ہمارے دوست شیخو بھائی کہتے ہیں کہ۔۔۔ اس دنیا میں پیسے سے بڑا ظالم اور جابر کوئی نہیں جب اس میں ظلم کی لہر اٹھتی ہے تو پھر کوئی تمیز باقی نہیں رہتی۔ انسان اور جانور سب کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے نشانے بازی شروع ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی بچ جائے تو اس کی قسمت ہے۔ وہ جو پیسا ناچ نچانے والی بات تھی اب وہ پرانی ہو گئی ہے۔ اب صرف پیسا ہے اور اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اخلاقی اور غیراخلاقی ہتھیار ہیں۔ اور بس۔ کوئی عالم، کوئی فاضل نہیں، سب اداکار ہیں جو کٹھ پتلیوں کی طرح اشاروں پر محو رقص ہیں اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
سیاستدان، سرمایہ دار اور صنعتکار آف شور کمپنیاں بنا کر اپنا ناجائز پیسا یا کالادھن بیرون ملک بھیج سکتے ہیں۔ اس سے جائیدادیں، رہائش گاہیں اور فلیٹس خرید سکتے ہیں تو نام نہاد ’مفتی علامہ اور علما کرام‘ کیوں نہیں؟ وہ بھی تو اسی معاشی معاشرتی اور سیاسی نظام کا حصہ ہیں۔ اگر کوئی علامہ اور خود ساختہ پروفیسر پاکستان کی شہریت کے بجاے کینیڈی شہریت کو اہمیت دیتا اور ’دھرنا ورنا‘ چھوڑ کر واپس چلا جاتا ہے۔ تو پھر کیسی ’حب الوطنی‘ اور کیسی اس ملک کے مجبور اور بے بس عوام کے ساتھ ہمدردی اور ان کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ؟
افسوس تو اس بات کا ہے کہ جب وہ سکرپٹ کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کو سٹیج پر پھر واپس آتے ہیں محبت اور عقیدت میں جکڑے ہوئے معصوم عوام، سکولوں کالجوں اور مبینہ یونی ورسٹی کے اساتذہ، عملہ اور طلبہ اپنے اپنے معاشی تحفظ کے لیے نیا سین دیکھنے پھر ڈراما ہال میں چلے آتے ہیں، جہاں ان کا محبوب اداکار ایک بار پھر نئے گیت کی پرانی دُھن پر محو رقص ہوتا ہے اور اس کا ساتھ دینے والے بھی آف شور سیاستدان اور آف شور سیاسی جماعتوں کے کارندے ہوتے ہیں۔
بہر حال۔۔۔ پہلے یہ جان لیجیے کہ آف شور کمپنی ہوتی کیا ہے۔ سرمایہ دار ملکوں میں بینکنگ سسٹم کے کھلاڑی اور خود بینکوں کے نمائندے جعلی کمپنیاں بناتے اور پھر اسے مقامی قوانین کے تحت رجسٹرڈ کروا لیتے ہیں۔ اور پھر جب ہمارے جیسے ملکوں کے بدعنوان سیاستدان صنعتکار، سرمایہ دار اور حکمران طبقے اپنا غیرقانونی سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کرنا چاہتے ہیں تو وہ یہ کمپنیاں خرید لیتے ہیں اور اپنا سرمایہ بینکوں کے ذریعے اس میں منتقل کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ مقامی قوانین کی پابندیوں سے بچ جاتے ہیں انھیں یہ نہیں بتانا پڑتا کہ ذریعہ آمدن کیا تھا اور اس پر کتنی ٹیکس ادائی کی گئی۔
دوسرا یہ کہ۔۔۔ پوری دنیا میں بینکوں کا کاروبار کالے دھن پر ہی چلتا ہے مزید یہ کہ بینک کسی کو کسی کے سرمائے بارے معلومات فراہم کرنے کا بھی پابند نہیں ہوتا۔ یہی سرمایہ بینک انویسٹمینٹ کے لیے استعمال کرتے اور اس سے منافع یا انٹرسٹ حاصل کرتے اور پھر اس کا کچھ حصہ اکاؤنٹ ہولڈر کو بھی دیتے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ کے بینک اس ضمن میں خاصی شہرت رکھتے ہیں۔ حالانکہ اب یہ سلسلہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا ہے۔ وہ تو صرف بدنامی گلے میں ڈالے ہوئے ہیں پچھلے دنوں برطانیہ کے وزیراعظم نے تسلیم کیا تھا کہ۔۔۔ صرف برطانیہ اور ویلز میں ایک لاکھ سے زائد آف شور کمپنیاں ہیں، اب انھیں اپنے مالکان کی نشاندہی کرنا پڑے گی۔
ہمارے ہاں۔۔۔ وکی لیکس، پاناما لیکس اور دبئی لیکس کے بہت چرچے ہیں پاناما لیکس کی صدائیں تو بھی تک سیاسی اور حکومتی ماحول کو خاصا گرم رکھے ہوئے ہے حتیٰ کہ کچھ آف شور سیاسی جماعتیں اور سیاستدان اسی کو بنیاد بنا کر ’پولیٹیکل لانڈرنگ‘ کر رہے ہیں ورنہ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ عوام نہ عوام کی حمایت مگر نام عوامی لیگ۔ کوئی دھرنا ہو کوئی جلسہ جلوس ہو، بن بلائے مہمان کی طرح اگلی صف میں بیٹھ جاتے ہیں اور پھر اپنے مخصوص انداز میں اپنے ہونٹوں سے پھول برسانے لگتے ہیں۔ حالانکہ انہیں اپنے سوا کوئی پسند نہیں، بلکہ کسی اور کو سیاسی دانشور ہی تسلیم نہیں کرتے۔ کسی ٹی وی پروگرام میں شریک نہیں ہوتے جہاں کوئی اور اصلی سیاستدان اور دانشور موجود ہو۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ چینلز انھیں ’آف شور‘ ہونے کے باوجود ’حکمِ حاکم‘ تسلیم کرتے ہوئے سکرین پر نمایاں کرتے اور ان کے ’خیالات مخصوصہ‘ کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ بہر حال۔۔۔ یہ تو محض ایک آف شور سیاستدان اور ان کی آف شور سیاسی جماعت کاحال ہے یہاں تو بے شمار آف شور سیاسی جماعتیں اور سیکڑوں آف شور سیاستدان ہیں جو ’پولیٹیکل لانڈرنگ‘ کرتے اور اس پر ذرا شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ بلکہ ساری شرمندگی اور ندامت کو ضمیر کے کوڑے دان میں پھینک کر بیرون ملک سے دوڑے دوڑے چلے آتے اور سٹیج پر کھڑے ہوکر دھمالیں ڈالنے لگتے ہیں انھیں امید ہوتی ہے کہ پولیٹیکل لانڈرنگ کی واپسی منافع سمیت ہو گی۔
ہم نے صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کی باتوں کو قابل توجہ نہیں سمجھا لیکن انھوں نے ’کینیڈی دھرنے‘ کے بعد جو کچھ ایک آف شور سیاستدان نما عالم فاضل پر لندن، کینیڈا، بیلجیئم اور ڈنمارک میں کروڑوں ڈالر کی جایدادیں خریدنے کا جو الزام لگاتے ہوئے سرمائے کی آمد کا سوال کیا ہے وہ مضحکہ خیز ہے کیوں کہ وہ بھول گئے تھے کہ حضرت آف شور پیر بھی ہیں اور ان کے دنیا بھر میں ہزاروں مرید بھی ہیں جو ان سے عقیدت میں مال و دولت کی کوئی پروا نہیں کرتے بلکہ اپنی آمدنی کا دسواں حصہ اس آف شور ’چرچ‘ کے حوالے کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ویسے بھی انھیں نذرانے وصول ہوتے رہتے ہیں جو آف شور کمپنیوں کے کھاتے میں جمع ہوتے اور پھر ’پیر صاحب‘ کی وطن واپسی پر استعمال ہوتے اور ان کی شہرت اور نمائش کا ذریعے بنتے ہیں وہ شہرت خواہ آف شور ہی کیوں نہ ہو۔
ویسے حرفِ آخر میں خود ہی اندازہ کیجیے کہ یہ جو کچھ سیاستدان ادھر ادھر پھدکتے اور ترازو کے مینڈک بنتے رہتے ہیں انھیں کیا نام دیا جا سکتا ہے۔ آف شور یا آن شور؟؟؟
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn