Qalamkar Website Header Image

زندان کی چیخ ۔چھبیسویں قسط

zindan ki cheekhہفتہ بھر یا ایک دو دن اوپر تک علاج چلتا رہا۔ گردن کے زخم کے ٹانکے پانچویں دن کھل گئے۔ بخار تقریباََ ہفتے بعد اترنا شروع ہوا۔ باقاعدہ علاج اب صرف صبح شام کی کھائی جانے والی دوائیوں تک محدود ہوگیا تھا۔ نقاہت اس قدر شدید تھی کہ کوٹھڑی میں رکھے پاٹ پر اکڑوں بیٹھنے میں بہت مشکل پیش آتی تھی۔ ایک دو بار کھڑے ہونے کی کوشش کی مگر پورے قد سے زمین پر آرہا۔ پانی پینے کے لئے مٹکے تک رینگ کر ہی جانا پڑتا تھا۔ اسی طرح ’’پاٹ‘ تک جانے کے لئے۔ بے بسی پر آنسو آجاتے توخود کو شرمندہ کرنے لگتا ’’بڑی باتیں کرتے تھے اور اب اس حالت پر روتے ہو؟‘‘ میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ بے بسی اور تکلیف سے زیادہ شرمندگی اس بات پر تھی کہ کوٹھڑی کے باہر ایک سنتری اور دوسرا کرسی پر بیٹھا اہلکار میری اس ابتر حالت کو دیکھ رہے ہوتے تھے۔ کبھی کبھی تو خود مجھے ایسا لگتا کہ ازل سے انہیں حالات سے دوچار ہوں۔ آزاد فضا اور دوست احباب سب خوابوں کی باتیں ہیں۔ ہم سے زمین زادوں کے خوابوں کو تعبیر ملی ہی کب؟ ہمیشہ تعبیروں سے پہلے خواب چوری ہوگئے۔ کبھی بنام جمہوریت اور کبھی میرے عزیز ہم وطنو کے نام پر۔ ایک بات سچ ہے وہ یہ کہ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء پہلے کے دو مارشل لاؤں کے مقابلہ میں زیادہ سخت اور انسانیت دشمن تھا۔ وجہ یہی تھی کہ اس مارشل لاء کو مذہب کا تڑکہ لگا دیا گیا تھا۔ مارشل لاء کے نفاذ کے وقت سے لے کر اپنی گرفتاری تک باہر کی دنیا (شاہی قلعہ سے باہر) میں بھی ہمیں کچھ لوگوں کو یہ سمجھانا پڑتا کہ ضیاء کے مارشل لاء کے خلاف تحریرو تقاریر اسلام یا اسلامی نظام کے خلاف تحروتقاریر نہیں۔ مگر کچھ لوگ ایسے بہرطور تھے جو مارشل لاء کو اسلام کی نشاطِ ثانیہ سے تعبیر کرتے اور یہ کہتے تھے کہ پیپلز پارٹی کی لادین حکومت اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف تھی۔ ہم ان سے الجھتے اور سوال کرتے وہ کیسی لادین حکومت تھی جس نے شراب خانوں پر پابندی لگائی؟ آئین بناتے وقت 1956ء کے آئین کی بعض اختلافی چیزیں مثلاََ قراردادِ مقاصد اینڈ کمپنی کو شامل کیا۔ اسلام کو پاکستان کا مذہب قرار دیا۔ غیر مسلم کے صدر، گورنر ، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ وغیرہ یعنی آئینی عہدوں پر فائز ہونے پر پابندی لگائی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ قادیانی فرقے اور اس کی ذیلی شاخ لاہوری احمدیوں کو کافر قرار دیا؟
خود جناب ذوالفقار علی بھٹو نے جو اولین مرحلہ پر تیسری دنیا کے انقلابی رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے ہزار زاویہ کی الٹی سمت پر کھڑے ہو کر خود کو عالم اسلام کے رہنما کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔بھٹو صاحب اچھے آدمی تھے اور بہتر مسلمان۔ لیکن وہ بھی دکھاوے کی اسلامی لہر میں بہہ گئے۔ وقت اور عوام کی طاقت نے انہیں موقع فراہم کیا تھا۔ وہ چاہتے تو ایک حقیقی سوشل ڈیموکریٹک ریاست اور نظام کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔ لیکن جس منظم انداز میں ان کی والدہ محترمہ کے مذہب اور خود ان کی پاکستانی شہریت کو مشکوک بنایا گیا وہ اس پروپیگنڈے دباؤ کا مقابلہ نہ کرپائے۔یوں بھٹو صاحب جیسا بڑا آدمی بھی بعض معاملات میں اس سماج کے خود پسند اور نمائشی مسلمانوں کی طرح کا مسلمان ہی ثابت ہوا۔وہ تو بہت بعد میں انہوں نے دغابازوں کو پہچانا اور اپنی جرأت و بہادری کی تاریخ رقم کی مگر بہت دیر ہوچکی تھی۔ عالمی سامراج امریکہ ان کے خون کا پیاسا تھا۔ فوج کے اندر جنرل ضیاء الحق نےمحض دو برسوں کے دوران اس قدر غلیظ پروپیگنڈہ کیا کہ نیچے سے اوپر تک اس ادارے میں بھٹو کا اسلام اور حب الوطنی مشکوک ہو گئے۔ ہم حیران ہوتے تھے کہ ایک فوجی آمر جو جالندھر سے اٹھ کر آیا جس کے حسب نسب کے بارے کسی کو کچھ معلوم نہیں اس نے اسی سرزمین کے ایک زمین زادے کو غیر محبِ وطن اور اسلام دشمن بنا کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ضیاء اور اس کا ٹولہ اکیلے یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ پہلے مرحلہ میں پورے قومی اتحاد نے اس کا ساتھ دیا۔ خصوصاََ فوجی آمروں سے میعادی بیاہ رچانے کی شوقین مسلم لیگ اور جماعت اسلامی پیش پیش تھے۔ ذرائع ابلاغ پر حکومت کا کنٹرول تھا۔ جو چند آزاد اخبارات تھے ان کے لئے سرکاری اشتہارات کی اہمیت تھی۔ کچھ جماعتِ اسلامی کے حامی اخبار اور جرائد تھے۔ سب نے مل کر ایسا سماں باندھا کہ معاشرے کا ایک طبقہ یہی سمجھنے لگا کہ پیپلز پارٹی والے ہوں یا دوسرے ترقی پسند خیالات کے حامل لوگ یہ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق ہیں۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں جو چند بدنامِ زمانہ تفتیشی مراکز تھے صرف ان مراکز میں ہی نہیں ابتدائی مراحل پر تھانوں میں بھی سیاسی قیدیوں سے ملک دشمنوں جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ شاہی قلعہ میں مجھ سمیت جتنے سیاسی قیدی تھے انہیں سیاسی قیدی کوئی بھی نہیں سمجھتا تھا۔ ایک عام اہلکار سے بڑے افسروں تک ہر شخص ہمیں یہی تاثر دیتا تھا جیسے اللہ معاف کرے ہم جنگ بدر کے وہ قیدی ہیں جو مکہ والوں کی طرف سے لڑنے آئے تھے اور میدان جنگ میں گرفتار ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن مجھے کوٹھڑی سے نکال کر ایک کمرے میں لے جایا گیاجہاں فلک شیر کے ساتھ کوئی میجر پاشا نامی شخص بھی موجود تھا۔ مجھے یہ بتایا گیا کہ میجر پاشا سکھرسے آئے ہیں اور وہاں درج مقدمات کے حوالے سے کچھ معلومات انہیں فراہم کروں۔سکھر سے آنے والے میجر کی ساری گفتگو اور سوالات بچگانہ تھے۔ مگر دو باتیں بہت دلچسپ تھیں۔ اس کا پہلا سوال یہ تھا کہ میرا خاندان ہندو سے مسلمان کب ہوا؟ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اس سوال پر فلک شیر ہی نہیں بلکہ کمرے میں موجود دیگر اہلکار بھی ہنس پڑے بلکہ یوں کہیں کہ قہقہے لگانے پر مجبور ہوگئے۔ میجر نے پریشانی کے عالم میں فلک شیر اعوان کی طرف دیکھا۔ تو اس نے کہا،’’میجر پاشا! آپ کو کس نے کہا ہے کہ یہ ہندو ہے؟ یہ تو ملتان کے ایک نامور سید گھرانے کا نوجوان ہے۔ میجر نے حیرانی سے کہا،’’مگر سکھر میں جلسہ کرنے اور لوگوں کو پاکستان توڑنے پر اکسانے کے الزام میں درج مقدمہ میں گرفتار اس کے ایک ساتھی اشوک راجیش نے تو اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ میرا بھائی ہے۔ ایک ہندو کا بھائی ہندو ہی ہو گا۔ اب ہنسنے کی باری میری تھی۔ اپنی ساری تکلیف اور دکھوں کو بھول کر میں ہنس پڑا۔
فلک شیر اعوان کی وضاحت اور میرے تفصیلی بیان کے علاوہ ریاستی ایجنسیوں کے میرے بارے میں جمع کردہ کوائف کو بغور پڑھ لینے کے باوجود میجر نے بہت مشکل سے مجھے مسلمان تسلیم کیا۔ پھر کہنے لگا،’’ اس اشوک کی تو میں ہڈیاں توڑ دوں گا۔ اس نے ہمیں گمراہ کیا‘‘۔’’اس کی ضرورت نہیں‘‘ میں نے کہا’’اشوک کی بات اس حد تک درست ہے کہ وہ میرا بھائی ہے۔ آپ سمجھ نہیں پائیں گے لیکن ہم سارے زمین زادے اک دوسرے کے حقیقی بھائی ہیں۔ برادرانہ تعلق اور محبت مذہب سے نہیں زمین کے رشتے سے استوار ہوتے اور پھلتے پھولتے ہیں‘‘۔ گھنٹہ بھر سے زیادہ مغز ماری تندہی و ترشی کے بعد میجر وہیں گھنٹہ گھر چوک پر کھڑا راستہ پوچھ رہا تھا۔ اس کا اگلا سوال تھا کہ اشوک، کنعیا لال، راجیو اور کشن وغیرہ اگر صرف میرے دوست ہیں تو میں ان کے گھروں میں کیوں رہتا ہوں؟ میں نے کہا’’دوستوں کے گھروں میں ہی رہا جاتا ہے‘‘۔ ’’تم ہندوؤں کے گھر کھانا کیسے کھا لیتے ہو‘‘؟ اس نے اگلا سوال کیا۔’’جیسے ہوٹلوں میں کھا لیتے ہیں۔ کیا ضمانت ہے کہ ہوٹل کے جس برتن میں کھانا کھارہے ہیں اس میں کسی بھی غیر مسلم نے کبھی نہیں کھایا ہو گا‘‘۔ میں نے جواب دیا۔ سندھ لبریشن فرنٹ کے بارے میں کیا جانتے ہو‘‘؟ ’’کچھ نہیں۔ پہلی بار یہ نام سنا ہے‘‘، میں نے کہا۔’’تمہارے دونوں ہندو دوست اشوک راجیش اور کشن تو سندھ لبریشن فرنٹ سے تعلق رکھتے ہیں‘‘ میجر نے کہا۔ ’’جی نہیں ان دونوں کا کسی ایسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں جس طرح کا نام لیا جارہا ہے۔ اشوک سندھ نیشنل فیڈریشن کا رکن ہے۔ جبکہ کشن کا تعلق جئے سندھ سے ہے‘‘۔ میں نے جواب دیا۔’’بکواس کرتے ہو تم حرامزادے۔ تم اور تمہارے ہندو دوست بھارت کی مدد سے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ہمارے پاس مکمل ثبوت ہیں۔ اشوک نے سب کچھ اگل دیا ہے گرفتاری کے بعد‘‘ ۔’’اگل دیا ہے تو میرے سامنے لے آئیں۔ ساری بات صاف عیاں ہو جائے گی‘‘۔ میرا جواب تھا۔ ’’ویسے میجر! آپ کی باتوں پر ہنسی آتی ہے۔ میں سندھی نہیں بلکہ سرائیکی ہوں۔ کئی پشتوں سے میرا خاندان ملتان میں آباد ہے۔ ملتان کا شائد ہی کوئی گھر ایسا ہو جو میرے خاندان اور بزرگوں کو نہ جانتا ہو۔ جب میں سندھی ہی نہیں ہوں تو کسی ایسی تنظیم جو بقول آپ کے سندھ کی علیحدگی کی سازش میں مصروف ہے اس سے میرا کیا تعلق ہو سکتا ہے‘‘ میں نے اسے کہا۔’’تم سندھی نہیں ہو تو ہندوؤں کی طلباء تنظیمیں جواسلام اور پاکستان کی دشمن ہیں تمہیں اپنے اجتماعات میں تقریروں کے لئے کیوں بلاتی ہیں؟ تمہارے خلاف سکھر میں جو مقدمات درج ہیں ان کی ایف آئی آروں کے متن میں پڑھ چکا ہوں۔ تمہاری ساری تقریروں میں سندھ پر قبضے، غیر سندھیوں کی آباد کاری اور اس طرح کی باتیں ہیں‘‘۔ میجر نے کہا۔’’درست ہے۔ میں نے اپنی تقریروں میں یہی کچھ کہا تھا جو ایف آئی آر وں میں لکھا ہے۔ انہوں نے مجھے جلسوں میں تلاوت یا نعتِ رسول ﷺ پڑھنے کے لئے نہیں بلکہ تاریخ اور سیاست پر گفتگو کے لئے بلایا تھا‘‘۔ میرا جواب تھا۔
جاری ہے۔۔۔
پچھلی اقساط پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں

حالیہ بلاگ پوسٹس

آئس کینڈی مین – تقسیم کی ایک الگ کہانی

بپسی سدھوا پاکستانی، پارسی ناول نگار ہیں۔ اِس وقت ان کی عمر اسی سال ہو چکی ہے۔ وہ پاکستان کے ان چند انگریزی ناول نگاروں میں سے ایک ہیں جنہوں

مزید پڑھیں »

بنی اسد

10 محرم سے لیکر 13 محرم تک امام حسینؑ، آپ کی اولاد، بھائی، اعوان و انصار کے اجسامِ مطہر زمینِ کربلا پر بے گور و کفن بکھرے ہوئے تھے۔ 13

مزید پڑھیں »

اردو کے ہندو مرثیہ گو شعراء

اردو مرثیہ نگاری میں ہندوستان کے ہندو شعرا کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاتا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اردو ایک سیکولر زبان ہے۔ اوریہ اردو

مزید پڑھیں »