اک مشہور قصّہ سنایا جاتا ہے کہ ایک خاتون نے ایک پینٹنگ بنائی اور اسے چوراہے پر لگا دیا ۔ ساتھ ایک بورڈ پر یہ بھی لکھ کر لگا دیا کہ اس پینٹنگ میں موجود خامیوں کی نشان دہی کر دیں ۔ اگلی صبح جب وہ خاتون اس چوراہے پر پہنچی جہاں انھیں پینٹنگ نصب کی تھی تو دنگ رہ گئی ، پینٹنگ لوگوں کی نکالی ہوئی خامیوں سے کالی ہو چکی تھی۔ اس خاتون نے کچھ سوچا اور اسی پینٹنگ کو ایک نئی تحریر کے ساتھ وہاں رکھا۔ اب کی بار اس نے بورڈ پر لکھا ، "آپ نے جو،جو خامیاں نکالی ہیں انھیں درست کرنے کا طریقہ بتا دیجئے "۔ پھر وہی ہوا جو آج تک ہوتا آیا ہے۔ اگلے دن اور آنے والے کئی دنوں تک کسی شخص نے اس پینٹنگ کو ہاتھ تک نہ لگایا ۔ یہ ہمارے معاشرے کی بے حسی کی ایک کہانی ہے۔ایسی سینکڑوں کہانیاں ہیں۔ ہم کسی کی حوصلہ افزائی کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ہر معاملے میں دوسرے کو نیچا دکھانا ہمارا محبوب مشغلہ بنتا جا رہا ہے ۔ اور یہ حالت بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔ پہلے زندہ لوگوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی،اب ہم مرے ہوئے انسان کی پذیرائی بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ۔ کوئی نا حق قتل ہو تو ہم اس بحث میں پڑ جاتے ہیں کہ وہ ہمارے مقرر کردہ قوانین کے حساب سے شہید ہے یا نہیں ۔ کوئی اپنی ساری زندگی دکھی انسانیت کی خدمت میں گزار دےمگر ہم تو اس کے مرنے کے بعد یہی سوچتے ہیں کہ ٹھیک ہے دو ،چار نیکیاں کیں لیکن جناب "پکے نمازی ” نہیں تھے ۔ بے دین تھے ، مذہب سے دور تھے ، ارے یار وہ بھلا جنتی کیسے ہو سکتے ہیں ؟ بے دین بھی کبھی جنتی ہوا ہے ؟ دین کا علم ہوتا تو جسم کے اعضاء عطیہ تھوڑی کرتا ، مذہب میں اس کی اجازت کہاں؟ یہ ساری باتیں کرنے والے وہی لوگ ہیں جو برقع میں موجود عورت پر بھی نگاہ ڈالنے سے جھجھک محسوس نہیں کرتے ۔جیسے یہ ان کا مذہبی فریضہ ہو ۔ ایک انسان 62000 لوگوں کو اپنے ہاتھوں سے دفناتا ہے ، ہزاروں یتیم بچوں کا باپ بنتا ہے ، کسی مذہب ، کسی فرقے کے انسان کو کم تر نہیں سمجھتا ، دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس کا بانی ہے ۔ اپنے لئے ہر عیش و آرام حرام کر لیتا ہے ، ساری زندگی دو جوڑی کپڑوں میں گزار دیتا ہے ۔ اور آپ گھر میں ، ہر عیش و آرام کے ساتھ زندگی گذرتے ہوئے فیصلہ کریں گے کہ کون جنتی ہے اور کون دوزخی ؟ آپ جو کسی کو پانچ روپے کا سکہ دیتے ہوئے بھی سوچتے ہیں کہ ” پتہ نہیں یہ حقدار بھی ہے یا نہیں ” ایک انسان اسی زمانے میں رہتے ہوئے ہر انسان کی مدد کو تیار ہے،اور آپ جنتی اور وہ دوزخی؟ اگر مذہب کی اتنی ہی سمجھ ہے تو آپ یہ جانتے ہوں گے کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر ، کون جنتی ہے اور کون دوزخی اس کا فیصلہ میں اور آپ نہیں بلکہ ہمارا رب کرے گا ۔ جو صرف قہار نہیں ہے ، کریم بھی ہے ، رحیم بھی ہے ، غفور بھی ہے ۔ ایدھی جیسے کام نہیں کر سکتے ، ان کی طرح لوگوں کے مدد گار نہیں بن سکتے ، معاشرے کا بوجھ ہلکا نہیں کرسکتے،تو کم از کم ایسی کم ظرفی کی باتیں کرکے اس بوجھ میں اضافہ تو نہ کریں۔ سر ایدھی جیسے لوگ ہر روز پیدا نہیں ہوتے،ان کی خدمت کو دل سے سراہیں ، ان کے کسی ایک کار خیر کو آگے بڑھائیں ۔ مثبت سوچیں ، مثبت کام کریں۔ دوسروں سے جل کر ان کی تذلیل کرنے سے بہت بہتر ہے کہ ان سے اچھا کوئی کام کر کے دکھائیں ۔ لوگوں کو مذہب کے نام پر ذلیل کرنا ، بلاخر آپ کو ذلت میں مبتلا کر دے گا ۔

آمنہ احسن کو کتابیں پڑھنے کا بہت شغف ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn