فاروق ندیم پراچہ پاکستان کے انگریزی اخبار ڈیلی ڈان سے وابستہ ہیں اور اپنے طنزیہ کالموں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ان کا تازہ فکاہیہ کالم ” میٹ پاکستانی سوشل میڈیا’ز پیرٹس ” ( پاکستانی سوشل میڈیا کے ناراض طوطوں سے ملیں ) شائع ہوا ہے ۔فاروق ندیم پراچہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سوشل میڈیا پہ آج کل جاری ایک ایسے نظری جدال کا خوب مذاق اڑائیں جس کے پیچھے پاکستان کے اندر موجود متضاد مفادات کے حامل طبقات اور سماجی گروپوں کے درمیان پایا جانے والا تصادم کارفرما ہے۔ انھوں نے اس حوالے سے کئی خاکے دئے ہیں ۔ ایک خاکہ اس میں دو باکسر کا ہے جنھوں نے ایک دوسرے کی جانب مکّے تان رکھے ہیں اور ایک باکسر کے سامنے "کشمیر ” لکھا ہے تو دوسرے کے سامنے ” بلوچستان ” لکھا ہے۔کیا یہ کشمیر کی پکار کے ساتھ بلوچستان کی دھائی اتنا ہی سادہ مسئلہ ہے کہ ہم اسے پاکستانی سوشل میڈیا کے ناراض طوطوں کی لڑائی قرار دے ڈالیں ۔میں اس قدر سنجیدہ اور انتہائی توجہ کے مستحق ایشو پہ پاکستان کے بڑے انگریزی میڈیا گروپ سے وابستہ ایک ایسے کالمسٹ کی ایسی غیر سنجیدہ اور پھکڑ رائے دیکھ کر حیران رہ گیا ہوں جو اپنی زمانہ طالب علمی میں بائیں بازو کی ایک ایسی طلباء تنظیم سے وابستہ رہا جس نے پاکستانی نیشنلزم کے شور میں 71ء میں مشرقی بنگال کے خلاف فوجی آپریشن کی مخالفت کی اور اس حوالے سے بنگالیوں کے قومی حقوق کی حمایت میں آواز اٹھائی تھی ۔ کیا اس وقت اگر سوشل میڈیا موجود ہوتا اور لوگ بنگالیوں کے انسانی حقوق کی آواز اٹھارہے ہوتے اور اس کے جواب میں دائیں بازو کی قوتیں بنگالیوں کو غدار ، ففتھ کالمسٹ لکھ رہے ہوتے تو کیا فاروق ندیم پراچہ ایسے ہی ایک خاکہ بناتے جس میں دو باکسر دکھائے جاتے جس میں ایک طرف مشرقی پاکستان اور دوسرےطرف مغربی پاکستان لکھا ہوتا اور وہ یہی عنوان دیتے اپنے کالم کا : پاکستانی سوشل میڈیا کے ناراض طوطوں سے ملیں ۔
پاکستان کی سیکورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کے نام پہ بلوچ تحریک آزادی سے وابستہ سیاسی کارکنوں ، طالب علم رہنماؤں ، انسانی حقوق کے کارکنوں ، وکلاء ، اساتذہ پہ جبر کررہی ہیں ۔ مزاحمتی تحریک کو دہشت گردی قرار دے دیا گیا ہے۔دی نیوز انٹرنیشنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق دو سالوں میں ایک ہزار سے زیادہ لاشیں بلوچستان سے ملیں جو مسخ شدہ تھیں اور ان پہ ٹارچر کے نشانات تھے جن میں سے زیادہ تر لاشیں بلوچ نسل کے لوگوں کی تھیں اور اکثر یہ وہ لوگ تھے جن کے ورثاء کو یہ یقین ہے کہ ان کو سیکورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اٹھایا تھا ۔ایسے لوگوں کو بھی سیکورٹی فورسز اور ایجنسیاں ڈراتی ، دھمکاتی ہیں جو بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو رپورٹ کرتے ہیں اور وہاں پہ ریاستی دہشت گردی کے نشان دیکھ کر اس بارے آواز اٹھاتے ہیں ۔بلوچ جبری گمشدہ افراد کے لئے آواز اٹھانے والوں کو مسلسل ڈرائے ،دھمکائے جانے اور بلوچستان میں جہاں سیکورٹی فورسز آپریشن کرتی ہیں وہاں تک ميڈیا کی رسائی بھی ایک حد تک ناممکن بنادی گئی ہے۔ جبکہ بلوچستان کے اندر بلوچ حقوق کے لئے آواز اٹھانے والے بار بار یہ نشاندہی کررہے ہیں کہ بلوچ قومی تحریک کو دبانے کے لئے پاکستان کی عسکری اسٹبلشمنٹ ایک طرف تو بلوچ اور پشتون کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے میں مصروف ہے تو دوسری طرف ہزارہ اور بلوچ کے درمیان بھی ناراضگیاں پیدا کرنے کا عمل جاری و ساری ہے ۔جبکہ ایک انتہائی منظم طریقے سے بلوچ قبائل اور بلوچ آبادی میں اہلسنت والجماعت (تکفیری دیوبندی تنظیم ) اور سلفی عسکریت پسند تنظیم جماعت دعوٰۃ کے نیٹ ورک کو پھیلنے دیا جارہا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ افغان طالبان کی ایک بڑی تعداد بھی بلوچستان میں موجود ہے۔یہ ایک متوازی عسکریت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی ہے جسے پاکستان کی غیر منتخب ہئیت مقتدرہ بلوچستان کے اندر اپنی پراکسی کے طور پہ استعمال کررہی ہے اور وہاں بلوچستان میں ترقی پسند قوم پرست لیفٹ فورسز کو مسلسل دبایا جارہا ہے ۔بلوچستان کے اندر ترقی پسند انقلابی مزاحمتی بلوچ ردعمل کو پاکستانی مین سٹریم میڈیا میں ایک طرح سے مکمل بلیک آؤٹ اور سنسر شپ کا سامنا ہے ۔ فاروق ندیم پراچہ کو کشمیر میں ہونے والے بدترین بھارتی افواج کے جبر پہ پاکستان کی ریاست ، دائیں بازو کی جماعتوں اور مین سٹریم میڈیا کی جانب سے اس پہ بھرپور توجہ دئے جانے پہ بلوچستان میں ہونے والے سلوک کی آوازیں سوشل میڈیا کے ناراض طوطوں کی آوازیں لگتی ہیں تو اس پہ سوائے افسوس کہ اور کیا کیا جاسکتا ہے ۔
میں جب فاروق پراچہ کی یہ لن ترانی پڑھ رہا تھا تو مجھے رہ رہ کر ذوالفقار علی زلفی جوکہ فیس بک پہ میرے دوست ہیں کا خیال آرہا تھا ۔انھوں نے تین روز پہلے مجھ سے کہا تھا کہ ان کا رابطہ پاکستان کے چند بڑے نامور اینکرز پرسنز اور صحافیوں سے کرانے میں مدد کروں۔ ان ميں حامد میر ، رضا رومی ، طلعت حسین ، ثناء بچہ ، نجم سیٹھی ،وسعت اللہ خان اور دیگر کئی شامل تھے۔ میں نے ان سے کہا کوشش کرتا ہوں۔ رضا رومی سے رابطہ ہوا ہے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کو زوالفقار علی زلفی کی ای میل موصول ہوگئی ہے اور اس حوالے سے وہ یقینی کوشش کریں گے کہ انٹرنیشنل میڈیا پہ واحد بخش بلوچ کی گمشدگی ہائی لائٹ ہو اور پاکستانی حکام پہ دباؤ بڑھے ۔میں نے حامد میر سے خود بھی کہا ہے اور ان کے کئی قریبی دوستوں سے بھی بات کی ہے کہ وہ اس سلسلے میں تعاون کریں۔ بلوچ ایشو ایک زندہ اور جیتا جاگتا ایشو ہے اور اس پہ بات کرنا اور بلوچوں کے ساتھ ریاست کے سلوک کی تصویر دکھانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کشمیر یا کسی اور جگہ ہونے والی زیادتیوں کی تصویر کشی کرنا ضروری ہے۔پاکستانی ریاست تو بلوچستان کے اندر ایک طرف تو جاری فوجی آپریشن سے انکاری ہے تو دوسری طرف وہ بلوچستان کے اندر جبری اغواء اور گمشدگیوں کا سرے سے وجود ہی نہیں مانتی بلکہ اس کا موقف تو یہ ہے کہ گمشدہ بلوچ اکثر خود ہی غائب ہوگئے ہیں ۔پھر ریاست پاکستانی میڈیا کے مالکان پہ دباؤ ہے کہ وہ بلوچ سوال کی جو جگہ بنتی ہے وہ نہ دیں بلکہ بلوچ انسانی حقوق کی پامالی کی کوریج کرنے کو ہی ملکی سلامتی کے خلاف قرار دے دیا گیا ہے اور سی پیک کو مقدس گائے بنادیا گیا ہے۔جبکہ پاکستانی میڈیا میں دائیں بازو کی پاکستانی شاؤنسٹ نیشنلسٹ قوتوں کے دباؤ ، اسٹبلشمنٹ کی دھونس اور لالچ اور سرمایہ داروں کے دباؤ سمیت کئی مختلف فیکٹرز کی وجہ سے کشمیر اور بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ، جبری گمشدگیوں ، مسخ شدہ لاشوں کے ملنے اور وہاں پہ ہونے والے قومی جبر اور وہاں چلنے والی قومی آزادی کی تحریکوں کی کوریج میں بالعکس تناسب موجود ہے۔پاکستانی میڈیا کشمیر پہ جو کوریج کررہا ہے اس کا عشر عشیر بھی بلوچستان کے حوالے سے نہیں ہے ۔اس لئے سوشل میڈیا پر بلوچ ایشو پہ باخبر حلقے پاکستانی ریاست ، حکومت ، سیکورٹی فورسز اور پاکستانی مین سٹریم میڈیا پہ تنقید بھی کررہے ہیں ۔اور اس تنقید کے جواب میں دائيں بازو کی قوتیں اور ایسا لبرل لیفٹ جوکہ قومی تضاد کو تضاد تصور ہی نہیں کرتا بلکہ وہ سرمایہ داری کی ناہمواریت کو بے نقاب کرنے کو رجعت پرستی خیال کرتا ہے وہ بھی خاصا سخت ردعمل دے رہا ہے۔کراچی اور پنجاب میں بیٹھے زیادہ تر اردو اور پنجابی بولنے والے لبرل اور لیفٹ کے لوگ (سب نہیں ) بلوچ قومی سوال پہ اتنے ہی رجعت پرست ہیں جتنے ملٹری اسٹبلشمنٹ اور اس کی حامی دائیں بازو کی جماعتیں ۔یہ سوشل میڈیا پہ آنے والا ردعمل اور تقسیم کوئی خلا کے اندر پیدا نہیں ہوگئی ہے اور نہ ہی یہ آسمان سے ٹپک پڑی ہے ۔یہ کسی کی اپنی دماغی اپج کا نتیجہ بھی نہیں ہے بلکہ اس کی ہمارے سماج کے اندر ٹھوس مادی جڑیں موجود ہیں اور ہمارے سماج میں جو سماجی تقسیم موجود ہے یہ اس کا عکس ہے اور میں بھی اس تقسیم سے الگ نہیں ہوں ۔جب چیزوں کو اتنے سادہ بلکہ گول مول کرنے والے انداز میں دیکھا جاتا ہے تو اس میں کم از کم پاس کے مظلوموں جن کے بارے میں ہمارا احتجاج زیادہ موثر ہوسکتا ہے سے زیادتی ہوجاتی ہے۔ انڈین وزیرداخلہ کی پاکستان آمد پہ احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں نے بالکل ٹھیک کیا کہ انہوں نے دنیا کو متوجہ کیا کہ کشمیر میں بھارتی ریاست کے ظلم وستم کو روکا جائے ۔لیکن بلوچستان میں جبری گمشدہ بلوچوں کے اہل خانہ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ایسے مظاہرے ، بھوک ہڑتالیں اسلام آباد میں ان کے کاز کے لئے کیوں نہیں ہورہیں ؟ جتنی سول سوسائٹی پرویز مشرف دور میں بلوچوں کے لیےمتحرک تھی اب کیوں نہیں ہے ؟ پاکستان کے اندر بلوچ قوم ہو ، شیعہ ہوں ، احمدی ہوں ، ہندؤ ہوں ، سندھی مزاحمتی عناصر ہوں ، گلگت بلتستان کے مزاحمتی عناصر ہوں سب بدترین نسلی ، مذہبی جبر کا شکار ہیں اور ہم اس جبر کے خلاف ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہمارا یہ کھڑا ہونا اگر کسی کو ” سوشل میڈیا کا ناراض طوطاپن” لگتا ہے تو لگا کرے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn