رمضان کے تیسرے عشرے میں ٹیلی ویژن پر چلنے والے موبائل فون کے ایک اشتہار نے بڑی شہرت پائی جس کا لب لباب یہ تھا کہ کرکٹ کی دلدادہ ایک لڑکی معاشرے کی روایت کو توڑتے ہوئے والدین سے بغاوت کرتی ہے اور نیشنل ٹیم میں شمولیت کی صورت میں کامیابی کی خبر والدین کوموبائل فون پر سناتی ہے۔دوران باؤلنگ پریکٹس لڑکی کے جسمانی نشیب و فراز کوکیمرہ مین نے جس زاویے سے فوکس کیا اسے ا کژ مذہبی رہنماؤں بالخصوص دائیں بازو کے دانشوروں نے آڑے ہاتھوں لیا ۔انتہائی فکری قد آور شخصیت اوریا مقبول جان صاحب کی تو لن ترانیاں ہی مت پوچھیئے جو اس تمام بحث کی شروعات کا سبب بنے۔قادر الکلام دانشور نے بحث میں اس قدر دلچسپی پیدا کر دی کہ جن لوگوں نے یہ ایڈنہیں دیکھا تھا وہ بھی دیکھنے کی طرف مائل ہو گئے اور اشتہا ر چلانے والی موبائل کمپنی کی تو گویا چاندی ہو گئی اور اس نے وہ کامیابیاں سمیٹیں جن کا اس نے شاید تصور بھی نہ کیا ہو۔ایسا لگتا ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم دین اسلام کی صحیح نمائندگی کے قابل ہی نہیں یا پھر شعور سے عاری لوگ ہیں۔مسئلہ یورپی ملک کا توہین آمیز خاکے چھاپنے کا ہویا آسیہ بی بی کا توہین رسالت کیس ہو،سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے بیمار ذہنوں والے لوگوں کی مذمت کرنا ہو یا شوال کا چاند دیکھناہو ہر معاملے میں ہم ایک تماشہ ضرور لگاتے ہیں اور اکثر و بیشتر سکالر حضرات اپنی اپنی اسطاعت کے مطابق منجن بیچنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں اور اس کار خیر میں میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتا بلکہ اپنا پورا پورا حصہ ڈالتا ہے اور جب کسی بھی خبر کی شہادت یا ثبوت مانگا جائے تو ایک رٹا رٹایا جواب موجود ہوتا ہے کہ متعلقہ خبر با وثوق ذرائع سے موصول ہوئی ہے۔ اگر اس وقت پاکستانیوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اپنی جڑمضبوط کر چکی ہیں یا بیرون ملک دنیا کا پاکستان اور مسلمانوں کے بارے میں تصور آئے روز بگڑرہا ہے تو اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ ہم خود ہیں جو کہ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو اس کا حل مذہب کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان کے سادہ لوح عوام دنیا کو در پیش ہر مسئلہ کے حل کے بارے میں علماء کرام کی رائے جاننا شایدا پنا فرض سمجھتے ہیں۔اور نام نہاد علماء کرام دنیا کا کوئی بھی مسئلہ چاہے وہ سیاسی ہو یا دینی معاشی ہو یا معاشرتی،اس کا تعلق کساد بازاری سے ہو یاعالمی منڈی سے اس پر اس طرح سے سیر لا حاصل بحث کرتے ہیں جیسے ان کوبیک وقت دنیا کے تمام علوم پر عبور حاصل ہے۔اسلام تو ایسا خوبصورت دین ہے جودانشوری کو مومن کی متاع قرار دیتا ہے اور حکمت کو مومن کی میراث۔رحمتہ اللعالمین ﷺ لوگوں کے مزاج کو سمجھتے ہوئے اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے لوگوں کودعوت دیتے تھے نہ کہ لٹھ لے کے لوگوں کے پیچھے پڑجایا کرتے تھے کہ ابھی تسلیم کرو ورنہ جہنم کا سرٹیفکیٹ موقع پر ہی جاری ہو جائے گا۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی مخالف مذہبی نظریات کا احترام کیا گیااس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے۔فتوحات کے نتیجے میں جب بڑی سلطنتیں وجودمیں آئیں تو ان میں کئی اقوام تھیں جومذہب اور عقیدے کے لحاظ سے مختلف تھیں۔اس صورت میں حکمرانوں کو یہ مسئلہ در پیش تھا آیا کہ تمام اقوام کو ایک ہی عقیدے میں ضم کر دیا جائے یا انہیں مذہبی آزادی دی جائے تا کہ وہ ریاست کے معاملات میں مداخلت سے بازرہیں۔ریاست نے جب بھی جبر و استبداد اور سوتیلی ماں کا رویہ اختیارکیانتیجہ مزاحمت کی صورت میں سامنے آیااور مختلف مذہبی گروہوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی کوشش کی۔پاکستان میں مولانا صوفی محمد اور مولانا فضل اللہ کے خلاف سوات آپریشن اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔لیکن اگر اس کے بر عکس لوگوں کو مذہبی فکر و عقیدے کی آزادی دی گئی تو سوسائٹی میں امن و امان قائم ہوا اور ریاست مضبوط و مستحکم ہوئی۔ثبوت کے طور پر موریہ سلطنت کی واضح مثال پیش ہے جس میں راجہ اشوکا نے سو سائٹی کو کثیرالمذہبی روایات پر ڈھالا اگرچہ وہ خود تو وہ بدھ مذہب کا پیروکار تھالیکن اس نے جو اعلانات کئے ان سے مذہبی رواداری اور مخالف مذاہب کے نکتہء نظر کو تحمل سے برداشت کرنے کا اظہار ہوتا ہے۔ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق چٹانی کتبہ نمبر بارہ(جو اس کی وفات کے کئی سو سال کے بعد کھدائی کے دوران دریافت ہوا)میں مذہبی رواداری کے حوالے سے اشوکا کی یہ تحریر درج ہے۔۔
ْ َ اپنے ہی مذہب کا احترام نہ کیا جائے اور دوسروں کے مذاہب سے خوامخواہ نفرت نہ کی جائے،کسی نہ کسی عنوان سے دوسروں کے مذاہب کا احترام کرنا چاہئے۔ایسا کرنے سے انسان اپنے مذہب کی ترقی میں مدددیتا ہے اور دوسروں کے مذاہب کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے اس کے برعکس عمل کر کے انسان اپنے مذہب کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور دوسروں کے مذہب کو بھی کیونکہ جو شخص جوش عقیدت میں اپنے ہی مذہب کا احترام کرتا ہے اور دوسروں کے مذہب سے نفرت کرتا ہے یعنی اس خیال سے کہ میں اپنے مذہب کی عظمت کو دوبالا کروں تو جو فرد اس طرح کرتا ہے وہ فائدے کی بجائے اپنے ہی مذہب کو نقصان پہنچاتا ہےْْ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں جو مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ ورانہ تعصبات بڑھ رہے ہیں ان کی وجہ سے معاشرے میں نہ صرف قتل و غارت گری اور خون ریزی ہے بلکہ خوف اور ڈر کی ایسی فضاء ہے جس نے عدم تحفظ کو جنم دیا ہے۔اس لیئے ضرورت اس امر کی ہے علماء و مفتیان کرام اپنا کردا ر پوری ذمہ داری سے نبھائیں اور عوام الناس اور معاشرے پر حکمت سے گرفت و تنقید کریں تا کہ لوگوں کے اندر مذہب
سے خوف اور بغا وت کی بجائے انسانیت سے ہمدردی اوراحترام مذہب کے جذبات پیدا ہوں۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn