سیاه دن ،اداس راتیں ،سوگوار لوگ میرے وطن کا منظر چند روز کے بعد یہی ہوتا ہے۔اتنے خواب آنکھیں بن نہیں پاتیں جتنے روز بکھرتے ہیں۔میرے ادیب خوشی کا نغمہ لکھیں تو کیونکر لکھیں؟ کہ انہیں غم کے نوحے لکھنے سےفرصت ہی نہیں۔مسئلہ یہ نہیں کہ بارود کی بو کون پھیلاتا ہے ؟مسئلہ یہ ہے کہ امن و سلامتی قائم کرنے والے کہاں سوئے ہیں ؟لاشوں کے ڈھیر لگانے والے کون ہیں ،مقصد کیا ہے؟یہ بعد کا جھگڑا ہے پہلے معاملہ یہ ہے کہ ایسا ماحول اور حالات کون پیدا کر رہا کہ وه ہر تیسرے دن اپنا کام کر گزرتے ہیں اور تعزیتی پیغامات ،مذمتی بیانات کے بعد کوئی عملی قدم کیوں نہیں اٹھاتا ؟ کیا اس ملک کے باسی بنا کسی حفاظت اور سائے کے بے آسرا پلنے والے یتیموں کی طرح ہیں کہ کوئی بھی ظلم ڈھائے تو کوئی پوچھنے،دیکھنے والا نہیں ہے؟یا وہ اپنی حفاظت کے بھی خود ذمہ دار ہیں۔ بے حسی کی ایک اور رخ موازنے کا ہے۔ظلم کا تقابل کہاں کتناہوا؟ کون سا جبرزیاده شدید تھا ؟مرنے والے کس کمیونٹی سے تھے ؟اور اس پہ احتجاج کتنا کیا گیا؟گویا انسان ہونا معنی رکھتا ہے نہ انسانی جان کی وقعت ہے۔ اہمیت ہے تو اس بات کی ہے کہ مرنے والا کس طبقے سے تھا۔ظالمو! اس بات کو سمجھو ایک انسان کی موت ایک فرد کی موت نہیں اس سے جڑے خوابوں، آرزؤں، توقعات اور محبتوں کی موت ہے۔ایک ہمیشہ کے لیے بنجر اور بانجھ ہو جانے والی زمین کی داستان ہے۔وه دکھ کون سمجھتا اور دیکھتا ہے جو بے خواب ہوئی آنکھوں کی ویرانی میں ہوتا ہے ۔ اس باپ کا دکھ کون سمجھ سکتا ہے جس کے کندھے اولاد کے دکھ کے بوجھ سے مزید جھک جاتے ہیں ۔کون اس ماں کے غم کا مداوا کر سکتا ہے جس نے اپنی پوری زندگی وقف کر کے اولاد کو پروان چڑھایا ہو۔ اور پھر انہیں ہاتھوں سے اسے سفر آخرت پہ روانہ کر دیا ہو۔ان بہن ،بھائیوں کودلاسا کون دے سکتا ہے جو اپنے ساتھی سے بچھڑ جائیں؟ اور بے آسرا ہوئے بچوں کا سائبان کون بن سکتا ہے جو ماں باپ کی شفقت سے محروم ہوجائیں۔رشتوں میں گندھے لوگوں کے پاس اتنا وقت نہیں هوتا کہ وه سمجھیں پرکھیں کہ وه کسی خاص مکتب گروه یا کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کے لیے مرنے والا طبقوں میں بٹا فرد نہیں ان کا محب اور محبوب ہوتا ہے۔ جس قوم کی سوسائٹی کی کریم منٹوں میں لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے اس کے لیے ا س بڑھ کے اور المیہ کیا ہو سکتا ہے لیکن اس سب کے باوجود ایسے تبصرے دیکھنے کو ملے ہیں جو بے حسی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ایسے نازک وقت میں بھی سیاسی و معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے اپنا نام اور مقام بلند کرنے کے لیے لاشوں پے سیاست کی جا رہی ہے ۔ کیا ایسا کرنے والے انسان کہلانے کے حقدار ہیں؟دوسری طرف اگست کے جشن کی شنید ہے اتنے بڑے سانحے کے بعد کون ساجشن اور کہاں کی خوشی؟مجھے لوگوں کے حوصلے پہ حیرت ہے کہ سینے میں دل کی جگہ پتھر لیے پھرتے ہیں۔اپنی کوئی سرگرمی نہیں چھوڑ سکتے۔ مانا کہ زندگی ایک ہی بار ملتی ہے لیکن ان کا تو سوچئے جن کی زندگی ایک دم بجھ گئی ،جن کے خواب لٹ گئے ، جنہیں اتنی بھی مہلت نہ ملی کہ ڈھنگ سے جی پاتے۔ہم شرمندہ ہونے اور رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
بقول افتخار عارف
چشم نم سے شرمندہ
ہم، قلم سے شرمندہ
سوچتے ہیں کیا لکھیں
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn