Qalamkar Website Header Image

یہ بندر پہلے انسان تھا

akram sheikh newزندہ، متحرک اور فعال قوموں میں یہی فرق اور امتیاز ہوتا ہے۔ اس کی اجتماعی سوچ کتنی مثبت ہو گی اور وہ اس پر عملدرآمد کی ترجیحات کو کس طرح خوابوں اور تصورات سے نکال کر تعبیروں سے آشنا کرتی ہے نفی کی علامتوں اور محض سازشوں میں ہی جکڑی نہیں رہتی۔ ہر کسی کو مجرم ٹھہرانا، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا الزام اس کے سر تھونپنا مگر، خود کچھ نہیں کرنا۔ صرف نسوار منہ میں ڈالے بیٹھے رہنما اور پھر یہ دعویٰ بھی کرنا جو کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں۔
اس موقع پر ہمیں ہمارے بہت ہی عزیز دوست سہیل قلندر شدت سے یاد آ رہے ہیں جن کا دل ناتواں بقول شخصے گھریلو چوہاماری اور سنگ باری کی زد میں آ گیا تھا ہم انھیں ’نسوار خان‘ کہتے تو وہ اس طعنہ زنی پر ناراضی کا اظہار کرنے کے بجاے الٹا ہمیں ایک عدد خوب صورت سی مسکراہٹ سے نواز دیا کرتے تھے۔ یہی بڑے لوگوں کا مال ہوتا ہے وہ اپنے عمل اور کردار سے زندہ رہتے ہیں اور ہم ایسے نقش راہ پر چلنے والوں کو یاد آتے اور کچھ نہ کچھ لکھنے کہنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ورنہ حالات اور جبر کی اس ستم گاری میں کسی کے پاس اتنا وقت کہاں؟؟
بات تو ایک تسلسل میں پختون بھائیوں کی ’چوہا ماری‘ کی خواہشوں اور ناکام کوششوں کی ہو رہی تھی ابھی اس میں کہیں سے کامیابی کی کوئی ’شہادت‘ نہیں ملی تھی جو عید جیسی خوشی کا باعث ہوتی۔ زندہ قوموں کی ایک ایسی خبر سامنے آ گئی ہے پرانی اقدار و روایات بل کہ تحقیق و حقائق کی ایک تصدیق بھی ہے۔ اور وہ جو ڈارون نے انسان اور بندر کے درمیان تعلق پیدا کیا تھا اس کی بھی تائید و توثیق ہو گئی ہے۔۔۔ ایک پرانے فلمی گیت کا ایک مصرع ہے
یہ بندر انسان تھا پہلے
جس کی یہ توضیح بھی کی جاتی ہے کہ بندر درحقیقت انسان کی ابتدائی شکل ہے اس میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو ابتدائی انسان میں تھیں۔ یعنی اس کی محض اچھل کود یا پھر اس کے ایک درخت سے دوسرے درخت تک کے ’خلائی سفر‘ کو انجوائے کرنے کے بجائے اس کی فہم و شعور اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف بھی کرنا چاہیے۔ ہمارے ہمزاد نے جب آج سے دس سال پہلے انسان اور کتے کے درمیان مکالمے کا ادراک کیا تھا تو اس میں ایک جگہ کتے نے انسان کو اس کی اوقات یاد کرواتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ۔۔۔ انسان در اصل بندر کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور یہ انسان تمام تر ’جانوری‘ کے باوجود ابھی تک بندر کے مقام تک نہیں پہنچ سکا، یہ تو ’طفل مکتب‘ ہے۔
بہ ہر حال دوستو۔۔۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ انسان کی ابتدائی شکل، پہاڑوں اور درختوں سے نیچے اتر کر انسان کا مقابلہ کرنے، یا پھر اپنی بگڑی ہوئی شکل کو فطری خوب صورتی دکھانے میدان میں آگئی ہے۔ گویا اب انسان کی بالادستی کا بھرم ٹوٹنے والا ہے۔ کتے اور چوہے جو انسانی نفرت اور سازشوں کا شکار ہیں وہ خوش ہیں کہ مقابلہ خوب اور دیکھنے کے قابل ہو گا۔ ایک بادشاہ ہے تو دوسرا بادشاہ گر۔ چوہے کا تو خیال ہے کہ اب بلی کے گلے میں گھنٹی ضرور بندھے گی۔ جب کہ کتے ابھی تک محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں وہ ابھی تک بیڈ رومز کی رفاقت اور صحبت کے ساتھ گوشت اور دودھ کی خوراک کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے یہ دنیا ہے اور یہ دنیا امیدوں پر قائم ہے۔ ہم کسی مخلوق کی امید کی راہ میں کوئی دیوار کھڑی نہیں کرنا چاہتے۔ ہوتا وہی ہے جو وقت اور حالات کے جبر میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔جیسے تازہ ترین معلومات کے مطابق چینیوں نے انسان کی ابتدائی شکل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، اس کی تعلیم و تربیت کے لیے باقاعدہ سکول بنا دیا ہے وہاں کچھ بندروں نے داخلہ بھی لے لیا ہے۔ البتہ اس میں یہ پتا نہیں چل سکا کہ اس سکول کا انتظام ریاست کے پاس ہے یا پھر اسے آزاد معیشت کے دور میں پرائیویٹ شعبہ کے حوالے کر دیا گیا ہے اور اس کی داخلہ فیس کیا ہے اور کیا یہ سکول ’عام بندر‘ کے لیے بھی ہوگا یا طبقاتی نظام کا غلام ہو گا۔ اور اس میں صرف اپر کلاس کے بندر ہی تعلیم حاصل کر سکیں گے۔ اس سکول میں بندروں کو شیک ہینڈ اور سلامی دینے کے ساتھ سرکس کی تربیت بھی دی جاے تا کہ ان کی فطری صلاحیتوں کو کوئی زک نہ پہنچے۔وہ اچھل کود کو سر اور تال کا پابند بھی رکھیں۔ مزید یہ کہ انھیں حساب کتاب یعنی ’اکاؤنٹ‘ کی تعلیم بھی دی جائے گی۔ گویا یہ بندر، آئی کام، بی کام، ایم بی اے اور سی اے کی ڈگریاں بھی حاصل کر سکیں گے۔ اور وہ معیشت کی بہتری میں اپنا کردار بھی ادا کر سکیں گے۔ جو انسان نما جانوروں کے لیے عبرت کا باعث بھی ہو گا۔
لیکن۔۔۔ یہ خطرہ بہ ہرحال موجود ہے کہ انسانوں کی صحبت میں کہیں ان میں بھی کرپشن اور بدعنوانی کا عنصر نمایاں ہو جائے اور ان کی ’بندری فطرت‘ کو بھی شک کی نگاہوں سے دیکھا جانے لگے اور وہ واپس جنگوں اور پہاڑوں کی طرف پلٹ جائیں۔
یہ خبر بھی ہے کہ اس سکول میں بندروں کو ایسی تربیت بھی دی جائے گی کہ وہ انٹرٹینمینٹ انڈسٹری میں بھی اپنی بندری صلاحیتوں کے ساتھ تعمیری کردار ادا کر سکیں خصوصاً فیشن ڈیزائننگ میں نئے فیشن کے ساتھ سامنے آئیں جس سے ’سپر ماڈلز‘ کو پریشانی لاحق ہو گی۔ ظاہر ہے کہ جب نئی ’ایشوریا راے‘ نئے لباس کے ساتھ ٹی وی کی سکرین پر جلوہ گر ہو گی تو پھر اس سے کچھ اور خواتین بھی متاثر ہوں گی ان میں بھی ایشوریا راے بننے کی خواہش نمایاں ہو گی۔ اس اہمیت اور افادیت کا ہی نتیجہ ہے کہ جاپان سے بھی تیس بندر آ ئے ہیں اور انھوں نے گلیمر کی دنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اس سکول میں داخلہ لے لیاہے۔ جس سے یہ امید بھی برسر عام ہو گئی ہے کہ ہت جلد یہ سکول آکسفورڈ یونی ورسٹی کا درجہ حاصل کر لے گا جہاں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کے اعلیٰ اور حکمران طبقے کے بندر اعلیٰ تعلیم کیلیے جایا کریں گے۔ اور واپس آ کرمحکوم اور مظلوم طبقوں پر اپنے تمام استحصالی رویوں کے ساتھ حکمرانی کیا کریں گے۔ ان کے اپنے وزیر خزانہ بھی ہوں گے۔
لیکن۔۔۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ فوری طور پر یہ امکان نہیں کہ وہ بات تو عوام کی کریں مگر ان کی تمام پالیسیاں عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کی نگران اور ذاتی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہوں۔ اس کے لیے وہ جتنا بھی انسان سے دور رہیں اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہو گا۔ ورنہ ان کا انجام بھی وہی ہو گا، جو انسان نما جانوروں کا ہو رہا ہے۔ نہ گھر کے نہ گھاٹ کے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس