Qalamkar Website Header Image

ٹوٹ پھوٹ کا شکار خاندانی نظام اور طلاق

divorcepicآج صبح سویرے شور کی آواز سے آنکھ کهلی محلے میں ایک کہرام برپا تها کہ دو گهر دور کے پڑوسی امجد صاحب کی اکلوتی بیٹی ندا جس کی سولہ ماہ پہلے پسند کی شادی بہت چاہت سے یونیورسٹی کے کلاس فیلو سے ہوئی تهی اس کو ایک بیٹی کے ہمراہ طلاق دے کر گهر روانہ کر دیا گیا وجہ یہ تهی کہ پسند کی شادی ہونے کے باوجود گزشتہ چند ماہ سے دونوں کے مابین اکثر اوقات لڑائی جهگڑے کا ماحول رہتا تها ندا کا کہنا تها کہ علی شادی سے پہلے کیے گئے دعووں پر پورا نہ اتر سکا اور ندا کے بقول علی کو بهی اس سے توقعات پر پورا نہ اترنے کا گلہ تها سو آئے دن کے جهگڑوں سے تنگ آکر اس نے بیوی کو طلاق دے دی اور بچی کو بهی وقتی طور پر ماں کے ساته بهیج دیا گیا اب یہ منظر تهوڑے بہت فرق کے ساتھ ہمارے معاشرے میں اکثر اوقات دیکهنے کو ملتا ہے-مادیت پرستی کے موجودہ رجحان نے جہاں دوسری سماجی اور ثقافتی قباحتوں کو پروان چڑهایا ہے وہاں گزشتہ دو دہائیوں میں طلاق کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے-حالانکہ اسلام نے ایک فطری مذہب ہونے کے ناطے مرد اور عورت کے ملاپ کو مقدس تعلق قرار دیتے ہوئے دونوں کو تہذیب و تمدن کے لیے ہوئے جزو لانیفک بنایا ہے جبکہ طلاق کو حلال اعمال میں سے ناپسندیدہ ترین فعل قرار دیا ہے –
موجودہ سماجی حالات نے جہاں دوسری روایات کا تقدس پامال کیا ہے وہاں ازواجی رشتے جیسے نازک بندهن اور خاندانی روایات کو بهی ٹهیس پہنچائی ہے-ہمارے معاشرے میں طلاق کے رجحان میں اضافے کی واضح وجوہات میں سے ایک نمایاں وجہ خواتین میں اپنے حقوق کی حد سے بڑهی ہوئی آگاہی ہے جس کے متعلق ایک شاعر یوں شکوہ کناں ہے
شہر میں گھومتی جھومتی
عدالت اور سیاست کی باتوں کی ماہر
روایت سے بیزار
شوہر سے نالاں
برٹرینڈ رسل
کی اخلاقیات کی عاشق
خواتین کے So called Rights کے لیے
مرنے اور مار دینے کی باتوں سے
محفلوں کو گرمانے والی
مدارن !
محبت کی مذہب کی دشمن
شوہر کے حق کو
ہزاروں نگاہوں میں تقسیم کرنے والی
وہ !
کالی آزادیوں کی تمنائی عورت
سیکیولر سوسائٹی کی بے پردہ خواہش کو
آنکھوں میں لیے
دیس کی ماؤں بہنوں کے ذہنوں میں
اندھیرا بھرتی جارہی ہے
اور ایسے شعور کی موجودگی میں خواتین اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے طلاق کا راستہ سب سے سہل سمجهنے لگی ہیں جس سے گهر ٹوٹنے لگ گئے ہیں-
طلاق کی شرح میں اضافے کا دوسرا بڑا سبب وہ خبط ہے جو کہ تبدیل ہوتی روایات کا مظہر ہے وہ ہے "آئیڈیل”کا تصور-
نوجوان لڑکے،لڑکیاں اپنے ذہن میں ایسا "آئیڈیل” بنا لیتے ہیں جو ان کے خیال میں "روبوٹ” کی مانند ان کی خواہشات کی تکمیل کرے گا اور اس مقصد کے حصول کے لیے ان کی تلاش ایسے "جیون ساتهی” کے گرد گهومتی ہے جو صرف ان کی سنے اور انہیں اس پر مکمل بالادستی بهی حاصل ہو –
تیسری وجہ معاشرے میں پدر سری نظام کی موجودگی ہے-اکثر اوقات والدین دونوں ہی فریقین کی رضا مندی کو درخود اعتنا نہیں جانتے اور ایسے جوڑوں میں عدم مطابقت کے واضح امکانات ہوتے ہیں جس کا نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہےکیونکہ پاکستانی معاشرے میں "میل شاونزم” کی جڑیں گہری ہونے کے باعث مردوں کا رویہ "ان چاہی” جیون ساتهی کے ساته اکثر غیر منصفانہ ہوتا ہے -گهریلو تشدد کا شکار خواتین کے لیے اس جبر سے آزادی کا واحد راستہ طلاق ہی رہ جاتا ہے-معاشرتی طور پر مردوں کے لیے دوسری شادی میں آسانی ان کی خوب سے خوبصورت ترین کی تلاش کی روش خاندانی اکائی کو متاثر کررہی ہے اور مردوں کی گهر سے باہر کی دلچسپیوں کے باعث بچوں کی کفالت سے ہاته اٹهانا اسی سلسلے کی کڑی ہے-
چوتهی وجہ ازدوجی زندگی کے آغاز کے بعد خواتین کی جانب سے اپنے "کیرئیر” کو مقدم جاننے کا رجحان ہے جو کہ بچوں کی روزمرہ کی ذمہ داریوں کو دونوں فریقن میں باٹنے کا سبب بنتا ہے اس سے ان میں کل وقتی جهگڑوں کا آغاز ہو جاتا ہے اور ان کا اختتام طلاق پر ہوتا ہے-
ان سب وجوہات کے ضمن میں میری ذاتی رائے میں آخری مگر سب سے بنیادی وجہ مشترکہ خاندانی نظام میں عدم برداشت کا رجحان ہے جسکی وجہ سے بہو اور سسرالی رشتوں میں واضح خلیج دیکهی جارہی ہے کہ ایک طرف سسرالی بہو کی گهر کے فرد کے طور پر حیثیت تسلیم کر نے کو تیار نہیں ہوتے اور دوسری طرف بہو بهی روز اول سے شوہر کو اپنی ذاتی ملکیت سمهجتے ہوئے اس کو اپنے خونی رشتوں سے علیحدہ کرنے کے چکروں میں ہوتی ہے جس کی شہ اسے اپنے میکے والوں سے تواتر سے ملتی ہے-آج کل لڑکیوں کے والدین بهی اپنی بیٹی کی سسرال میں مقام نہ بنانے میں معاونت کرتے ہیں-دونوں جانب کے اس عدم برداشت کے رویے کا حتمی نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے-
طلاق کی وجہ چاہے انفرادی ہو یا معاشرتی-اس کی شرح میں اضافہ خاندانی اور سماجی روایات کی شکست و ریخت اور خاندان کے ڈهانچے کے توڑ پهوڑ کی علامت ہے لہذا اس کے تدارک کے لیے اس کی وجوہات کا ادراک لازم ہے تاکہ بہتری آئے-رشتئہ ازدواج میں دونوں فریقین کا باہمی احترام،دو طرفہ حقوق کی پاسداری اور طبعیت و فطرت کے تضادات کو مٹاتے ہوئے سمجهوتے کو مشترکہ لائحہ عمل بناما چاہیے تاکہ طلاق کو ناگزیر سمجهنے کا رجحان ختم ہو-اسکے ساته ہی شادی کو ایک مقدس معاہدہ جان کر ایثار کے جذبے کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ خاندانی نظام کا استحکام ممکن ہو پائے-

حالیہ بلاگ پوسٹس