کراچی میں کئی دیواروں پر اب بھی لکھا ہے۔11جون ۔ پہلا کرکٹ ورلڈ کپ تھا ۔اب تک پچیس ون ڈے ہوئے تھے ۔ یہ چھبیسواں تھا ۔ جاوید میاں داد کا ڈیبیو۔ 1975میں اسی تاریخ کو پاکستان کا ویسٹ انڈیز سے اہم مقابلہ تھا ۔ ہم آسٹریلیا سے ہار چکے تھے اور یہ میچ جیتنے والے تھے ۔ مخالف ٹیم کی نو وکٹیں گر چکیں تھیں اور اسے 64رنز درکار تھے مگر وکٹ کیپر مرے اور فاسٹ باؤلر اینڈی رابرٹس نے دسویں وکٹ پر یہ رنز بناکر جیت چھین لی۔ آخری نمبروں پر آنے والوں نے ریکارڈ بنا دیا۔
روز روز کی ٹینشن سے تنگ آکر باہر جانے کا فیصلہ کیا ۔ دوستوں سے کہا ، مجھے سکون چاہیے ۔ کون سے ملک جاؤں ؟ سب نے کہا، سکون چاہتے ہو تو ترکی چلے جاؤ۔ اس وقت سکون کے لیے بہترین ہے۔ اس نے حیران ہو کر پوچھا، بھائی خیریت تو ہے آج کل ترکی میں سکون کہاں۔ وہ کہنے لگے جتنا سکون ابھی ترکی میں ہے کہیں نہیں۔ اس نے سکون کی وجہ پوچھی تو دوستوں نے کہا ، ترکی میں میڈیا ہاؤسز اور اخبارات کو بند کر دیا گیا ہے ۔ بہت زور کا قہقہہ لگانے کے بعد سکون کو ڈھونڈنے والا بولا ۔ یارو مذاق نہیں ، کوئی اور جگہ بتاؤ ۔ ترکی کو آخری نمبروں پر ڈالو ۔
ایک کرکٹر نے اپنے کوچ اور کپتان سے شکایت کی کہ میں اتنا اچھا بلے باز ہوں مجھے آخری نمبروں پر کیوں کر دیا گیا ہے؟اسے کہا گیا کہ آپ آخری نمبروں پر ٹھیک ہو اگر کارکردگی صحیح ہو ئی تو واپس تمہارے اصلی نمبروں پر لے آئیں گے۔ وہ نہ مانا اور اس نے احتجاج کا فیصلہ کیا ۔ ٹیم انتظامیہ کا متفقہ بیان ہے کہ یہ ٹیم کے لیے نہیں اپنے لیے کھیلتا ہے۔ مفاد پرست ہے ۔ حالات اور واقعات گواہ ہیں کہ یہ دوسری ٹیم سے بھی مل کر کھیلا۔ کرکٹ بورڈ میں ایک آمر آیا تو اس کی گود میں بیٹھ کر کھیلتا رہا اور خود تو ترقی کرتا رہا اور اپنے ہی ساتھیوں کو نقصان پہنچاتا رہا ۔ دوسرا آمر آیا تو اس نے اس کی بھی گودی میں بیٹھنے کی کوشش کی ۔ اس نے لفٹ نہیں کرائی تو یہ اس کے خلاف ہو گیا۔آخری نمبروں کا تو بہانہ ہے یہ پہلے بھی ہمارے خلاف کھلم کھلا نام لے کر میدان میں اترا مگر صرف دو دن کے لیے ۔اب پھر بلیک میلنگ اور دھمکیوں پر آگیا ہے۔ ہم نے بھی سوچا ہے کہ اس سے پش اپس نہیں ناک رگڑوائیں گے ۔
موبائل نمبر ایک سے زیادہ ہوں تو آخری نمبروں پر یاد کیا جاتا ہے ۔ جیسے 52، 110۔ کراچی بلکہ دنیا بھر میں مشہور نائن زیرو ۔ یہاں جو لینڈ لائن نمبر ہے یہ نام اس کے آخری نمبروں پر ہے ۔
مشاعروں میں آخری نمبروں پر آنے والے بڑے شاعر ہوتے ہیں اگر طبیعت یا نیت خراب نہ ہو تو درمیان میں بھی پڑھ کر گھر یا دوسرے بڑے لفافے معاف کیجئے بڑے مشاعرے میں چلے جاتے ہیں۔
ایک زمانے میں ہر قوم اور قبیلے کا اپنا شاعر ہو ا کرتا تھا۔ شاعری کو وہ ہی مرتبہ حاصل تھا جو آج میڈیا کوحاصل ہے۔ جیسے آج کل کے سیاست دانوں اور شہرت کے طلب گار لوگوں کا دم پریس سے نکلتا ہے ۔ اس زمانے میں لوگ شاعروں سے ایسے ہی خوف زدہ رہا کرتے تھے ۔ شعراء کی ایسی آؤ بھگت اور عزت ہوتی تھی جیسے آج کل میڈیا والوں کی ہوتی ہے۔ یہ ایامِ جاہلیت تھے، مگر ایسا تو آج بھی ہوتا ہے۔
یونس خان کا بیٹنگ آرڈر چوتھے نمبر پر ہے ۔ سچن ٹنڈولکر بھی ٹیسٹ میچز میں اسی نمبر پر آتا تھا ۔ یونس اس وقت پاکستان کی تاریخ کے جب کہ ٹنڈولکر دنیائے کرکٹ کے بلے بازوں میں پہلے نمبر پر آتے ہیں ۔
موالی ، ملنگ، چشتی اور بہت سے دوسرے چوتھے اور آخری نمبروں پر آنے والوں کو پہلے نمبر پر رکھتے ہیں۔
