یہ وسط مئی دوہزارگیارہ کا قصہ ہے ۔ پاکستان سے علماء کا ایک وفد (بشمول راقم الحروف)استنبول ائیر پورٹ پہنچا ہوا تھا کہ شاگردانِ گولن کی جانب س عالمی قرآن کانفرنس میں کرسکے۔ہمارا ترک لیڈر سب سے چند منٹ کی اجازت لے کر وہیں ائیر پورٹ پر قائم پولنگ بوتھ پر گیا اورچند منٹ بعد واپس آگیا۔وہ بہت پرجوش تھا اورہم لوگوں سے اپیل کررہا تھا کہ دعا کریں ہمارا امیدوار کامیاب ہوجائے۔پوچھا کس کو ووٹ دیا ہے ٗ کہنے لگے جسٹس پارٹی جو پہلے بھی اقتدار میں تھی۔گیارہ کے انتخابات میں گولن و اردوان ایک جان دو قالب تھے۔راقم نے واپسی پر ایک مختصر سا کتابچہ شائع کیا جس کا نام تھا :’’سلطان محمد فاتح سے استاد فتح اللہ گولن تک(ترکی سے ٹھنڈی ہواؤں کا جھونکا)‘‘۔گولن کا ذکر کرتے ہوئے تین محبوب انسانوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’مولانا سوز رومی ٗ افکار علامہ اقبال اورعلم وفکر سید مودودیؒ کو اکٹھا کردیں جو انسان تیار ہوتا ہے اس کا نام ہے فتح اللہ گولن‘‘۔افسوس کہ آج اسی ترکی سے گرم ہواؤں کے جھونکے جھلسا رہے ہیں مگر زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہئے کہ اللہ کریم نے خود اپنے بندوں کو قرآن پاک کے سب سے آخری سبق میں آگاہ کردیا کہ اپنے آپ کو میری پناہ میں رکھنا وگرنہ ایک ’’وسواس کے شر سے بچ نہیں سکو گے جس کا کام ہی وسوسہ اندازی ہے یعنی دلوں سے بُری بُری باتیں ڈالتے رہنا‘‘۔ذرائع ابلاغ کچھ بھی کہیں ٗ خفیہ ادارے جو مرضی کہتے رہیں ٗ ہم اردوان کو بھی جانتے ہیں اورفتح اللہ گولن کو بھی ٗ جو دونوں آپس میں بھائی بھائی اوراصلاً ایک ہی چیز ہیں مگر شیطان نے پردوں کے پیچھے چھپ کر موجودہ منظر تیار کررکھا ہے ۔ آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کا مشہور شعر ہے :’’ظفر آدمی اُس کو نہ جانئے گا ہو وہ کتنا ہی صاحبِ فہم وفکاء ۔ جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا ‘‘۔ہم اپنے محبوب قائد اردوان کو شعر کے آخری حصے کی جانب متوجہ کرتے ہیں کہ بڑوں کا امتحان بھی بڑا ہوتا ہے ۔ اس طیش میں خوفِ خدا سے علیحدہ نہ ہونے پائیں۔ہوا یہ کہ گزشتہ کے کوئی ڈیڑ ھ دوسال بعد اخباروں میں خبریں آنے لگیں کہ استاد فتح اللہ گولن حکومت سے کچھ ناراض ہیں ۔ اتفاق سے لاہور کے ایکسپو سنٹر میں کتابوں کی نمائش پر ہمارے مذکورہ سفر کے قائد ترک برادر سے ملاقات ہوگئی۔ان کو ایک طرف کونے میں بلا کر عرض کیا کہ آپ انتہائی مصروف ہیں ٗ مجھے صرف ایک لفظ میں بتادیں کہ استاذ فتح اللہ گولن حکومت سے ناراض کیوں ہیں ؟انہوں نے حسبِ درخواست جواب دیا’’کرپشن‘‘۔ایک وزیر کی کرپشن پر استاد نے حکومت کو متوجہ کیا کہ اس مسئلہ کی اصلاح کرلی جائے اوربس۔اتنی سی بات ہے۔آج کل گولن کا نام لیا جارہا ہے مگر یہ ہیں کون۔عرض ہے کہ فتح اللہ گولن اصلاً عربی النسل اوراہلِ بیت کی ایک شاخ کے فرزند ہیں ۔ ان کے خاندان کی صدیوں کی تاریخ بالکل محفوظ ہے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت آزمائشوں میں سے گزارتے ہوئے اُن کی خصوصی حفاظت فرمائی ہے۔یہ ممتاز تحریکی وروحانی شخصیت استاذ بدیع الزمان نورسیؒ کے خاص الخاص شاگرد اورنمایاں ترین پیروکار ہیں ۔ یہ نوری تحریک کہلاتی ہے جو اپنے مرشد نوروسی ؒ کی تعلیمات مختلف رسائل کی شکل میں پیش کرتی ہے ۔ استاذ فتح اللہ گولن پکے حنفی العقیدہ عالم وصوفی انسان ہیں ۔ ان کے خصوصاً استنبول میں بہت گہرے اثرات ہیں ۔ راقم نے اُن کی اولین درس گاہ ومسجد دیکھی ہے ۔ہمارے وفد کو بتایا گیا کہ یہاں چھوٹی سی مسجد تھی جہاں سے شیخ محترم نے در س وتدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ان کے دل میں آرزو پیدا ہوئی کہ اگر میں ایک عمارت حاصل کرسکوں باہر کے شہروں سے طلبہ آکر پڑھیں اوررہائش بھی یہیں رکھیں مگر ان کے پاس عمارت نہ تھی۔انہوں نے ایک مخیر کو اپنی اس خواہش سے آگاہ کیا مگر وہ اس پر تیار نہ تھے۔بلکہ وہ کہیں اورخرچ کرنا چاہتے تھے۔وہ شخص اسی مسجد میں ایک صبح نمازِ فجر کے بعد وظائف واوراد میں مصروف تھے کہ نیند آگئی ٗ خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔آپؐ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ تم اس شخص کی درخواست پر عمل میں دیر کیوں کررہے ہو۔بس جاگنا تھا کہ پسینے میں شرابور فوراً استاذ گولن کی خدمت میں حاضر ہوکر ایک عمارت پیش کردی ۔ طلبہ آتے گئے اورمزید عمارت کی ضرورت پیدا ہوتی گئی اوراب تو یہ حال ہوگیا کہ شیخ فتح اللہ گولن جس عمارت پر انگلی رکھتے وہ پیش کردی جاتی۔ہم نے جاکر وہ کمرہ بھی دیکھا جس میں شیخ طلبہ کو سبق پڑھا یا کرتے۔ان کے بہترین شاگرد اورپیروکار تفصیلات بتاتے رہے ۔ شیخ ک ایک نعرہ یہ ہے کہ امت تعلیم میں بہت پیچھے رہ گئی ہے ۔ اس لیے انہوں نے افریقی ممالک سمیت بہت دنیا میں تعلیمی اداروں ( سکولوں ٗ کالجوں ویونیورسٹیوں )کا جال بچھا دیا ہے ۔ راقم نے لاہور کے رائے ونڈ روڈ پرواقع ترک سکول کا معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہاں کے کلاس روم اوردرس وتدریس کا معیار امریکہ ویورپ کے کسی اعلیٰ ترین سکول سے کم نہیں ۔استاذ گولن کی ہدایت ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں سے ہونے والی آمدنی کا ایک روپیہ بھی پاکستان سے باہر نہیں آسکتابلکہ اُسے وہیں پر خرچ کیا جائے۔شیخ فتح اللہ گولن کے عظیم الشان ملّی واصلاحی کارناموں کو دیکھ کر راقم پر علامہ اقبال کا یہ شعر واضح ہوا کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیداور پیدا۔استاذ فتح اللہ گولن کے شاگردان کی کیفیات بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا تذکرہ ہوتا ہے تو ان پر ایک خاص گریہ کی حالت طاری ہوجاتی ہے اورآنسوؤں کی لڑیاں لگ جاتی ہیں۔نوری تحریک میں عظیم مسلمانوں کے لیے ’’شہسوار‘‘کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اورشیخ کے بارے میں لکھی گئی ایک وقیع کتاب کا نام ’’آخری شہسوار‘‘ہے۔ اس کا اردو ترجمہ پاکستان میں موجود ہے۔جناب اردوان ٗ عشق رسولؐ سے معمور سینے میں ترک قیادت کے خلاف سازشیں پیدا نہیں ہوسکتیں۔راقم قرآن پاک کا ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے یقین رکھتا ہے کہ ترکی کی شان دار ترقی اعدائے اسلام ومسلمین کو ایک آنکھ نہیں بھائی اورناپاک شیطانی ریشہ دوانیوں کے ذریعے دوبرادر طاقتوں کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا گیا ہے۔سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ گولن جیسی بے مثل مہربان علمی روحانی ہستی ترکی کے سیاسی نظام کا تیاپانچہ کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکے۔’طیش میں خوفِ خدا ٗ کے شاہی نسخے پر عمل کرتے ہوئے اردوان اپنے حالیہ طرز عمل پر نظر ثانی کریں۔ تعلیمی اداروں کو اس لیے بند کردینا کہ کسی رپورٹنگ ایجنسی نے ایسا ہی بتایا ہے کہ یہ بند کرنے کے قابل ہیں تو یہ درست نہیں ہے۔جمہوریت تو اپنی بات کہنے اوردوسرے کی بات سننے کا نام ہے ۔ قابلِ غور بات ہے کہ گیارہ کے انتخابات میں آپ کی سیاست کے لیے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہونے والے آپ کے بھائی اوردوست آپ سے شاکی کیوں ہوگئے۔ایک ارد شاعر کے بقول ’’آپ جن ہزارہا انسانوں سے نجات پانا چاہتے ہیں تو حضور ٗ کل تک تو یہی آپ کی کامیاب حکومتی مشینری پرزے تھے ۔ آپ ازراہِ عنایت قرآن پاک کی آخری دو سورتوں کا گہرا مطالعہ کریں ٗ یقیناکوئی حاسد ٗ کوئی وسواس وخناس ٗ کوئی بدخواہ گروہ پس پردہ آپ پر عیاں ہوجائے گا۔آپ کے اینٹی گولن بیانات نظر ثانی کے طلبگار ہیں ۔ راقم تجویز پیش کرتا ہے کہ شاہ سلیمان مداخلت کرکے حرم شریف میں ان دونوں بھائیوں کی ون ٹو ون ملاقات اہتمام کریں۔اللہ نے چاہا تو بحران ٹل جائے گا اوراصل مجرم سامنے آجائیں گے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn