آج کا دور ٹیکنالوجی کا دور ہے.اس کے بغیر بقا کا تصور محال ہے بنیادی ضروریات زندگی سے لیکر تعیشات تک سب اسی کی مرہون منت ہیں.انسانی زندگی کے تمام پہلو خواه وه طبعی وجود رکھتے ہوں یا نفسیاتی وجذباتی حوالے ہوں کہیں نہ کہیں ٹیکنالوجی کے زیر اثر ہیں.اس کی جو شکل پوری طرح سے انسانی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے وه سائبر ٹیکنالوجی ہے.یہ سماجی ,نفسیاتی اور اخلاقی قدروں پر شدت سے اثر انداز ہو رہی ہے.
سائبر ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے دو مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں ایک وه جو ٹیکنالوجی کے دور میں پیدا نہیں ہوئے لیکن اس کو اپنانے کے لیے کوشاں ہیں اور دوسری وه پود جو پیدا ہی اس دور میں ہوئی ہے جس کے لیے یہ زندگی کا ویسا ہی حصہ ہے جیسے سانس لینا.وه پود جو ٹیکنالوجی کی طرف ہجرت کر کے آئی ہے اسے ایک ایسی ابتری کا سامنا ہے جہاں نہ کچھ سجھائی دیتا ہے نہ ہی کوئی بات واضع معنی رکھتی ہے اسے یہ سب کچھ اتنی تیزی اور وافر مقدار میں ملا ہے کہ اسے سماجی ڈھانچے میں اس کی جگہ بنانے کے لیے مناسب وقت ملا نہ جگہ نتیجتاََ ٹیکنالوجی کے طوفان نے انسان کو اس طرح سے لپیٹ میں لیا ہے کہ وه اپنی بنیادی سماجی اکائی خاندان سے لیکر معاشرے تک کہیں بھی مناسب انداز سے اس کا استعمال نہیں کر سکتا سوشل میڈیا ہی کی مثال لیں کام کرنے کے اوقات ہوں یا گھر میں وقت گزارنے کے اس سے فرار ممکن نہیں اس کے ضرورت سے زیاده استعمال نے انسان کو اس کے حقیقی رشتوں سے دور اور ورچوئل رشتوں سے قریب کر دیا ہے.وه وقت جو اپنے والدین , بچوں یا دوستوں کے ساتھ گزارنے یا ان کے مسائل سننے اور حل کرنے میں گزرنا چاہیے وه اب نیٹ سرفنگ ,سکائپ ,وٹس ایپ اور فیس بک پر صرف هوتا هے .اسی وجه سے بنیادی رشتوں میں بھی اتنی دوریاں پیدا ہو چکی ہیں که ایک چھت کے نیچے رہنے والے ایک دوسرے کے مسائل سے آگاه نهیں ہوتے.ایک ایسی تنہائ کی صورتحال بھی وجود میں آ چکی ہے کی جهاں اپنوں کی موجودگی میں بھی کسی ایسے کی تلاش جاری رهتی جو اور کچھ نہیں تو کم از کم بات هی سن لے .
اس صورتحال کو مناسب خد تک بہتر کیا جا سکتا ہے اگر لوگوں میں سائبر ٹیکنالوجی کے درست استعمال کا شعور پیدا کیا جاۓ.اس بات کا احساس پیدا کیا جاۓ که وه حقیقی اور مجازی رشتوں میں فرق کر سکیں اور ایسے سائبر قوانین کو بھی لاگو کرنے کی ضرورت جس میں عمر اور ذهنی استعداد کے مطابق هی انٹرنیٹ کا استعمال هو سکے.یه ایک مسلمه حقیقت ہے که اس سونامی کو روکا نهیں جا سکتا لیکن مناسب تربیت اور مثبت انداز فکر سے اس کے استعمال کو با معنی اور معاشرے کے لیے مفید بنایا جا سکتا ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn