لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے گذشتہ روز ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب انصاف کے لیے دوسری نسل کو انتظار نہیں کرنا پڑے گا ، سید منصور علی شاہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے اس بیان سے پنجاب کے عدالتی حلقوں میں ایک امید کی کرن جاگی ہے، اور عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاکے انصاف طلب کرنے کی آرزوئیں دل میں لیے نا جانے کتنے سائل اگلے جہان پہنچ گئے ہیں لیکن اب ان کی دوسری یا تیسری نسل انصاف کے لیے عدلیہ کے در پر ریڑیاں رگڑنے پر مجبور ہے لیکن عدلیہ کی سست روی کی چال میں تیزی آنے کا نام نہیں لیتی۔۔۔ ظاہر ہے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور اپنی عمر کے کئی سال اس عدلیہ کو دیکھتے ہوئے بسر کر چکے ہیں اس حوالے سے انہیں انصاف کے لیے دربدر ٹھوکریں کھانے والے سائلین کی پریشانیوں اور مسائل سے مکمل نہیں تو تھوڑی بہت تو آگاہی حاصل ہوگی اس لیے پنجاب کے عدالتی حلقوں میں اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ سید منصور علی شاہ اپنے عہد میں عدلیہ کی نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں ، عدلیہ کے حالات سے واقف کاروں کی جانب سے جناب چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کو مشورے دئیے جا رہے ہیں کہ ’’شاہ جی ذرا آہستہ چلیں‘‘
محترم چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کے نیک ارادوں کے پیش نظر اور عدلیہ کے سائلین کو جلد از جلد انصاف فراہم کرنے کی خواہشات کو دیکھتے ہوئے میں اس امید کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کی خدمت میں چند معروضات پیش کررہا ہوں کہ شائد ذیل سطور کے سائلین کو بھی انصاف ان کی زندگی میں میسر آ جائے،ذیل کی سطور میں میں ملک کے دو مشہور بلکہ شہرہ آفاق مقدمات کی کی جانب عدلیہ کی توجہ دلائی جا رہی ہے ان سطور کے قلمبند کرنے کا اس کے سوا اور کوئی مقصد نہیں، ان سطور سے اگر کسی فرد یا ادارے کی دل آزاری ہو تو میں پیشگی معذرت خواہ ہوں۔آئیے پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ کے دو معروف مقدمات کا جائزہ لیں کہ وہ اب کس سطح پر ہیں۔
مہران بنک سکنڈل بے نظیر بھٹو کی حکومت کے دوران سامنے آیا، نوے کی دہائی میں صدر غلام اسحاق خان نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو اٹھاون بی ٹو کے تحت چلتا کیا اور نوے دن مین نئے انتخابات کروائے اور نواز شریف کو برسراقتدار لایا گیا تو اس دوران تحریک استقلال کے صدر اصغر خان نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی کہ پاک فوج کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے اسلامی جمہوری اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کو فنڈز جاری کیے جس کا مقصد پیپلز پارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں کو انتخابات میں شکست سے دوچار کرنا تھا، سکینڈل کے مرکزی کردار مہران بنک کے سربراہ یونس حبیب کی جانب سے بیان داخل کروایا گیا کہ انہوں نے شریف برادران اور دیگر راہنماؤں کو کروڑوں روپے فراہم کیے تھے تاکہ بے نظیر بھٹو حکومت کو گرایا جا سکے، اصغر خاں کی یہ پٹیشن دو عشروں تک عدالت عظمی میں زیر سماعت رہی، اور اللہ اللہ کرکے سپریم کورٹ نے اس کا فیصلہ سنایا اور اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے کیس ایف آئی اے کے سپرد کیا گیا۔میں نے کئی بار لکھا کہ کیا سپریم کورٹ اصغر خان کے مرنے کا انتظار کر رہی ہے تاکہ وہ مرے اور کیس نمٹا دیا جائے۔
کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف نے اس سلسلے میں اپنا بیان ایف آئی اے کے پاس ریکارڈ کروادیا ہے لیکن ایف آئی اے نے تفتیش مکمل کرکے رپورٹ یا چالان عدالت کے روبرو پیش نہیں کیا، اس حوالے سے ایک عذر یہ بھی بتایا جا ریا ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایک نظرثانی کی پٹیشن دائر ہے اور عدالت عظمی میں اس کی سماعت ہونا باقی ہے اور ایف آئی اے کو اس کا انتطار ہے۔ پہلے اصل پٹیشن کی سماعت اور فیصلے میں بائیس سال لگے تھے اب اس فیصلے پر نظرثانی کی پٹیشن کو فیصلے تک پہنچنے میں کتنا عرصہ لگتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا لیکن ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ شائد دو ہزار انیس یا بیس تک فیصلہ ہونا ممکن ہو سکے۔البتہ عوام ناتو پہلے اصل کیس کو بھولے تھے اور ناہی وہ اب نظرثانی کی درخواست کو بھول پائیں گے کیونکہ عوام چاہتے ہیں کہ اس کیس میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے، دودھ تو شائد نہ ہو پائے البتہ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ اس اہمیت کے اعتبار سے اس اہم کیس کو پانی پانی کردیا جائے۔
مہران بنک سکینڈل کیس کے کئی مرکزی کردار اور ملزمان اب اس دنیا میں نہیں رہے جن میں نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مصطفی جتوئی اور عبدالحفیظ پیرزادہ شامل ہیں اس نظر ثانی کی درخواست کے فیصلے تک کئی مزید اس دنیا سے رخصت ہو سکتے ہیں۔ لیکن ایف آئی اے کے پاس سنہری موقعہ ہے کہ وہ جاوید ہاشمی، الطاف حسین اور میاں برادران سے فیض یاب ہو کیونکہ پاکستان مین وقت بدلتے دیر نہیں لگتی نہ جانے کس وقت کیا صورتحال پیدا ہو جائے۔میں سپریم کورٹ کو ہدایات تو نہیں دے سکتا لیکن ان سطور کے ذریعے یہ اپیل کرسکتا ہوں کہ جناب چیف جسٹس صاحب ! اس کیس کے حوالے سے دائر نظر ثانی کی درخواست کو جلد از جلد سماعت کا شرف بخشا جائے تاکہ عوام میں پایا جانے والا ابہام دور کیا جاسکے ۔
میمو گیٹ سکینڈل کیس کی سماعت بھی بڑی دھوم دھام سے ہوئی جس سے ایوان صدر تک لرزتے رہے ،اس کیس کی آخری سماعت غالبا چار جون دوہزار چودہ کو سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بنچ کے روبرو ہوئی، اس روز عدالت عظمی نے حکومت پاکستان کے سکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ’’ حسین حقانی کو امریکہ سے وطن واپس لانے کے لیے تمام ضروری قانونی اور آئینی اقدامات کیے جائیں‘‘ جناب حسین حقانی پیپلز پارٹی کے ’’ زرداری دور حکومت‘‘ میں امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور ایک پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصوراعجاز نے ان پر الزمام لگایا تھا کہ انہوں نے امریکہ کے جنرل ایڈمرل مائیک مولن کو خط لکھا تھا کہ وہ پاکستان کی فوج پر دباؤ ڈالے کہ وہ آصف علی زرداری کی حکومت کا تختہ الٹنے سے باز رہے ۔ یہ دوہزار دس یکم مئی کی بات ہے جب امریکی فوج نے ایبٹ آباد کے نزدیک اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تھا۔
اس سکینڈل کو اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ لے کر گئے اور اس وقت ایسا سماں باندھا گیا کہ زرداری حکومت آج ہی رخصت کردی جائے گی، اور یہ بھی تاثر ابھارا گیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت وطن دشمن اورغدار ہے اور عوام کے قلب و اذہان میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی گئی کہ اس حکومت کا مزید برسراقتدار رہنا ملک اور قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔
حسین حقانی اس دنوں پاکستان میں موجود تھے اور ان کی گرفتاری کی بہت کوشش کی گئی لیکن وزیر اعظم ہاؤس اور ایوان صدر میں مقیم ہونے کے باعث قانون نافذ کرنے والے اداروں کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی،حسین حقانی اپنی وکیل عاصمہ جہانگیر کے ہمراہ متعدد بار سخت سکیورٹی کے حصار میں عدالت میں پیش بھی ہوئے ، حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے عدالت کے روبرو یقین دہانی کروائی تھی کہ عدالت عظمیٰ جب طلب کرے گی ان کا مؤکل عدالت کو دستیاب ہوگا، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی سربراہ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ کی اس تحریری یقین دہانی پر عدالت عظمی پاکستان کے نورکنی لارجر بنچ
کی جانب سے پاکستان کی حفاظت کے ذمہ دار اداروں کے نزدیک ملک دشمن حسین حقانی کو تیس اکتوبر دوہزار بارہ کوبالا آخر عاصمہ جہانگیر کی محنت سے عدالت نے انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی گئی۔ اجازت کا پروانہ ہاتھ لگتے ہیں حسین حقانی امریکہ اڑ گئے اور آج تک واپس پلٹ کر نہیں دیکھا، اور پاکستان کی تاریخ کا انتہائی پرفائل کیس عدالت عظمیٰ کی الماریوں میں پڑا دیمک اور دیگر کیڑے مکوڑوں کی خوراک بن رہا ہے۔ نہ پاکستان کی قومی سلامتی سے جڑے اس کیس کے مدعی کو اس کا خیال ہے اور نہ ہی ان حضرات کو اس کی فکر رہی ہے جن کی آشیرباد اور تھپکی سے میاں نواز شریف میمو گیٹ سکینڈل کو سپریم کورٹ لے کر گئے تھے۔
الحمد اللہ پاکستان پہلے سے کہیں زیادہ عزت وقار اورآبرو کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور ترقی و خوشحالی( بقول حکمران و سکیورٹی ادارے) کی طرف رواں دواں ہے لیکن میموگیٹ پٹیشن کے مدعی اس وقت ملک کے وزیر اعظم ہیں اور ان کے دائیں اور بائیں کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھنانے والے خواجہ محمد آصف سمیت تمام وزرا بھی اس وقت وفاقی کابینہ کے رکن بلکہ نواز شریف کے نورتنوں میں سے ایک ہیں، لیکن اب میمو گیٹ پٹیشن کے مدعی سمیت کسی کو اسکے منطقی انجام کی فکر اور غرض نہیں۔۔۔ امید ہے کہ اعلی عدلیہ مدعی اور مدعی کی پشت پر کھڑے ’’افراد‘‘کو تو اس کی فکر ضرور ہوگی اور ہونی بھی چاہیے، ان سطور کے ذریعے اس اہم پٹیشن کے مصنف اور اس کے پدرگرامی کی بھی اس جانب توجہ مبذول کرانا مقصود و مطلوب ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn