پاکستانی کشمیر (آزاد جموں و کشمیر) میں ریاستی اسمبلی کے 21 جولائی کو ہونے والے انتخابات کے نتائج خلافِ توقع ہر گز نہیں۔ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ہمیشہ اسی جماعت کی جیت مسلمہ ہوتی ہے جس کی سرپرست جماعت اسلام آباد میں برسرِ اقتدار ہو۔ 2012ء میں ریاستی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی تھی تو مسلم کانفرنس کے بطن سے جنم لینے والی مسلم لیگ (ن) نے یہی کہا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ اب پیپلز پارٹی دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ دھاندلی دھاندلی کی تھاپ پر انگڑائیاں لینے اور الزام تراشی کی بجائے زمینی حقائق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ البتہ اگر کسی کو اصرار ہے کہ کشمیریوں نے چوروں کو مسترد کر دیا ہے تو انہیں اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورا جملہ کہنا چاہیے،’’کشمیریوں نے چوروں کو مسترد کرکے ڈاکوؤں کی عملداری قبول کر لی‘‘۔حالیہ انتخابات کا جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نے حسب سابق بائیکاٹ کیا۔ اس بائیکاٹ کی وجہ 1974ء کا وہ بدنامِ زمانہ ایکٹ ہے جس کے تحت آزاد کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نظریۂ پاکستان اور الحاقِ پاکستان پر یقین رکھنا لازمی امر ہے‘‘۔ اصولی طور پر یہ ایکٹ تنازعہ کشمیر کی بنیادی روح کے منافی ہے۔ 1970ء کی دہائی میں جب یہ بدنامِ زمانہ قانون بنایا گیا تھا اس وقت پاکستان میں قبضہ گیری کی سوچ کے مالکان اور آزاد کشمیر میں جھولی پیڑ کے نام نہاد مجاہداول سردار عبدالقیوم خان جموں و کشمیر محاذ رائے شماری نامی جماعت سے خوفزدہ تھے۔ محاذ رائے شماری والوں کا مؤقف تھا کہ دونوں طرف کا کشمیر متنازعہ ہے۔ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا آزادانہ حق ملنا چاہیے۔ آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محاذ رائے شماری اور جموں و کشمیرلبریشن فرنٹ دونوں ایک خود مختار کشمیری ریاست کے قیام کو اپنی جدوجہد کا مقصد سمجھتے ہیں۔ جب وہ خود مختار کشمیر کی بات کرتے ہیں تو اس میں گلگت بلتستان شامل ہوتا ہے۔ گلگت و بلتستان کی اسمبلی جب سے معرضِ وجود میں آئی ہے وہاں بھی انتخابی نتائج اسلام آباد کی حکمران جماعت کے نصیب سے جڑے ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ایک متنازعہ علاقے میں حقِ خود ارادیت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے قانون کا نفاذ انسانی حقوق، جمہوریت اور خود تنازعہ کشمیر کے حوالے سے درست ہے؟ آسان ترین جواب یہ ہے کہ قانون بنانے والوں کی نیت میں کھوٹ تھا۔ مقصد یہ تھا کہ محاذ رائے شماری کو انتخابی سیاست کے میدان سے باہر رکھا جائے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ اولاََ اولاََ محاذ رائے شماری کا عسکری ونگ ہی تھا۔ فرنٹ کے بانیوں شہید مقبول بٹ، امان اللہ خان مرحوم اور دیگر رہنماؤں کا سیاسی تعلق محاذ رائے شماری سے ہی تھا۔ 1970ء کی دہائی میں آزاد کشمیر میں نوجوان نسل محاذ رائے شماری کے خود مختار کشمیر کے نعرہ سے متاثر تھی۔ اسلام آباد اور مظفر آباد کے حکمرانوں نے اس کا علاج اس قانون کے ذریعے کیا جس کا تذکرہ بالائی سطور میں ہو چکا ہے۔ اس قانون کا اطلاق اعلیٰ ریاستی ملازمتوں پر بھی ہوتا ہے۔ ہم آگے بڑھتے ہیں۔ ریاستی اسمبلی کے حالیہ انتخابی نتائج سیاسیات کے طالب علموں کے لئے کچھ زیادہ حیران کن ہر گز نہیں البتہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے سدا بہار سیاست دان کہلانے والے بیرسٹر سلطان محمود کی شکست نے میرپور کی سیاست سے مرحوم نور حسین کے خاندان کی سیاست کا خاتمہ کر دیا۔ چودھری نور حسین آزاد جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سربراہ تھے۔ بیرسٹر سلطان محمود ان کے فرزند ہیں۔ نصف درجن سے زیادہ بارسیاسی محبت و اطاعت کا مرکز تبدیل کرنے والے سلطان محمود ان دنوں تحریکِ انصاف آزاد کشمیر کے سربراہ ہیں۔ دیکھا جائے تو 1974ء کے ایکٹ نے ہی پاکستانی کشمیر میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے قیام کی راہ ہموار کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں جتنی بھی پاکستانی سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں ان کے قائدین کی مدر پارٹی آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ہی ہے۔ پاکستانی جماعتوں کے متنازعہ ریاستی حصہ میں قیام سےتحریکِ آزادی کو دوام ملا یا نہیں یہ ایک الگ موضوع ہے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ 1970ء کی دہائی سے قبل جس آزاد کشمیر کو کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کا بیس کیمپ سمجھا جاتا تھا 1970ء کے بعدوہاں لوٹ مار، اقربا پروری اور برادری ازم کو دوام حاصل ہوا۔ پیپلز پارٹی، جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے اسلام 1970ء کی دہائی میں ہی آزاد کشمیر میں معرضِ وجود میں آئیں۔ ان تینوں جماعتوں کے قیام نے دوسری پاکستانی جماعتوں کے لئے آزاد کشمیر میں اپنی ذیلی شاخیں قائم کرنے کا دروازہ کھولا۔ کچھ دن نیشنل پیپلز پارٹی بھی دو چار قدم چلی۔ آزاد کشمیر کے ایک فوجی صدر بریگیڈئیر حیات نے ایک زمانہ میں اپنی مسلم لیگ بنوائی تھی۔ موجودہ مسلم لیگ (ن) مسلم کانفرنس میں قیادت کے تنازعہ پر الگ ہونے والے دھڑے نے قائم کی۔ سردار سکندر حیات، فاروق حیدر اور چند دیگر لوگ نمائیاں تھے۔ آزاد کشمیر کی سیاست میں نظریہ کبھی اہم نہیں رہا۔ جھولی پیٹر کے سردار قیوم ہوں یا سدھن برادری کے مرحوم سردار ابراہیم خان یا پھر لبریشن لیگ والے مرحوم کے ایچ خورشید، سبھی کی سیاست اپنی ذات کے گرد گھومی اور چلتی رہی۔
پاکستانی کشمیر کی سیاست میں ڈرامائی تبدیلی کی توقع کبھی اس لئے نہیں کی گئی کہ اسلام آبادکے نامزد کردہ چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس ہی ریاست کے اصل حکمران سمجھے جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے نامزد کردہ یہ دونوں منصب دار قانون کے مطابق فرائض ادا کرنے کی بجائے اسلام آباد کے مفادات کے تحفظ کرتے ہیں۔ یہی 68سال کی تاریخ ہے۔ البتہ حالیہ انتخابات کے بعد بڑھکیں مارنے والے، جو پی پی پی کے دور میں آزادکشمیر کو عذاب کشمیر کہتے لکھتے تھے اب محض برادریوں کی سیاست سے عبارت مسلم لیگ ن کا دفاع ہی کرتے رہیں گے، کا کہنا کہ کشمیریوں نے الحاق کے نظریہ کو یاصاف ستھری قیادت کے حق میں فیصلہ دیا ہے درست اس لئے نہیں کہ الحاق کا نظریہ بندوق اور 1974ء کے ایکٹ کے زور پر مسلط ہے۔ اس ایکٹ کو آج تایخ کے کوڑے دان کا رزق بنا دیجئیے۔ کل الحاق کے نظریہ کی اصل اوقات سامنے آجائے گی۔ البتہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پیپلز پارٹی حالیہ الیکشن میں 5 سے 7 سیٹیں لے سکتی تھی مگر اپنی ناقص کارکرگی، کارکن کشی اور وزراء کی اقربا پروری اسے لے ڈوبی۔ تحریکِ انصاف گو ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں پہلی بار میدان میں اتری مگر اس کے لیڈران کرام دودھ پیتے بچے ہر گز نہیں تھے۔ ریاست کے اندر سے تو اسے کوئی نشست نہ مل پائی البتہ پاکستانی پنجاب اور کے پی کے میں مہاجرین کے لئے مختلف نشستوں میں سے دو اس کے حصہ میں آئیں اور ان میں اہم ترین سیٹ لاہور سے ہے۔ جسے مسلم لیگ (ن) جاتی امراء کے باجگزاروں کا شہر سمجھتی ہے۔ جماعت اسلامی نے اپنی سیاست کی کمائی اپنے امیر رشید ترابی کے لئے ٹیکنو کریٹ نشست پر مسلم لیگ (ن) سے سمجھوتہ کر کے جاتی امراء کے دستر خوان پر ڈال دی تھی۔ اس کے کشمیری اور بعض پاکستانی رہنماؤں کا یہ دعویٰ کہ مسلم لیگ (ن) کی جیت ہماری مرہون منت ہے بھونڈے مذاق اور لطیفے کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ آزادی کشمیر کی سیاست میں جماعت اسلامی ہمیشہ طفیلی جماعت ہی رہی ہے۔
مکرر عرض کروں گا کہ آزاد کشمیر کی سیاست میں نظریہ نہیں۔ اسلام آباد کی حکومت کو اہمیت ہوتی ہے۔ نظریاتی سیاست کا دوردورہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک 1974ء کا کالا قانون موجود ہے۔ اس ایکٹ کے خاتمے پرہی سیاست کے میدان میں دونظریات سامنے آئیں گے، الحاقِ پاکستان اور خودمختار کشمیر۔ یہ تحریر لکھ رہا تھا کہ پاکستانی وزیرِ اعظم کے مظفرآباد میں جشنِ فتح کے جلسہ سے تقریر کے الفاظ سنائی دیئے۔ وہ کہہ رہے تھے بھارت مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی اور جبروستم بند کرے۔ کیا عجیب بات ہے اسلام آباد کی طاقت اور 1974ء کے متنازعہ ایکٹ کے زور پر یکطرفہ انتخابات رچوانے والے بھارت کو جبروستم کا طعنہ دے رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہی وزیراعظم بلوچستان میں فوجی آپریشن اور سندھ میں رینجرز کے یکطرفہ حملوں بارے سوالات کا تسلی بخش جواب دینے سے آنکھیں چراتے ہیں۔ لاریب بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن کیا پاکستان میں ان کی جماعت اور بعض ادارے کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کر کے ویسے ہی جرائم کے مرتکب نہیں ہو رہے؟کشمیریوں کو ان کی امنگوں کے مطابق حقِ خودارادیت ملنا چاہیے۔ اور حقِ خود ارادیت دونوں اطراف کے کشمیریوں کا بنیادی حق ہے۔ لیکن کشمیر کا مقدمہ لڑنے والوں کو پاکستان کے بائیس کروڑ لوگوں کو اس سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کہ بعض آئینی اکائیوں (صوبوں) کے ساتھ مقبوضہ علاقوں جیسا برتاؤ کیوں کیا جا رہا ہے۔ کالے قانون کی تلوار لٹکا کر پچھلی ساڑھے چار دہائیوں سے من پسند انتخابی نتائج حاصل کر کے اسلام آباد نے کشمیریوں کی کیا خدمت کی۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینے سے اسلام آباد ہمیشہ گریزاں رہا۔ صاف سیدھا سچ بولنے کی ہمت اسلام آباد کے کسی حکمران میں نہیں کیونکہ طاقت اور فیصلوں کا اصل مرکز اسلام آباد سے چند کلومیٹر دور ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn