آج سوویت یونین کے جواں مرگ شاعر مایاکوفسکی کی برسی ہے اور مجھے عشق و مستی میں ڈوبا یہ شاعر ہمیشہ سے بہت پسند رہا ہے جس کے مرض کا علاج وید و حکیموں کے پاس نہیں تھا ۔اس سے ماریہ نے چار بجے ملنے کا وعدہ کیا تھا لیکن شام جب اس کی کھڑکیوں سے منہ موڑ رات میں بدل کر گہری تاریکی میں بدل گئی اور وہ نہ آئی تو اسے اس ملیریا نے حواس باختہ کرڈالا جسے وہ ذرا اہمیت نہیں دیتا تھا ۔
اسے کون سا روگ لاحق ہوگیا تھا جس نے اسے عشق میں اور تپ کر کندن بننے کی بجائے اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے پہ اکسا ڈالا تھا جبکہ اس کی یہ شعری لائنیں تو کچھ اور ہی پیغام دے رہی تھیں
خودکشی کیوں بڑھتی جاتی ہیں
بہتر ہے ہم روشنائی کے سفر کو تیز تر کردیں
یہ سطریں جارجیائی ادیب مایاکوفسکی نے انیس سو چھبیس میں ایک ساتھی شاعر کی خودکشی پہ لکھی تھیں اور چار سال گزرے تھے کہ مایاکوفسکی نے خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی ۔مایاکوفسکی نے جب خودکشی کی تھی تو اس وقت وہ سوویت یونین کی سرکار کا ایک چہیتا شاعر تھا اور اسے سوویت عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی۔مایاکوفسکی نے یہ خودکشی آج کے دن 19 جولائی 1930 میں کی تھی ۔
مایاکوفسکی نے اپنی نظمیں ‘ اے سلیپ آن پبلک ٹیسٹ ´ کے عنوان سے شائع کی تھیں۔ جس سے اس کے مزاج اور نظریہ فن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مایا کی شاعری سے جب میں پہلے پہل واقف ہوا تو مجھے ایسے لگا جیسے یہ سب کچھ تو میں کہنا اور لکھنا چاہتا ہوں جو کمبخت مایا لکھ رہا تھا مرے اس دنیا میں آنے سے کئی عشروں پہلے ۔
مایا کی ایک نظم ہے ´ ایک بجے دوپہر ´ جس میں وہ اپنی محبوبہ کے بارے میں بات کرتا ہے ، یہ خودکلامی سی ہے اور اس کا آغاز یوں ہوتا ہے ۔
وہ مجھ سے پیار کرتی ہے
کیا نہیں کرتی
مگر ابھی تک آئی کیوں نہیں
یہ شش و پنج کی کیفیت ، رجاء و خوف کا ماحول مجھے بہت مانوس سا لگتا ہے ۔
سوچنے کی بات ہے کہ وہ جو خودکشی کے موسم سے نجات کا راستہ بتانے والوں میں سے تھا کیسے صرف چار سال میں اپنی زندگی سے اوب گیا اور خود کو گولی مار لی ۔کیسے چار سالوں میں اس نے روشنائی کو بڑھانےکی بجائے اپنے ہی لہو سے سرخی کو پھیلادیا ۔
اس کی نظمیں ہمیں بتاتی ہیں کہ وہ ہمیشہ سے شاعری کی نغمگی اور اپنے اندر کی مزاحمت سے پیدا ہونے تضاد سے نبرد آزما رہا ۔
اس کی نظم ´ اے کلاؤڈ ان ٹراوزر ‘ اس تضاد سے پیدا صورت حال کی بہت ٹھیک عکاسی کرتی ہے ۔
تم کیا یہ سمجھتے ہو
ملیریا مجھے حواس باختہ کرتا ہے
یہ واقعہ ہوگیا تھا
Odessa
میں یہ ہوگیا تھا
ماریہ نے مجھے وعدہ کیا تھا
میں شام چار بجے آؤں گی
8:00
9:00
10:00
پھر شام نے کھڑکیوں کی اور سے منہ موڑا
اور گہری رات میں بدل گئی
تیوری چڑھائے ہوئے رات دسمبر والی
مری ضعیف و ناتواں کمر پہ
شوخ سی قندیل گھپ اندھیرے میں روتی بسورتی شکل میں بدل جاتی ہے
تم اب مجھے پہچان نہیں پاؤگے
مال کی فروانی سے
کراہتے ہوئے
لکھتے ہوئے
ایسی سرد خواہش کوئی اور بھی ہوتی ہے کیا
اگرچہ سرد تو اور بھی کئی چیزیں ہوتی ہیں
یہ جوذات کا پندار ہے
یہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا
چاہے کوئی سکہ ہو کانسی کا
یا دل اس کا لوہا
رات کو ذات کا پندار
خواہش کرتا ہے
اپنی جھنکار کو عورت کی نرمی میں گم کردے
اور اس طرح بہت زیادہ
میں کہنی لگائے کھڑکی کے ساتھ کھڑاہوں
مری ابرو نے شیشے کو پگھلادیاہے ۔
کیا ہوگا ۔۔۔۔۔کیا مجھے محبت ملے گی یا نہیں
محبت نصیب جو ہوگی وہ کیا طویل ہوگی یا چند منٹوں پہ محیط ہوگی ۔
یہ نظم طویل ہے اور اس نے اسے تین حصوں میں لکھا تھا اور اس کے ذہن کی بھرپور عکاسی کرتی ہے ۔شکیب نے بھی تو یہی کیا تھا جب اس کا فن عروج پہ تھا تو ایک دن اس نے بھی ٹرین کے آگے سرپٹک کر خودکشی کا راستہ اختیار کرلیا تھا ۔یہ جو اپنے ہاتھوں سے خود کو ختم کرنے کی روش خلاق دماغوں میں نظر آتی ہے اس کا ٹھیک ٹھیک تعین کرنا بہت مشکل ہے ۔مگر ایک بات طے ہے کہ لایعنیت اور مہملیت کا موسم جب بہت گہرا ہوجاتا ہے تو پھر ذہانت کا سورج غروب ہونے میں دیر نہیں لگتی ۔مجھے نجانے کیوں گورنمنٹ کالج لاہور کاذہین طالب عالم نوجوان شاعر ‘ق’ یاد آرہا ہے جس کی شفتگی کا ایک زمانہ گواہ تھا اور جینے کی آس وہ دلایا کرتا تھا اور سب کی ڈھارس بندھوانے والا آدمی تھا مگر ایک دن اس نے خودکشی کرلی مجھے نہیں پتہ وہ کون سا لمحہ تھا جب اس نے اپنے امید پرست نظریات سے رجوع کرلیا تھا ۔ پیا ر کا انکار اور انحراف اس کا سبب بنا تھا یا زندگی کی معنویت کے لایعنیت میں بدلنے پہ اس نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیا تھا ۔ ق کہتا تھاکہ جگر فراق میں کباب ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس فراق سے فرار کی تلاش میں موت کو گلے لگانے کی سمجھ نہیں آتی ۔اور جس دن میں نے ہاسٹل کے کمرے کے پنکھے سے اس کی ٹنگی لاش دیکھی تھی تو چاہتا تھا کہ اس سے پوچھوں کہ فراق سے فرار کی تلاش میں موت کو گلے لگانے کی منطق تمہیں سمجھ آہی گئی تھی تو کم از کم مجھے تو بتاکرجاتے ۔ہوسکتا تھا کہ جب میں ناامیدی کی انتہا کو چھوتا تو اس منطق کے سہارے موت کو گلے لگالیتا
قسمت کی بات ہے جب سب سورہے تھے اور ماسکو کی سڑکیں ویران تھیں تو ولادیمیر مایافوسکی نے خودکشی کا انتہائی دردناک راستہ اختیار کیا ۔اس نے پستول سے سر پہ گولی ماری اور دماغ کی کشاکش کو لہولہان کردیا اور ق نے بھی گردن کی رگوں اور منکے کی ہڈی کو توڑ کر دماغ کی موت واقع کی تھی اور شکیب نے بھی پہلے سر ٹرین کے سامنے ڈالا تھا ۔مجھے لگتا ہے کہ اپنے شعور کے خلاف بھی ایک احتجاج تھا جس نے ان کو بہت تنہا کردیا تھا ۔مایافوسکی کی زندگی میں کئی عورتیں آئیں لیکن یہ ماریہ اس کے ذہن سے نکالے نہیں نکلتی تھی اور اس کا وعدہ اس کی جان نہیں چھوڑ رہا تھا اور ق کو بھی ر کا وعدہ لے کر بیٹھ گیا تھا ۔اب یہ ضروری تو نہیں کہ ہر ایک کی ہجرت کو مدینہ ملے اور ہرسارتر کو سیمون دی بووار مل جائے اور ہر فیض کو اس کی ایلیس مل جائے ۔مایافوسکی کو بھی اس کی ماریہ نہ ملی تو اس کی پہلے سے جہنم بنی انٹلیکچوئل لائف اور جہنم بن گئی اور اس نے اس کا تدارک اپنے قلم سے اور تخلیق کرنے کے ذریعے کرنے سے انکار کردیا اور محض36 سال کی عمر اس دنیا سے رخصت ہوگیا جب کہ اس کے شعر دل ودماغ میں کھلبلی مچارہے تھے۔اس کے ڈرامے تھیڑز میں کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کررہے تھے اور مایاکوفسکی نے سوویت یونین کی اشتہاری انڈسٹری میں بھی نئے رجحانات متعارف کرائے تھے اور سوویت فیشن انڈسٹری کو نئے خیالات مرحمت کیے تھے مگر اپنی اندر کی بےگانگی کے ہاتھوں ہار گیا ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn