Qalamkar Website Header Image

کشمیر میں بھارتی مظالم پر عالمی ضمیر کی مجرمانہ خاموشی

Anwar Abbas Anwar newمیرے چند دوست میری تیمارداری کے لیے غریب خانے پر تشریف لائے ، مزاج پرسی کے رسمی الفاظ کے تبادلے کے بعد پاکستان کے حالات حاضرہ سے بات کا آغاز ہوا اور مشرق وسطی اور ترکی سے ہوتی ہوئی ہماری شہ رگ تک بات جا پہنچی ، ایک دوست جو جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان کے باعث جماعتہ الدعوۃ فیم دیگر تنظیموں سے متاثر ہے نے مجھ سے پوچھا کہ کشمیر کب تک جلتا رہے گا ؟کیا یہ مسئلہ کبھی حل ہو بھی پائے گا یا یونہی وادی کے مرد و زن مرتے رہیں گے؟میں نے الٹا ان سے پوچھ ڈالا کہ بھئی آپ بتائیں کیونکہ آپ کو جہاد کے معاملات پر کافی عبورحاصل ہے آپ ہی کچھ روشنی ڈالیں اور ہماری معلومات میں اضافہ کیجیے اسی دوران میرے بچپن کا دوست ۔۔۔ بھی تشریف لے آیا اور ہمارے ساتھ شریک گفتگو ہوگیابات چیت کا سلسلہ بڑے انہماک کے ساتھ رواں دواں تھا کہ ۔۔۔ میرا ایک اور جگری دوست کرامت علی بٹ بھی موضوع گفتگو کا حصہ بن گئے چار پانچ منٹ بہت آرام و سکون سے ہماری بات سنتے رہے پھر گویا ہوئے کہ ’’ کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوگا، اور نہ ہی ہماری شہ رگ کشمیر جنت نظیر ہندو بنیا کے ظلم کے پنجوں سے آزاد ہوپائے گا؟‘‘پوچھا کہ کشمیر کیوں آزاد نہیں ہوگا؟ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک( پاکستان اور بھارت) کی اصل حکمران طاقتیں کشمیر کی آزادی میں حائل ہیں ، وہ کبھی نہیں چاہئیں گی کہ کشمیر پر سے انکا قبضہ و کنٹرول ختم ہو ،نہ پاکستان اپنے زیر اثر آزاد کشمیر کو اپنے کنٹرول سے آزاد کرے گا اور نہ ہی بھارت اپنے زیر تسلط مقبوضہ جموں وکشمیر کو اپنے سے الگ کرنے کا سوچ سکتا ہے۔
کرامت علی بٹ ۔۔۔جس کا سیاست سے دور و نزدیک کا بھی واسطہ نہیں اس کی بات میں وزن تھا، اور وہ بڑے وثوق اور اعتماد سے اپنی بات کہہ رہا تھا۔ایک غیر سیاسی اور غیر صحافی عام شخص کی اس قدر مدلل گفتگو سن کر ہم دوست گہری سوچ میں ڈوب گئے کہ ایک عام آدمی کس قدر ملکی اور غیر ملکی حالات پر نظر رکھتا ہے۔کشمیر کی آزادی کی باتیں تو بہت کی جا تی رہی ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے لیکن ابھی مشرف دور سے قبل ہم ٹی وی پر ’’کشمیر بناسپتی‘‘ کی کمرشل میں یہ فقرہ سنتے رہے ہیں کہ ’’کشمیر پر سمجھوتہ کبھی نہیں‘] لیکن کمانڈو جنرل مشرف کے دور حکومت میں نہ صرف اس کمرشل کو بند کردیا گیا بلکہ کشمیر بناسپتی کے ڈبوں اور پیکٹوں پر سے ’’ کشمیر پر سمجھوتہ کبھی نہیں‘‘ کے الفاظ بھی مٹادئیے گئے، اب ان الفاظ کی جگہ اور الفاظ نے لے لی۔۔۔ پاکستان میں برسراقتدارآنے والی لولی لنگڑی گونگی بہری کمزور ترین جمہوری حکومتوں(جو عسکری قوتوں اور خفیہ اداروں کی نظر میں غیر محب وطن ٹھہریں) کے ادوار میں کشمیر پر سمجھوتہ کبھی نہیں چلتا رہا لیکن ہمارے بہادر جنرل پرویز مشرف جنہیں اپنے کمانڈو ہونے کا بھی بڑا زعم تھا کے برسراقتدار آتے ہی کشمیر بناسپتی کے کمرشل ’’کشمیر پر سمجھوتہ کبھی نہیں ‘‘ پر پابندی لگ گئی گویا ہم نے کشمیر پالیسی پر یوٹرن لے لیا گو میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر ہم اس حقیقت سے انکاری رہے ہیں اور ابھی بھی انکاری ہی ہیں۔
کشمیر کب آزاد ہوگا؟ اور ہوگا بھی تو کس فارمولے کے تحت ہوگا؟ کیا کشمیر خورشید محمود قصوری کے بتائے ہوئے فامولے کے تحت آزاد ہوگا؟
خورشید محمود قصوری سے قبل میاں نواز شریف بھی یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ اگر انکی حکومت ختم نہ کی جاتی تو کشمیر کامسلہ حل ہوگیا ہوتا، خورشید قصور ی اور نواز شریف کے دعوؤں کے مطابق کشمیرکا مسئلہ حل ہوچکا ہوتا تو اسکی صورت کیا ہوتی۔مختلف ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق دونوں ( جنرل پرویز مشرف اور نواز شریف) کے ادوار حکومت میں پاک بھارت مذکرات کار اس بات پر متفق ہوئے کہ جیسا ہے اور جہاں ہے ، اور جس کا جس جس علاقے پر کنٹرول ہے اسے تسلیم کیا جائے،اور اس مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حل کردیا جائے۔ ایسا کیوں نہیں ہوسکا ؟ اور ہر بار مذاکرات سبوتاژ کیونکر ہو جاتے ہیں،سبوتاژ کرنے والی قوتیں کون ہیں اور کس کے اشارے پر ایسا کرتی ہیں، اس بات کا تعین کرنا سول حکومتوں کے بس کی بات نہیں۔۔۔ جمہوریت اور کشمیر کے حل کے لیے مذکرات کی چلتی گاڑیوں کو پٹری سے اتارنے والے خفیہ ہاتھ بڑے پاور فل ہیں،جو بھی ہاتھ ان کی جانب بڑھتا ہے یہ قوتیں وہ ہاتھ ہی کاٹ ڈالتی ہیں۔یا انہیں گڑھی خدا بخش بھٹو کے قبرستان میں دفن کر دیتی ہیں یا سدھڑی اور جدہ پہنچا دیتی ہیں۔
مسئلہ کشمیر کی عمر پاکستان جتنی ہی ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے پاک بھارت کئی جنگیں لڑ چکے ہیں اور ان جنگوں میں دونوں ممالک کا جتنا نقصان ہو چکا ہے اس سے دونوں ممالک اپنے اپنے عوام کے لیے برسوں کے سکھ چین کا بندوبست کرسکتے تھے لیکن ان جنگوں میں قیمتی جانوں کے ضیاع اور کھربوں روپے کے نقصان کے باوجود یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔
1965 کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی ذہانت، فہم و فراست، تدبراور اعلیٰ صلاحیتوں کو بروکار لاتے ہوئے عالمی برادری کے سامنے مسئلہ کشمیر کو پیش کرتے ہوئے اس نہج پر پہنچا دیا تھا کہ عالمی برادری نے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرکے بھارت کو متنبہ کیا کہ وہ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرے اور کشمیر کے عوام کو انکی مرضی کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کرے۔ عالمی برادری کی مسئلہ کشمیر پر حمایت کا سورج پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی اپنی حکومت کے اختتام تک نصف النہاررہا۔ افسوس یہ کہ بعد میں مارشل لا اور دیگر ادوار حکومت میں عالمی حمایت کی صورت پہلی جیسی نہ رہی اور بتدریج عالمی حمایت میں کمی واقع ہوتی رہی اور آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں (چین کو چھوڑ کر) بھارت کے موقف کو جائز سمجھ رہی ہیں۔
ایک جانب ہم عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر پر عالمی حمایت کھونے لگے تودوسری طرف بھارتی فورسز کشمیرکی آزادی کی تحریک کو کچلنے اور کشمیری عوام کی آواز کو دبانے کے لیے ظلم و بربریت کے بدترین ہتھکنڈے استعمال کرنے لگے۔ بھارتی فورسز کی کشمیر کے نہتے عوام کے خلاف ریاستی دہشت گردی اپنی انتہاؤں کو چھونے لگی ہے لیکن ہم ( مراد حکمران اور کشمیر کمیٹی) محض زبانی جمع خرچ سے ٓاگے جانے کو تیار و آمادہ نہیں ہیں ۔
کشمیر کمیٹی کے چئیرمین ابھی تک مسئلہ کشمیر اور کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کو عالمی فورمز پر اٹھانے کے لیے سوچ بچار کر رہی ہے۔ مولانا فضل الررحمن بتائیں کیا وہ اپنے اور اپنی جماعتی مفادات کے لیے اتنی سست روی اختیار کرتے ہیں؟ بھارتی حکومت تو مولانا فضل الررحمن اور انکے ہم عقیدہ یعنی جمیعت علمائے اسلام ہند کی آواز کو انتہائی توجہ سے سنتی ہے انہیں تو چاہیے کہ کشمیر کاز کے لیے اور کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دلوانے کے لیے جمیعت علمائے اسلام ہند سمیت تمام چینلز کو استعمال میں لائیں اور کشمیر جنت نظیر وادی کو جہنم بنانے پر تلی ہوئی بھارتی حکومت کو راہ راست پر لانے میں ہر حربہ کو آزمائیں ورنہ اگر ہم ایسے ہی کشمیر کشمیر کھیلتے رہے تو کشمیر کی آزادی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا ۔ اور ہم کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہ کر پائیں گیاور دنیا ہم پر ہنسے گی۔اس بات کی ضرورت ہے کہ حکومت پاکستان کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی امنگوں کے عین مطابق حل کروانے کے لیے مؤثر کشمیر کمیٹی تشکیل دے اور کسی ایسی شخصیت کو وزیر خارجہ مقرر کیا جائے جو عالمی سطح پر عالمی ضمیر کو بیدار کرنے اور انہیں مسئلہ کشمیر سمجھانے کی صلاحیتیں رکھتی ہو ۔وزیر اعظم نے تو ثابت کردیا ہے کہ وہ وزرات خارجہ کا قلمدان سبھالنے کے اہل نہیں ہیں۔

حالیہ بلاگ پوسٹس