گاڑی کے آگے شیشے پر انگریزی اور اردو میں بڑا سا لکھا تھا، پریس ۔ایک صاحب نئے کپڑے پہنے ہوئے آرہے تھے۔ درمیان میں گندا پانی تھا ۔ کار تیزی سے کیچڑ اچھالتی ہوئی گزری ۔ ان صاحب کے کپڑوں سمیت جسم پر بھی کیچڑ آئی ۔ انہوں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو گاڑی کے پیچھے لکھا تھا ۔ ہمارا تو کام ہی یہی ہے۔
پروگرام ختم کر کے میزبان نے فون کیا ۔ ہاں بھئی۔ دیکھا۔دوست بولا نہیں یار میں شادی میں تھا۔ اس نے کہا، رات کو repeatہوگا ضرور دیکھنا ۔ میں نے اس کو اڑا دیا ۔ فلاں کو اڑا کر رکھ دیا۔ دوسرے دوست کو فون کیا اور کہا دیکھا میں نے آج کیبل آپریٹر ز کو اڑا دیا۔ جواب ملا کہ ہمارے کیبل آپریٹر نے تمہارے چینل کو ہی یہاں سے اڑا دیا۔ میز بان بولا اچھا کوئی بات نہیں میں تمہیں فیس بک پر شیئر کر دوں گا ۔ تم دیکھنا میں نے کیسا اُڑایا۔
علامہ اقبال کو ’سر ‘ کا خطاب ملا تو مولانا ظفر علی خان نے کہا ۔ ’’سرکار کی دہلیز پر سر ہو گئے اقبال ‘‘ گویا مولانا ظفر علی خان نے حضرت اقبال کو اڑا دیا ؟
پر نم آج ہمیشہ کی طرح خیر مقدمی اور پرتپاک طریقے سے نہیں ملی۔ وجہ معلوم کی تو کہنے لگی ، تمہارے لیے تو سب کچھ تمہاری بیوی ، بچے ، خاندان ، کاروبار ہے۔ مجھے تو تم آخری نمبروں پر رکھتے ہو ۔ وہ بولا مگر میں اس وقت سب کچھ چھوڑ کر تمہارے پاس ہوں۔ پرنم نے جواب دیا ۔ اپنے مطلب کے لیے۔ میں تو تمہارے لیے بس ایک کھیل ہوں (’ر‘ احتراماً نہیں لکھا) ۔ یہ سن کر وہ جھینپا ۔ جس پر پرنم اسے تسلی دیتے ہوئے بولی ، گھبراؤ نہیں ۔ آخری نمبروں پر ہونے کے باوجود میں کبھی تمہیں اپنے فائدے کے لیے بلیک میل نہیں کروں گی۔ اس پر اس کی جان میں جان آئی اور بولا ۔ تم بہت عظیم ہو، مجھے تم پر فخر ہے۔ اسے جواب ملا ۔ اخباری بیان مت دو ۔ تمہیں اپنے گھر بھی جانا ہے اور تم آج بھی آخری نمبروں پر نہیں۔
ایسی ہی ایک طوائف سے انور مقصودنے کہا ۔ خوبصورت ہو، ناچنا بھی آتا ہے۔ فلموں میں کام کیوں نہیں کرتیں۔ وہ بولی، جی وہاں کا ماحول ٹھیک نہیں۔
یار لوگ اس میں فلم کی جگہ میڈیا لگا دیتے ہیں۔ میں نے جوں کا توں لکھ دیا۔
اعلان ہوا کہ آج کوٹھے پر ہنگامی پریس کانفرنس ہے ۔ وقت پانچ بجے۔ کسی نے کہا ، ایڈریس بھی لکھ دیجئے۔ اس نے کہا، ان سب کو پتا ہے۔ اصرار ہوا کہ اگر کوئی نیا بندہ آنا چاہے اور ایڈریس نہیں لکھا تو وہ بھٹک جائے گا ۔وہ کہنے لگی ، بھٹکے گا نہیں تو یہاں کیسے آئے گا۔پھر اس سے پوچھا پریس کانفرنس کیوں کر رہی ہو ۔ اس نے جواب دیا، مجھے وہ تمام حالات اور واقعات بیان کرنے پر مجبورکیا جا رہا ہے ۔جسے ہمیں حالیہ مہینوں، ہفتوں اور دنوں میں سامنا کرنا پڑاہے۔ ہم سے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ شرائط عائد کی جا رہی ہیں ۔ جس کی وجہ سے بہت سے ایسے نام نہاد معززین اور ان کی وابستگیاں سامنے آجائیں گی ۔ وہ مواد پبلک کر دیا جائے گا ۔ جسے قابل اعتراض قرار دیا جاتا ہے۔ اگر شام تک وہ باز نہ آئے توپریس کانفرنس ہو گی ورنہ چائے ، پانی ، ڈانس۔سوال ہوا، اسے دھمکی سمجھا جائے یا بلیک میلنگ ۔ وہ بولی ، قلم اور کیمرے کی طاقت اپنی جگہ مگر ہمیں بھی ہلکا نہ لیا جائے۔پھر پوچھا تم چاہتی کیاہو؟ تم کو آخری نمبروں پر سے اوپر کے نمبروں پرلے آئیں ، اس نے کہا، یہ اوپر کے نمبروں کی تمہارے مفادات کی آپس کی جنگ ہے ۔ ہم آخری نمبروں پر ہی اچھے ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn