسکراہٹ کی چادر اُوڑھا دیتی ہیں۔ جیسے منتظر ہوں کہ کوئی سوال کرے تو وہ اپنے من کا بھید کھولیں۔ میں نے کئی بار پوچھا کہ امی آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں؟ مگر وہ میری بات سُن کر صرف مسکرا دیتیں۔
پھر اُس روز اُنہیں اپنے من کی بات کہنے کا موقعہ مل ہی گیا۔
ہم سب امی کے بسترکے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے کہ اچانک ڈاکٹر کرامت نے امی سے پوچھا۔ ’’کیا آپ نے کوما کے دوران کوئی خواب دیکھا؟‘‘۔
امی نے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ کر نظروں کو دور خلاؤں میں کہیں مرکوز کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا۔
پھر کچھ دیر بعد ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اپنے بھینچے ہوئے ہونٹوں کو آزاد کرتے ہوئے بولیں۔ ’’جی ڈاکٹر صاحب….! میں تو سمجھتی ہوں کہ اُسی خواب کے طفیل کوما سے جاگ سکی۔‘‘ یہ سُن کر سب کے چہروں پر حیرت طاری ہوگئی۔ ’’کیا آپ ہمیں اپنا خواب سُنا سکتی ہیں؟‘‘ ڈاکٹر کرامت نے امی کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’وہ سارا عرصہ جیسے مسلسل ایک خواب میں گزارا ہو۔ دیکھا کہ ایک کشتی میں سوار ہوں۔ کشتی میں کوئی اور بھی ہے۔ مگر میں اُس کی طرف دھیان دیئے بغیر سر جھکائے کشتی کے باہر لہروں کے اندر دیکھنے کی کوشش کررہی ہوں۔ اچانک جھٹکا لگتا ہے اور میں پانی میں گر کر اندر ہی اندر ڈوبتی چلی جاتی ہوں۔ چاروں طرف ایک عجب ملگجاہٹ سی پھیلی ہوئی ہے۔ میں زیادہ دور تک نہیں دیکھ پا رہی۔ سر اُوپر اٹھا کر دیکھا تو مجھے پانی میں ڈوبا کشتی کا پیندا نظر آیا۔ اچانک کوئی کشتی سے ڈور پانی میں پھینکتا ہے۔ ڈور دھیرے دھیرے نیچے آتی ہے۔ میں اُسے پکڑ لیتی ہوں اور سطح پر آ کر سانس لینے کے قابل ہوجاتی ہوں۔ کشتی پانی میں چلتی جارہی ہے اور میں ڈور کے سہارے کشتی کے ساتھ بہتی چلی جارہی ہوں۔ اِسی طرح سے دن رات گزرتے چلے جارہے ہیں۔ ایک روز شدید طغیانی کے سبب وہ ڈور میرے ہاتھ سے چھوٹ جاتی ہے۔ میں ڈوبنے لگتی ہوں اور دم گھٹنے لگتا ہے۔ کافی دیر یہ کشمکش جاری رہتی ہے کہ اچانک کشتی سے ایک بار پھر ڈور کو میری طرف اُچھالا جاتا ہے۔ ڈور کی مدد سے اوپر آنے سے سانس بحال ہوجاتا ہے۔ ایک روزمجھے ایسا محسوس ہوا جیسے ڈور کو پورا زور لگا کر کھینچا جا رہا ہو۔ دھیرے دھیرے فاصلہ کم ہوتا جاتا ہے۔ کشتی میں موجود زی روح پورا زور لگا کر مجھے کشتی میں کھینچ لیتا ہے۔ کشتی میں داخل ہوتے ہی میری نظر ڈور کھینچنے والے کے چہرے پر پڑتی ہے اور میں کوما سے جاگ اُٹھتی ہوں۔‘‘
اتنا کہہ کر امی لمحہ بھر کو رُکیں۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اپنی نگاہوں کو بستر کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک کھڑے تمام لوگوں کے چہروں پر پھیر تے ہوئے ایک عجب سی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا۔ پھر بولیں۔ ’’اُسی ہستی نے مجھے اُس تمام عرصہ ڈوبنے سے بچائے رکھا…!!!‘‘۔
میں سب کے چہروں کا جائزہ لے رہا تھا۔
ڈاکٹر کرامت کے چہرے پر ایک پُراعتماد مسکراہٹ تھی۔ اُن کا چہرہ اپنی کامیابی کے بھرپور احساس سے تمتما رہا تھا۔ وہاں موجود نرسیں، نرسنگ اسسٹنٹس، وارڈ بوائے الغرض سب ہی کے چہرے پر ایسے تاثرات تھے کہ جیسے ہر کوئی اپنے آپ ہی کو تو اُنہیں ڈوبنے سے بچانے کا ذمہ دار گردان رہا ہے۔
میری نگاہوں کے سامنے شبانہ روز کی نمازیں، گریہ وزاری، چشمِ نم لیے سجدے میں جھکی جبیں اور سماعتوں میں وہ تمام رقت آمیز دعائیں گونج رہیں تھیں جو میں نے امی کی مکمل صحتیابی کے لیے روتے گڑگڑاتے مانگی تھیں….! اور ….! اور پھر….! کوما سے جاگنے کے بعد امی مجھے ہی تو دیکھ رہی تھیں….!!!
ابھی میں انہی خیالات میں کھویا ہوا تھا کہ فرحین کی آواز نے میرے خیال کے تار کو توڑ دیا۔ ’’آخر وہ تھا کون۔ ۔ ۔ ۔ امی؟….!!!‘‘۔
امی کے چہرے کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی….!
انہوں نے ہاتھ بڑھا کر لالہ رُخ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر سہلانا شروع کردیا….!۔ وہ دونوں آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مسکراتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھے چلے جارہے تھے….
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn