اخبار میں یک کالمی ایک اندرونی صفحے پہ خبر نظر سے گزری کہ فلاں جگہ ، فلاں علاقے ، فلاں تھانے کی حدود میں ، فلاں جناب اور ان کے کچھ ہمسائیوں کے گھر چوری ہوئی ۔ اور نامعلوم افراد اہل خانہ کو بے ہوشی کی کسی مخصوص دوا کے زیر اثر کر کے سب زیورات و نقدی سمیٹ کر چلتے بنے۔ شاید ایک عام سی معمول کی خبر سمجھ کر ہی اس کو بھی راقم نظر انداز کر دیتا اگر متاثرین سے ذاتی حیثیت میں مل نہ چکا ہوتا۔ خبر کی ایک اور خاص بات متعلقہ تھانے کے ایس ایچ اوصاحب کے نام کے ساتھ یہ بیان بھی تھا کہ اس طرح کی کسی بھی قسم کی واردات کی اطلاع یا درخواست نہیں دی گئی ۔ یعنی ان کے نزدیک ایسی کوئی واردات سرے سے ہوئی ہی نہیں ہے ۔
کم و بیش پچاس لاکھ یا اس سے کچھ اوپر نیچے کے نقصان پہ مبنی ڈکیتی کی اس واردات کو جس طرح ایک چھوٹی سی خبر بنا کر پیش کیا گیا ہے اس سے نہ صرف پولیس کی لاعلمی ظاہر ہوتی ہے بلکہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کا پردہ بھی چاک صاف نظر آتا ہے۔ صحافی حضرات شاید خبروں کے حصول کے لیے صرف خود کو تھانوں تک محدود رکھتے ہیں اور باقاعدہ خبر کے حوالے تک جانے کی زحمت نہیں کرتے ۔ اور خبر تو یہ یقیناًبنتی ہی نہیں کہ لٹنے والوں میں ایک ایسی بیوہ بھی شامل ہے جس کے کم و بیش ایک لاکھ تیس ہزار روپے وہ بھی ضرورت مند ڈاکوؤں نے نہ چھوڑے جو اس کو حالیہ رمضان الکریم میں صاحب ثروت لوگوں نے زکوٰۃ و فطرہ کی مد میں دیے تھے۔ اور اس کا ارادہ ایک پکا کمرہ بنوانے کا تھا۔ اور یقیناًیہ خبر اس لیے بھی پولیس و صحافیوں کی توجہ حاصل نہیں کر پائی کہ ایک غریب کی دونوں بیٹیوں و بہوؤں کے گہنے ایسے لوٹ لیے گئے جیسے لوٹنے والوں کے باپ کا مال ہو۔ اور خبر یقیناًاس لیے بھی کم اہمیت رہی کہ کسی غریب لڑکی کی شادی کے لیے رکھے گئے روپے بھلا کیوں اہم ہو سکتے ہیں۔
یہ تمام الف لیلوی داستان متاثرہ فریق نے بتائی ۔ پوچھا آپ نے پولیس کو مطلع کیا؟ جواباً چند خوبصورت پھول جیسے الفاظ سننے کو ملے کہ دوبارہ سوال کی جرات ہی نہ ہو پائی۔افسوس ہوا کہ وہ آج کے جدیدیت کے دور میں میں پرانے دور کے کھوجیوں کو یاد کر کے آئیں بھر رہے تھے۔ بقول ان کے کھوجی بناء کسی مدد کے بڑی سے بڑی واردات کا کھرا نکال لیتے تھے ۔ جب کہ آج پولیس کو سب بتایا کہ یہاں یہاں ڈاکو بیٹھے۔ یہاں چیزیں کھولیں۔ یہاں سے نکالیں۔ کھیت میں یہاں ان کے قدموں کے نشان ہیں۔ پھر بھی پولیس کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ لٹنے والوں میں ایک عزیز دوست بھی شامل تھے۔ افسوس کیا کہ تمہار ا بڑا نقصان ہوا۔ فکر نہ کرو پولیس کچھ نہ کچھ کرئے گی ۔ ان کے بجائے ان کے ساتھ بیٹھے ایک حکومتی کونسلر صاحب نے جواب دیا کہ کچھ نہیں ہو پائے گا۔ کونسلر صاحب کے بقول چند دن قبل ایک جھگڑے کی اطلاع پولیس ایمرجنسی پہ دی کہ تصادم کا خطرہ ہے کچھ نفری بھیج دیں۔ تو کال سننے والے موصوف بولے کہ ابھی تصادم ہوا تو نہیں نا جناب ۔ مجبوراً کونسلر صاحب نے سیاسی دباؤ استعمال کروایا تو آناً فاناً پولیس موبائل پہنچ گئی۔ ان حالات میں کیا واقعی ہم سیاسی مداخلت کے بناء کوئی بھی کام کروا سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
کوئی ایک شخص بگڑا ہو یا اس کے رویے میں خرابی ہو تو درست کرنا ممکن بھی ہوتا ہے۔ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہو وہاں درستگی صرف باقاعدہ صفائی مہم سے ہی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں جن اداروں کا کام عوام کا تحفظ تھا وہ چند نو دولتیوں یا پھر سیاستدانوں کی حفاظت پہ مامور ہیں۔ سنتے آئے تھے کہ پولیس کا ہے فرض، مدد آپ کی۔ اب حالات مختلف ہیں۔ عام آدمی پولیس سے دور بھاگتا ہے۔جن کے ٹیکسوں سے سیکیورٹی ادارے تنخواہ پاتے ہیں ان کو سوائے "اوئے” کے مخاطب ہی نہیں کیا جاتا ۔ اور جو ٹیکس چرانے کے نت نئے طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں ان کے آگے جی حضوری ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کا خاصہ بنتا جا رہا ہے۔ خدارا کچھ عام آدمی کی حالت پہ رحم کیجیے۔ سوال ہو گا تو جواب دینا مشکل ہو جائے گا۔
شاہد عباس کاظمی نوجوان کالم نگار ہیں۔ مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر کالم لکھتے ہیں۔ 100 لفظی کہانیاں بھی ان کی پہچان ہیں۔ ان سے فیس بک اور ٹوئٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn