اگر مسلم لیگ کے تمام دھڑوں میں انضمام ہو گیا تو کیا ہوگا؟ مسلم لیگ رن آؤٹ ہو جائے گی۔ انضی اکثر رن آؤٹ ہوئے مگر ورلڈ کپ1992میں جنوبی افریقہ کے خلاف جونٹی رہوڈز کے ہاتھوں رن آؤٹ ہونا شہرت پا گیا۔ انضمام الحق بتاتے ہیں کہ اس آؤٹ سے پہلے میں نے شاٹ کھیلا ۔ دوسری طرف عمران خان تھے ۔ وہ رن لینے دوڑے ۔ میں نے کہا ، ویٹ ویٹ ۔ یہ سن کر عمران بھائی میرے پاس آئے اور غصے میں کہا ، رن بناؤ ۔ کیا ویٹ ویٹ کر رہے ہو ۔ دو بالوں کے بعد میں نے پھر شاٹ کھیلا اور رن کے لیے بھاگا تو عمران بھائی نے کہا ۔ ویٹ ویٹ ۔
ہمارے کرکٹ بورڈ نے انضمام الحق کو چیف سلیکٹر بنا دیا ہے بورڈ نے اپنی ہی ٹیم پر آلو رکھ دیا ہے۔
شاہد آفریدی نے گزشتہ جشن آزادی پر بہت بڑی شخصیت کو باؤلنگ کرائی ۔ انہوں نے زور کا شاٹ مارا مگر رن نہیں بنایا ۔ اس خیال سے نہیں کہ وہ رن آؤٹ نہ ہو جائیں ۔ انہیں کون رن آؤٹ کر سکتا ہے ۔ گیند باؤنڈری لائن پار کر گئی ۔ چوکا ہو گیا۔ بو م بوم ان سے ملاقات بھی کر چکے ہیں ۔ عظیم کرکٹر اور باؤلر تو عمران خان ہیں ۔ وہ کبھی کسی ایسی بڑی شخصیت سے نہیں ملے نہ انہیں ملنے کی ضرورت ہے وہ تو سب سے ملے ہوئے ہیں۔
ٹیسٹ کرکٹ میں 1960میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان جو ٹیسٹ کھیلا گیا وہ ٹائی ہونے والا پہلا ٹیسٹ تھا اس میں آخری وکٹ پر آسٹریلیا کو 1رن درکار تھا۔ آٹھ گیندوں کے اوور کی دو گیندیں باقی تھیں ۔ ساتویں بال پر آسٹریلیا کی آخری وکٹ رن آؤٹ ہو گئی اور یوں یہ میچ برابری (Tie)پر ختم ہو کر تاریخ کا حصہ بن گیا ۔
1999میں دو رن آؤٹ بہت مشہور ہوئے ۔ ورلڈ کپ سیمی فائنل میں آسٹریلیا اور ساؤتھ افریقا کے درمیان میچ کے آخری اوور میں جنوبی افریقاکو9رنز درکار تھے ۔آخری وکٹ کھیل رہی تھی۔ اس ورلڈ کپ کے ہیرو کلوزنر سامنا کر رہے تھے ۔ پہلی دو گیندوں پر دو چوکے لگا کر انہوں نے اسکور برابر کر دیا ۔ تیسری بال پر ایلن ڈونلڈ دوڑے مگر کلوزنر وہیں کھڑے رہے ۔ ڈونلڈ بہت بڑا رن آؤٹ ہونے سے بچے ۔ چوتھی بال پر کلوزنر بھاگے ۔ وہ جب ڈونلڈ کے قریب آئے تب وہ دوڑے اور رن آؤٹ ہو گئے ۔ میچ ٹائی ہو گیا ۔ آسٹریلیا فائنل میں پہنچا جہاں اس نے ہماری ٹیم کو ورلڈ کپ فائنل کے کم ترین اسکور پر آؤٹ کر دیا ۔ ہماری ٹیم کے کم اسکور کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ہمارے سارے کھلاڑیوں کی شرٹ پر بڑا سا سبز ستارہ بنا ہوا تھا ۔ اسی سال تیرہ سال کے بعد ہماری ٹیم انڈیا گئی۔ کولکتہ ٹیسٹ کی آخری اننگ میں وسیم اکرم کی بال پر ٹنڈولکر نے مڈ وکٹ کی جانب شاٹ کھیلا ۔ ندیم خان نے عمدہ تھرو کی جو براہِ راست وکٹوں کو لگی ۔ سچن کریز میں پہنچنے ہی والے تھے کہ شعیب اختر سے ٹکرا گئے ۔ امپائر بکنر نے اپنی جان بچاتے ہوئے فیصلہ ٹی وی امپائر کو دیا۔ جس میں ٹنڈولکر کو رن آؤٹ قرار دیا ۔ پھر کیا تھا۔ تماشائیوں نے ہنگامہ کھڑ اکر دیا۔ ٹنڈولکر نے گراؤنڈ کا چکر لگا کر سب کو پر امن رہنے کی تلقین کی مگر مجمع نہ مانا ۔ بالآخر اسٹیڈیم کو تماشائیوں سے خالی کروا کر میچ کروایا گیا ۔ پاکستان کو فتح نصیب ہوئی۔
بے نظیر بھٹو اور وسیم اکرم دونوں جون کے مہینے میں پیدا ہوئے۔ دونوں پر قیادت کرنے کی پابندی لگی۔ دونوں کے خلاف تحریک عدم اعتماد آئی ۔ جس دن بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف تحریک لائی گئی ۔ اس روز کراچی کے صبح کے ایک اخبار نے یہ خبر لگانے کی جسارت کی۔ سرخی تھی ’’آج دو فائنل ہوں گے‘‘ مزید لکھا تھا آج دو فائنل ہوں گے پہلا فائنل اسلام آباد میں بے نظیر بھٹو کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد اور دوسرا کلکتہ میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان نہرو کپ کا فائنل کھیلا جائے گا جو ٹی وی پر براہِ راست دکھایا جائے گا جب کہ اسلام آباد میں ہونے والے فائنل کی ریکارڈنگ دکھانے کا بھی کوئی امکان نہیں۔
بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی۔ ایڈن گارڈن کلکتہ میں وسیم اکرم نے فائنل کے آخری اوور میں ووین رچرڈز کی گیند پر چھکا لگا کر پاکستان کو جتوایا ۔ شام کو کسی جیالے نے اس اخبار کے دفتر فون کر کے کہا ۔ مبارک ہو ، دونوں فائنل کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہو گیا۔جب وسیم اکرم کے خلاف ٹیم کے اکثر کھلاڑیوں نے عدم اعتماد کا اظہار کیا تو وہ کامیاب ہو گئے ۔جس سے وسیم اکرم کے گھر کا پانی بند ہو گیا اور انہیں کپتانی سے ہاتھ دھونے پڑے۔شہید رانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے پچھواڑے دماغ نے اپنا کام جار ی رکھا اور بہت جلد پانچ سالہ مدت کو بیس ماہ میں ہی رن آؤٹ کر دیا گیا۔
سابق انڈین کپتان بشن سنگھ بیدی کسی کے مہمان تھے ۔ میزبان نے کہا ٹھنڈا گرم؟ کیا لیں گے۔ بیدی نے کہا، ہم تو خالصتان لیں گے ۔ سابق بھارتی کپتان سے موجودہ زمانے کے نمبر ون اسپنر مرلی دھرن کے بارے میں پوچھا گیا کہ ٹیسٹ کرکٹ میں آٹھ سو وکٹیں لینے والے باؤلر کے لیے آپ کیا کہیں گے ؟ بشن سنگھ بیدی نے جواب دیا کہ مرلی دھرن تھرو کرتاہے ۔ وہ آٹھ سو وکٹیں نہیں ، آٹھ سو رن آؤٹ ہیں۔
سازش کے ذریعے بھی رن آؤٹ کروایا جاتا ہے ۔ قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ یہ سن کر پارٹنر اس کی طرف دوڑتا ہے۔ بلانے والا ذرا آگے بڑھتا ہے اور رک جاتاہے اور ساتھ والا بھاگتا چلا آتا ہے یہ دیکھ کر بلانے والا اپنی وکٹ بچاتا ہے اور پارٹنر رن آؤٹ ہو جاتا ہے ۔ہمارے سیاست دان اس لیے بھی رن آؤٹ ہوتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ۔
17مارچ کی تاریخ پاکستان کرکٹ میں یاد رکھی جائے گی ۔1996میں اس تاریخ کو لاہور میں ورلڈ کپ کرکٹ کا فائنل کھیلا گیا ۔ 17مارچ2007کو ویسٹ انڈیز میں کھیلے گئے عالمی کپ میں انضمام الحق کپتان تھے ۔ ہماری ٹیم کو جہاں تک پہنچنا تھا اس سے پہلے وہ آئر لینڈ سے شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔ کہا گیا انضی نے اس بار پوری ٹیم کو رن آؤٹ کرا دیا ۔ اگلے روز ٹیم کے کوچ عظیم باب وولمر اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائے گئے ۔ 9سال گزر گئے ابھی تک ان کی یہ موت معمہ بنی ہوئی ہے ۔ رن آؤٹ میں اپنی غلطی ہو تو خود کشی کہلاتی ہے ۔ تنخواہ دار کوچ اسکول ، کلب یا قومی ٹیم کا ہو کھلاڑیوں کی حماقتوں کی سزا کوچ کو بھگتنا پڑتی ہے۔ وہ اسے دل پر لے لیتا ہے ۔ ورلڈ کپ میں ہونے والی اس شکست پر تبصرہ کیا گیا کہ ہماری ٹیم ایک اسکول ٹیم کی طرح کھیلی جس پر اسکول کی ٹیموں نے برا منایا۔
ایک اسکول ٹیچر اپنی ٹیم کو سمجھاتے ہوئے بولے، دیکھو بھئی ،ہر طرح سے آؤٹ ہو جانا ،رن آؤٹ مت ہونا ۔ جو رن آؤٹ ہوتا اُسے وہ مرغا بناتے ۔ بچے پھر بھی رن آؤٹ ہو تے رہے۔ کسی نے سمجھایا مرغا بنانے سے کچھ نہیں ہوگا ۔ یہ تیز دوڑیں گے تو رن آؤٹ کا امکان کم ہوگا ۔بچو ں کو گھوڑا بنائیں ۔ ٹیچر نے مشورے پر عمل کیا ۔ بچوں کو گھوڑا بنانا شروع کر دیا ۔ پھر بچے بھاگنا شروع ہو گئے۔
اکثر میچوں میں شاندار فیلڈنگ کی بدولت بھی کھلاڑی رن آؤٹ ہو کر اپنی وکٹ سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔ بعض اوقات بارہواں کھلاڑی عمدہ فیلڈنگ کرتے ہوئے کئی اچھے بلے بازوں کو رن آؤٹ کر دیتا ہے ۔ بارہویں کھلاڑی کا کام صرف فیلڈنگ کرنا ہوتا ہے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے میدا ن میں اترنے کا موقع ملے اور وہ اپنے جوہر دکھائے ۔ انہی خیالات کو افتخار عارف نے اپنی نظم ’’بارہواں کھلاڑی‘‘ میں پیش کیا ہے مگر ایک سال تک یہ قانون رہا کہ بارہواں کھلاڑی بیٹنگ یا باؤلنگ بھی کر سکتا ہے ۔ جب تک یہ قانون رہا افتخار عارف کی نظم معطل رہی ۔
وقار یونس اور وسیم اکرم کی کبھی نہیں بنی ۔ وقار شادی کر کے اپنی بیگم کو آسٹریلیا لے گئے تو سوئنگ کے سلطان آسٹریلیا سے بیوی لے آئے ۔ وسیم اکرم کی ابھی تک یہ دوسری شادی ہے ۔ پہلی کے انتقال پر تعزیت کے لیے ایک مذہبی جماعت کے امیر وسیم اکرم کے گھر گئے ۔ انہیں کرکٹ سے بڑا لگاؤ ہے ۔ یہ کھیل صبر ، برداشت، رواداری سکھاتاہے ۔ شکست کو قبول کر کے آپ جیتنے والے کو مبارک باد دے رہے ہوتے ہیں ۔ پھر نہ جانے کیوں امیر صاحب نے ان لوگوں کو ہیرو قرار دیا جو ان صفات سے عاری ہیں ۔ وہ صحت مند ہوتے ہوئے اپنی جماعت کے واحد امیر ہیں جوامارت سے الگ کیے گئے گویا رن آؤٹ ہو گئے۔
شرک کے علاوہ سارے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ فری ہٹ ملنے پر رن آؤٹ معاف نہیں ۔ رن آؤٹ سے بچنے کے لیے اپنی تیز رفتاری کے ساتھ ساتھ اپنے پارنٹر کے ساتھ ہم آہنگی اور اس کی رفتار کو بھی مدِ نظر رکھنا پڑتا ہے۔ ساتھ والا اگر وزن میں بہت بھاری اور دوڑنے میں ہلکا ہے تو آپ سلو رننگ کریں گے ۔ اس سے تیز دوڑنے کی امید نہیں رکھیں گے وکٹوں کے درمیان دو اچھے دوڑنے والے بھی رن آؤٹ ہو جاتے ہیں ۔ کبھی کسی ایک کو قربانی بھی دینی پڑتی ہے ۔
ضروری نہیں کہ کیپری کون اسٹار والے سب ہی ذہین ہوں اور یہ بھی لازمی نہیں کہ جو نام رکھے جائیں وہ بچوں پر اثر انداز ہوں ۔ حسن، حسین ، مریم ۔ معصوم و مقدس نام ہیں جو پہلے دو بار رن آؤٹ ہو چکا ہو اور جس میں دوسروں کا ہاتھ کم اور ان کی اپنی غلطیاں زیادہ تھیں جس میں ایک بار 99پر بھی رن آؤٹ ہونا شامل ہو ۔ اس بار بچوں کی وجہ سے وہ رن آؤٹ ہو سکتے ہیں ۔ جوان بچے ہیں ۔ رن آؤٹ کو جوانی کی موت بھی کہا جاتا ہے۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn