نوٹ: عالمی افسانہ فورم فیس بک پر افسانے کی ترویج کے لئے ایک معروف پلیٹ فارم ہے. عالمی افسانہ فورم ہر سال ایک عالمی افسانہ میلہ منعقد کرتا ہے جس میںمشہور افسانہ نگاروںکے علاوہ نئے افسانہ نگاروں کو بھی نمائندگی دی جاتی ہے. اس سال یکم سے بیس اگست تک یہ عالمی افسانہ میلہ جاری رہے گا. اس عالمی افسانہ میلے میںپیش کیے جانے والے تمام افسانے قلم کار پر شائع ہوں گے. اسی سلسلے کا پہلا افسانہ قارئین کی نذر….
افسانہ نمبر 1
افسانہ نگار: محترمہ آصف اظہار علی ،علی گڑھ انڈیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں ایک انسانی روح ہوں اور آج اپنے جسم سے آزاد ہو گئی ہوں۔کهنکهناتی مٹی سے بنا ہوا میرا مکان دیکهتے ہی دیکهتے ڈهیر ہو چکا ہے۔میں جس جسد خاکی میں قید تهی اس کا نام آرام علی ضرور تها لیکن وه تمام عمر بے چین اور بے آ رام ہی رہا۔وه جو آج مر چکا ہے اسے اس کے اپنوں نے بہت تڑ پایا ہے۔سب کچھ ہوتے ہوئے بهی وه تہی دست تها اس کا اپنا نہ کوئی ٹهکانہ تها اور نہ کوئی گهر۔ہوا کے آواره جهونکے کی طرح ادهر ادهر مارا مارا پهرتا رہا۔اپنوں کی محبت سے محروم۔دراصل اس کی آزاد طبیعت اور فنکارانہ مزاج اسے راس نہیں آئے وه ایک حساس شاعر ایک بلند پایہ ادیب، دنیا نے اسے اس کے طریقے سے جینے ہی نہ دیا ۔
اس کے اپنے گهر والے اس کی طرف سے بےزار اور شکوک وشبہات میں مبتلا رہے۔بهلا ایک اعلی خاندان کے رئیس زادے کو فلمی دنیا سے کیا لینا دینا تها جو وه گهر چهوڑ کرممبئی چلا گیا اور فلموں کے گیت لکھنے لگا۔کئی اچهی ڈاکو مینٹری فلمیں بهی بنائیں اس نے۔اس کے لکهے ہوئے گیت دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے تهے۔اس کی بنائی ہوئی فلموں میں ایک جدت ہوتی تهی دنیا واه واه کرتی لیکن اس کے اپنوں کے منہ سے تعریف کے دو بول کبهی نہ نکلے۔ان کے خیال میں تو فلموں سے اپنی وا بستگی کے سبب آرام علی نے خاندان کی آبرو پرکلنک کا ٹیکہ لگا دیا تها۔
آرزو آرام علی کی بیوی ہمیشہ طعنے ہی دیتی رہی۔اسے اپنے خوبرو اور من چلے شوہر پرقطعی بهروسہ نہیں تها ۔وه کہا کرتی کہ فلمیں تو بہانہ ہیں ورنہ اپنے ارد گرد لڑکیاں اور عورتیں جمع کرنے کا شوق ہے میرے راجہ اندر کو۔ یہاں یہ رنگ رلیاں اور عیاشی کہاں نصیب ہوگی۔اسی لئے تو دوڑ دوڑ کرممبئی جاتے ہیں۔میں تو ان کی رگ رگ سے واقف ہوں۔جب تک یہ باپ دادا کی جائیداد اڑا نہیں لیں گے چین سے نہیں بیٹهیں گے۔بچے بڑے ہو گئے ہیں لیکن ان کے رنگ ڈهنگ نہیں بدلے۔وه اکثر اپنے دونوں بیٹوں کے سامنے دل کی بهڑاس نکالا کرتی۔بچوں کو باپ سے دور کرنے میں آرزو کا ہی ہاتھ تها اور آج وہ ہی آرزو۔۔۔۔بال بکهیرے ہوئے۔۔۔۔۔۔سینہ پیٹتی ہوئی آرام علی کی موت کا غم منا نے کی کامیاب ادا کاری کر رہی ہے۔
میراجسم بے جان ہے لیکن میں آرام علی کی روح سب کچھ دیکھ اور سن سکتی ہوں۔محسوس کر سکتی ہوں۔دراصل اسے اپنے شوہر کی موت کا ذره برابر بهی غم نہیں ہے۔اس نے زندگی بهر اپنے شوہر کو منہ ہی کب لگایاتها۔بہ ظاہر آرزو ماتم منا رہی ہے لیکن اندر سے خوش ہے۔شکر گزار اس گهڑی کی جب اس نے محل جیسی یہ حویلی اور زمین اپنے نام کرائی تهی۔ورنہ آج کیا ہوتا۔بڑا بیٹا ساری جائیداد ہڑپ کر لیتااور وه عمر بهر کے لئے محتاج ہو جاتی۔وه سامنے آرام علی کا بیٹا آفاق جو منہ لٹکائے اور چہرے پر اداسی کا سر مئی لیپ لگائےکهڑا ہے۔اصل میں تو وہی آرام علی کی موت کاذمہ دار ہے اس کا اپنابیٹا ہی اس کا قاتل ہے۔
آرام علی نے چار سال پہلے ایک آرٹ فلم بنائی تهی جس میں اسے تقریباً ایک کروڑ کا منافع ہوا یہ روپیہ وه اپنی دوسری فلم بنانے میں لگانا چاہتا تها ۔اسی زمانے میں آ فاق کوممبئی میں مکان خریدنے کے لئے اور اپنے بزنس کے لئے روپوں کی ضرورت پڑی ۔آفاق نے دست سوال باپ کے سامنے دراز کیا۔آرام علی نے پچاس لاکھ روپیہ بیٹے کو دے دیاجسے اس نے بزنس میں لگایا۔مکان خریدا آرام علی کو بهی ایک مستقل ٹهکانہ مل گیا وه ممبئی میں اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہنے لگا۔بہت خوش تها وه۔برسوں سے اس کے دل میں ایک بڑی فلم بنانے کی خواہش پل رہی تهی۔اسکرپٹ اور گیت آرام علی نے خود ہی لکهے تهے۔اس نے فلم بنانی شروع کر دی۔بہت اچهی فلم بن رہی تهی۔آرام علی کو امید تهی کہ یہ فلم خوب چلے گی۔۔۔۔۔اچهے فن کے قدر دان ابهی ملک میں موجود ہیں۔آدهی سے زیادہ فلم مکمل ہو چکی تهی۔آرام علی کا تمام سر مایہ بهی ختم ہو گیا۔بیٹے آفاق کا ایکسپورٹ امپورٹ کا بزنس ممبئی میں چمک اٹها تها اور وه خوب روپیہ کما رہا تها۔آرام علی کو پیسوں کی سخت ضرورت تهی اس نے بیٹے سے پچاس لاکھ روپے کا مطالبہ کیا اور آفاق معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے باپ سے بولا
”تو گویا آپ اپنادیا ہوا روپیہ واپس چاہتے ہیں ۔؟۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔؟”
”تم غلط سمجھ رہے ہو آفاق ”۔آرام علی بوکهلا کر بولا۔۔۔۔
”نہیں غلط نہیں ابا۔مجهے معلوم نہیں تها کہ وه روپیہ آپ نے مجهے ادھار دیا تها۔میں تو سمجها تها کہ ایک باپ نے اپنے بیٹے کی ضرورت پوری کی ہے۔”
”نہیں بیٹے ایسا مت سوچو۔مجهے روپے کی سچ مچ بہت سخت ضرو رت ہے۔میری فلم ادهوری ہے۔مجهے تم سے بڑی امید ہے بیٹا۔”آرام علی بیٹے کے سامنے کچھ شر منده سا ہو کر بولا
”بس کیجئے ابا آپ اپنا تو سب کچھ اس فلم پر لٹا چکے ہیں اب مجهے بهی اس چکر میں پهنسا نا چاہتے ہیں ؟”آفاق نفرت سے منہ سکوڑ کر بولا اور بولتا ہی رہا” آپ جهوٹے ہیں ۔ہم نے ہی آپ کو سمجهنے میں غلطی کی۔اماں ٹهیک ہی کہتی ہیں۔آپ کسی کے سگے نہیں ہو سکتے۔آپ کی سگی تو یہ فلمیں ہیں۔یہاں کی رنگ رلیاں ہیں۔بهلا آپ رشتوں کو کیاسمجھیں گےاور ہاں سنیے آپ نے جو روپیہ دیا تها اس کا حساب برابر ہو چکا ہے۔آپ کئی برس سے اس ممبئی جیسے شہر میں ہمارے ساتھ ره رہے ہیں۔اپنے اخراجات کا اندازه ہے آپ کو۔آئے دن گهر میں آپ کے دوست احباب کی محفلیں جمتی ہیں۔دعوتیں ہوتی ہیں۔وه سب میرے ہی پیسے سے نا تو پهر بتائیے آپ کا کیا باقی رہا میرے پاس۔”
آرام علی ہکا بکا سا بیٹے کا منہ دیکھتا ره گیا یہ اس کا بیٹا بول رہا تها۔اس کا اپنا خون۔کان یقین کرنے کو تیار نہیں تهے۔ایسا نہیں ہو سکتا ۔ہندوستانی رشتوں میں ابهی اتنی دراڑیں نہیں پڑی ہیں کہ ایک ہی جھٹکے میں سب کچھ ٹوٹ کر بکهر جائے ۔کوئی بیٹا اپنے باپ سے اس کے کهانے پینے کا حساب کرنے لگے۔آرام علی کاسر چکرانے لگا۔سینے پر جیسے کسی نے لوہے کا مکا جما دیا ہو۔وه بےچارگی اور انتہائی بے بسی سے اپنے بیٹے کو دیکھتا رہا اور پهر سرجھکائے ہوئے واپس جانے کو مڑااور دهڑام سے گهر کے دروازے پر گر کر ڈهیر ہو گیا۔اسی وقت مجهے یعنی اس کی روح کو آرام علی کے جسم سے ہمیشہ کے لئے رہائی مل گئی۔
وه سامنے آرام علی بے حس و حرکت پڑا ہے ۔بے جان۔۔۔۔میں ۔۔۔۔ اس کی روح اس گهر میں بهٹک رہی ہوں آنسووں کے صرف ان دو قطروں کے لئے جوآرام علی کے اپنوں کی آنکھ سے ٹپکے ہوں ۔سچی اور بے لوث محبت سےجهلملاتی ہوئی نمکین پانی کی دو بوندوں کی تلاش ہے مجهے جو کسی انسانی آنکھ میں نظر نہیں آتیں۔
منڈیر پر کبوتر کا وه جوڑا بیٹھا ہے جو آرام علی کو بہت عزیز تها۔میں کیوں کہ ایک روح ہوں۔ہوا کی طرح ہلکی ،نظر نہ آنے والی میں نہایت خاموشی سے کبوتر کے اس اداس جوڑے کے اندر حلول کرگئی ہوں۔یہ جوڑا جو دو قالب مگر ایک جان ہے۔یہ دو ننهی منی جانیں بے چین ہیں ٹکر ٹکر اس جانب دیکھ رہی ہیں جہاں وه پیاری ہستی بے جان پڑی ہے جو کبوتر کے اس جوڑے کو اپنے ہاتھ سے دانہ ڈالا کرتی تهی ، وہ دونوں برآمدے کے کےایک موکهلے میں غٹرغوں غٹر غوں کیا کرتے اور آرام علی کی آ۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔آ کی آواز پر آنگن کی منڈیر پر آبیٹھتے۔وه آنگن میں پھیلے ہوئے دانے چگتے رہتےاور آرام علی پیار بهری نظروں سے اس خوبصورت جوڑے کو دیکھتا رہتا۔ آج ان کا محبوب مالک ختم ہو گیا تهااور وه دونوں کبوتر ایک دوسرے کے پروں میں پر دئیے اپنی گول گول آنکهوں سے نیچے تک رہے تهے ۔وه اپنے درد کا اظہار اپنے مالک کے لئے کرنا چاہتے تهے لیکن آج غٹر غوں کی آواز ہی نہیں نکل رہی تهی۔میں آرام علی کی روح ان کے جسم میں داخل ہو چکی تهی۔ان کے غم کو محسوس کر رہی تهی۔آہستہ سے کبوتر نے کہا۔چلو کبوتری یہاں سے کہیں دور اڑ چلیں۔اب اس گهر میں ہماری قدر کرنے والا کون ہوگا بهلا۔ہاں۔۔۔۔کبوتری غمگین لہجے میں اپنے کبوتر کے پروں میں سر چهپا کر بو لی۔میں بهی یہی سوچتی ہوں اب ہم یہاں نہیں رہیں گے۔آؤ اڑ چلیں۔کہیں نہ کہیں تو ٹھکانہ مل ہی جائے گا ۔کسی کهنڈر کا موکهلا، کسی درخت کا کهوکهلا تنا اور وه دونوں پر پهڑ پهڑاتے ہوئے اڑ گئے ۔میں اگر جلدی سے باہر نہ نکل آتی تو شاید مجهے بهی لے اڑتے۔۔۔۔
آرام علی کی موت کو آج دوسرا دن ہے ۔مٹی کا جسم مٹی میں ملنے کے لئے دفنایا جا چکا ہے۔گهر میں بہت سے عزیز اور رشتے دار آچکے ہیں ۔آرزو سب کے گلے مل مل کر دہاڑیں مار رہی ہےمگر میں جانتی ہوں کہ یہ عورت بالکل جهوٹی ہے۔میرا انسان پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔کیا سب انسان ایک دوسرے سے محبت کامحض ناٹک کرتے ہیں۔کیا سچی محبت دنیا سے ناپید ہو گئی ہے۔خون سفید ہو گئے ہیں۔کیا انسان صرف اپنے مطلب سے ایک دوسرے سے ملتا ہے۔رشتوں کو نبهاتاہے۔ اےخدا۔۔۔۔۔۔۔ اےخدا۔۔۔۔۔ اگر ایسا ہے توآئنده مجهے کوئی انسانی جسم نہ ملے ۔میں آرام علی کے جسم میں ہمیشہ تڑپتی ہی رہی ہوں۔یہ عورت۔۔۔۔۔ اس کی بیوی آرزو جس سے آرام علی نے جی جان سے محبت کی تهی کتنازہر اگلتی تهی اس کے سامنے کس قدر پریشان کرتی تهی اسے۔۔۔اسی لئے جب کبهی وه اپنے اس شہر میں آتا تو بہت کم گهر آیا کرتا تها۔اپنے دوستوں کے ساتھ ہی وقت گزارتا۔گهر گهر کی طرح ہو تو کوئی آنے کی تمنا کرے وه گهر آتا بهی تو اپنے کبوتروں کو دانہ ڈالتا یا اپنے کتے جانو کے ساتھ لگا رہتا۔کیا کچھ نہیں کیا تها آرام علی نے اپنی بیوی بچوں کے لئے۔عالیشان حویلی کی نئے سرے سے مرمت کروائی ۔گاڑی نوکر چاکر سب کچھ تو تها اس کی بیوی اور بچوں کے پاس ۔مجهے یاد ہے آرام علی کو پہلا دل کا دوره پڑا تو آرزو بہت پریشان ہو گئی تهی۔اس لئے نہیں کہ وه شوہر کی محبت میں تڑپ اٹهی تهی وه پریشان تهی کہ اگر شوہر کو کچھ ہو گیا تو وه کیا کرے گی۔یہ حویلی ہی اگر وه میرے نام کر دیں تو باقی عمر چین سے گزرے ۔آرام علی ٹهیک ہوئے تو بیوی نے ضد پکڑ لی کہ حویلی اس کے نام ہو۔آرام علی نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ حویلی کے کاغذات نکالے۔حویلی اور گاؤں کی زمین بیوی کے نام لکھ دی۔بیوی کے لبوں پر مسکرا ہٹ اور آنکهوں میں چمک آ گئی لیکن اس وقت اس مطلبی عورت سے آرام علی کو شدید نفرت محسو س ہوئی۔
میں آرام علی کی روح اس وقت کیوں کہ ان کے اندر ہی موجود تهی اس لئے مجهے سب معلوم ہے آرام علی سوچ رہے تهے کہ کیا یہ وہی عورت ہے جسے خدا نے میری پسلی سے پیدا کیا ہے ۔نہیں۔۔۔۔۔ وه تو حوا تهیں جنہوں نے اس دنیا کو آ باد کیا اور سائے کی طرح حضرت آدم کے ساتھ لگی رہیں۔۔۔۔۔۔یہ دنیا لاکھ رنگین سہی لیکن ان کی آنکهیں اپنی گم گشتہ جنت کی یاد میں ہمیشہ اشکبار رہیں اور میری بیوی ۔۔۔۔۔یہ آج کی حوا۔۔۔ اس نے وه اصلی جنت دیکهی ہی کہاں ہے۔ اس کا تصور ہی کب کیا ہے اس کے لئے تو شاید یہی دنیا ہی جنت ہے۔سب کچھ تو مل جاتا ہے یہاں۔۔۔۔۔۔دولت پاس ہو تو دنیا کا کون سا عیش وآرام نہیں خریدا جا سکتا شاید آرزو کو مرنے کا کوئی خوف نہیں تها۔اس ابدی جنت کے حصول کی کوئی تمنا بهی نہیں تهی۔اس کی جنت تو یہی دنیا تهی۔
آرام علی کو مرے ہوئے تین دن ہو چکے ہیں۔سب عزیز اوررشتے دار ابهی موجود ہیں۔میرے جسم کا سوگ منایا جا رہا ہے۔آرزو کو رونے کا ڈرامہ کرنے کے علاوه ایک فکر اور بهی ہے کی آنے والوں کی خاطر داری میں کوئی کمی نہ ره جائے فاتحہ اورسوئم کے بہانے گهر میں قورمہ اور بریانی کی دیگیں اتری ہیں۔دیسی گھی کی مٹهائی منگوائی گئی ہے۔ سب کے پیٹ بهرے ہیں دل بهر کے سب نے فاتحہ کا کهانا کهایا ہے۔کهانے کی تعریف کی ہے، لیکن ایک بے جان جانور اس گهر میں ایسا بهی ہے جس نے اپنے مالک کے غم میں تین دن سے کچھ بهی نہیں کها یا۔”جانو”آرام علی کا پیارا السیشین کتا، آج جانو کی طرف دیکھنے کی کسی کو فر صت نہیں ہے۔وه تین دن سے پیروں میں سر ڈالے ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھا ہے ۔اپنے مالک کی یاد میں تڑپ رہا ہے۔آرام علی کے گهر میں قدم رکهتے ہی جانو دوڑ کر اس کے قدمو ں میں لوٹنے لگتا تها۔وه پیار سے اسے پچکارتا۔اس پر ہاتھ پهیرتا اور نوکر کو آواز دیتا۔
رام پرساد آج جانو نے کیا کهایا۔۔۔۔۔۔۔۔
”صاحب جی، دودھ روٹی صبح دی تهی اور اب راتب کهلایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔”
”ٹهیک ہے۔ دیکهو اس کے کهانے پینے میں کوئی کمی نہ ہو”۔اور وه جاتے جاتے رام پر ساد کو جانو کے کهانے پینے کے لئے الگ سے روپئے دینا نہیں بهولتا تها۔مگر ادهر تین دن سے جانو نے کهانے کی طرف دیکها بهی نہیں ہے۔رام پرساد نے بہت کو شش کی ۔کبهی بسکٹ ڈالے کبهی دودھ بریڈ لا یا مگر اس نے کهانے کی طرف دیکها بهی نہیں۔رام پر ساد پریشان تها اس نے جاکر مالکن سے کہا بهی تها کہ ۔”جانو ”نے تین دن سے کچھ بهی نہیں کهایا ہےاور وه جهلا کر بولی تهی۔
”نہیں کهایا تو میں کیا کروں؟ ، مرنے دے، کس کس کے نخرے سہوں۔بهوک لگے گی تو اپنے آپ کهائے گا۔”
میں محبت کی پیاسی روح جو تین دن سے اس گهر میں بهٹک رہی تهی محبت کے ان دو قطروں کے لئےجو کسی آنکھ سے ٹپکیں اور میں پیار محبت کی وه سوغات اپنے ساتھ عالم ارواح میں لے جا سکوں۔ایک ایک آنکھ میں محبت کی سچائی ڈهونڈ تی رہی تهی۔ہر آنکھ سے نکلے ہوئے ایک ایک قطرے کو پرکھتی رہی تهی۔مگر بے سود۔۔۔۔میں اپنے مسکن کی طرف اڑنے ہی والی تهی کہ بے لوث محبت کی چمک نے مجهے روک لیا۔میں کچھ تو مطمئن ہوں کہ دنیا میں محبت اب بهی باقی ہے، کہیں تو مو جود ہے، آنسوؤں کے تابناک قطرےاس بے زبان جانور کی آنکهوں سےڈهلک رہے ہیں جسے آرام علی ”جانو ”کہتے تهے۔انکا وفادار السیشین کتا۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn