Qalamkar Website Header Image

بلقیس کا خط

aamir hussainiآج صبج دروازے پہ دستک ہوئی تو دروازہ کھولتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ ڈاکیا جاوید ایک پارسل لیے کھڑا ہے اور کہتا ہے
حسینی صاحب! بیروت لبنان سے یہ پارسل آپ کے لئے آیا ہے۔ ذرا یہاں دستخط کردیجئے ۔
اس نے ایک کاغذ میری طرف بڑھایا۔ میں نے ذرا الجھن کے ساتھ دستخط کرڈالے اور دروازہ بند کرکے اپنے کمرے میں آگیا جہاں شدید حبس میں پنکھے کی ہوا کام کرنا چھوڑ گئی تھی ۔پارسل کو ایک کونے سے کاٹا تو اندر سے دو کتابیں نکلیں۔ اور ایک خط بھی تھا۔ یہ پارسل عائشہ بلقیس نے بھیجا تھا جسے میں شاید کافی عرصہ پہلے ہی بھول چکا تھا لیکن وہ نہیں بھولی تھی ۔
” عامر مستجاب حیدر صاحب ! آپ کی کافی عرصے سے کوئی خیر خیریت نہیں موصول ہوئی ۔پھر آپ کو ٹوئٹر و فیس بک پہ بہت تلاش کیا اور بڑی مشقت کے بعد تمہاری ایک تصویر سے تمہیں پہچانا جس میں تم اپنے شاید بیٹے کے ساتھ ہو اور حسب عادت شیو بڑھی ہوئی تھی ، تمہیں فرینڈ ریکوئسٹ بھیجے کئی ماہ ہوگئے اور انباکس میں میسج بھیجے بھی لیکن تم نے میری ریکوئسٹ کو قبول کیا اور نہ پیغام پڑھنا گوارا کیا۔ تم سے کہنا تھا کہ بیروت یونیورسٹی میں صادق مشہد سے آئے تھے اور انھوں نے بھی تمہاری گمشدگی پہ بہت حیرانی کا اظہار کیا۔کراچی یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد تمہاری بہت سے لوگوں کو خبر نہیں ہے۔ ہمیں خیال آیا کہ کہیں کسی گوریلے وار میں کام تو نہیں آگئے ۔لیکن پھر پشاور سے آئے اخلاق نے بتایا کہ تم تو ” فیس بک پہ جہاد ” کرنے لگے ہو اور کوئی ” صحافی ” صاحب بن گئے ہو اور انہوں نے بتایا کہ اب تو ” پریس کارڈ والی بدمعاشی ” بھی کرنے لگے ہو۔ ہمیں یقین نہ آیا لیکن پھر اس نے تمہاری وال فیس بک پہ کھولی اور کچھ تمہارے ملک کی زبان اردو میں لکھے تمہارے کچھ آرٹیکل کی دید کرائی اور ان کا مختصر تعارف بتایا تو کچھ کچھ یقین آنے لگا۔ تمہیں تو فلسفی بننا تھا اور عقلیت پسندی کا فلسفہ پڑھانا تھا ۔ وہ سب کیا ہوا؟ خیر چھوڑو ، یہ ناظم حکمت کا ایپک منظوم ناول تمہیں بھیج رہی ہوں اور ساتھ ہی تمہارا سب سے پسندیدہ عرب شاعر محمود درویش کی تازہ شائع ہونے والی آٹو بائیوگرافی بھی بھیج رہی ہوں۔ تم نے بہت تلاش کیا تھا ان کتابوں کو مگر بیروت کے بازاروں مین کتابوں کی دکانوں سے یہ ایسے غائب تھیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔اخلاق کے پاس تمہارا پتہ ہے اور اس پہ پارسل بھیج رہی ہوں۔ یاد ہے تم نے جب میرا نام سنا تو پہلے یہ کہا چلو نزار قبانی کی بلقیس نہ سہی عائشہ بلقیس ہی سہی تھوڑی تسلی رہے گی اور پھر کہا کہ ” نزار قبانی کو جانتی ہیں ” اور میں نے جب انگریزی چھوڑ کر عربی میں کئی اشعار سنائے تو تم لگے بغلیں جھانکنے ( تم نے کہا تھا کہ عربی سیکھو گے پوری نہ سہی تفہیم کے لئے سہی ۔۔۔۔۔ تو کیا سیکھ لی ہے ؟ ) ۔ وہ دھان پان سی ” شہر بانو ” ( میں نے یہاں اصل نام حذف کردیا ۔عامر حسینی )کیسی ہے ؟ جو تم جیسے مادیت پرست کو ناحق ” نہج البلاغہ ” پڑھانے کی کوشش کررہی تھی اور ہم اس کا بہت مذاق اڑاتے تھے اور تم بھی تو اس کے سامنے بہت سنجیدہ رہتے تھے اور جیسے جاتی تو اس کی ایسی ایسی نقل اتراتے کہ ہنس ہنس کے پیٹ میں بل پڑجاتے تھے ۔ ویسے تمہیں یہ سن کر صدمہ ہوگا کہ میں واقعی ” نہج البلاغہ ” کی عاشق ہوگئی ہوں اور یہاں اس سیاسی اتحاد کی حامی ہوں جس میں حزب اللہ بھی شامل ہے لیکن رکن کمیونسٹ پارٹی آف لبنان کی ہی ہوں ۔( ہیں نا عجیب بات لیکن یار! یہ اخلاق بھی بہت بدل گیا ہے اور عبداللہ بھی دونوں بہت ہی چڑنے لگے ہیں روشن خیالی سے ، تم کہاں کھڑے ہو ۔ اور ہاں یہ تمہارے نام کے ساتھ ” حسینی” کب لگا اور وہ ” مستجاب حیدر ” کہاں چلا گیا جسے تم بہت شوق سے لکھتے تھے؟)
اس خط کے جواب میں کاغذ قلم سنبھال کر لکھنے نہ بیٹھ جانا بلکہ ذرا ” کی بورڈ ” پہ انگلیوں کو متحرک کرنا اور مجھے جواب بھیج دینا ۔ای ۔میل ایڈریس لکھ کر بھیج رہی ہوں۔ اور ہاں وہ خالدہ تمہیں شادی کے بعد بھی یاد کرتی ہے۔کینڈا میں جابسی ہے۔ ( چھٹ گئے نا پسینے ) ”
میں نے خط پڑھا اور اپنے اس ماضی میں چلا گیا جو بہت پرانا نہیں ہے بس دو عشروں پہ محیط ہے لیکن گردش ایام ایسی آئی کہ سب بھول گیا۔آج ہی شریں قدوسی افغان نژاد لڑکی کی آب بیتی پڑھ رہا تھا جس میں وہ ایک جگہ لگتی ہے کہ ” پاکستان وہ جگہ ہے جہاں آپ کے پاس پیسہ نہیں ہے تو آپ کچھ بھی نہیں ہو ” تو مجھے خیال آیا کہ کون سا ایسا سماج ہے جو زمین سے لگے لوگوں کو اٹھاکر کھڑا کرلیتا ہے۔کچھ خواب دیکھے تھے اور ان کی تعبیر تو کبھی نہیں ملی مگر حالات نے ایسی ٹھوکریں لگائیں کہ میں جوانی میں بوڑھا ہوگیا اور سب بھول بھال گیا۔لیکن ایک بات ہے جس کی نقلیں اتارتا اور مذاق اڑاتا وہی مری گرو بن گئی اور میری کایا کلپ کرگئی اور جانے والی چلی گئی لیکن بیروت کی چھپی نہج البلاغہ کا نسخہ مرے پاس ہی دھرا رہ گیا ۔عائشہ بلقیس تم ہی کیا اور بہت سے لبنانی ہیں خاص طور پہ جنوب میں رہنے والے جن کو اگر حزب اللہ نہ بچاتی تو وہ سلفی فسطائیوں کے ہاتھوں کب کے ذبح ہوجاتے۔اگرچہ ہم اپنے سلمان تاثیر ، شہباز بھٹی ، شکیل اوج ، سبط جعفر ، سبین محمود ،خرم زکی ، ڈاکٹر علی حیدر اور جمشید نایاب کو نہ بچاسکے۔اور میں اتنا بزدل ہوچکا ہوں کہ گوریلا وار میں کام آنے کی بجائے جان بچانے کی سبیل کرتا پھرتا ہوں۔اخلاق اور عبداللہ ہی کیا یہاں تو بہت سے رند متقی ہوگئے ہیں ، پائنچے ٹخنوں سے اونچے ، ڈاڑھی ناف سے چھوتی ہوئی اور شام میں جانے کے نعرے مارتے یہیں کہیں داتا صاحب پہ پھٹ جاتے ہیں یا گلشن اقبال لاہور پارک پہ پھٹ جاتے ہیں۔تاریخ سے اتنا ڈرتے ہیں ذرا بیان کرو اور ادھر نعرہ تکبیر لگاکر بیان کرنے والے کے ٹکڑے کردئے جاتے ہیں۔ نزار قبانی کی بہن وصال پسند کی شادی نہ ہونے پہ خودکشی کرگئی تھی اور یہاں تو زندہ جلادی جاتی ہیں اور جلانے والا کوئی مرد نہیں بلکہ ماں ہوتی ہے۔روشن خیالی تو خواب خیال ہوگیا ہے۔
چار بجکر پنتالیس منٹ پہ گاڑی ہارن بجاتے گزری
اسکول کی لڑکیاں ساٹن کی کالی اسکول وردی میں
چیل کے درختوں کے قریب سے گزریں
سنجیدگی چہرے سے ٹپکی پڑرہی تھی
اپنی چھاتیوں پہ نازاں
ہاتھ میں کتابیں
ناظم حکمت کے زرمیہ _ ہیومن لینڈ سکیپ فرام مائی کنٹری سے یہ چند لائنیں میری نظر میں ہیں اور بلقیس کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں ایسے مرد دانشور موجود ہیں جو ” لڑکیوں کو اپنی چھاتیوں پہ نازاں ” رہنے کی بجائے ان ک شرمسار کرنے میں کوشاں ہیں اور جہاں یہ ہلنے لگتی ہیں وہاں ان کے دل و دماغ میں زلزلہ آجاتا ہے اور لعنت و پھٹکار وہ ہلنے والی کو دینے لگتے ہيں۔ کم از کم بلقیس کے شہر بیروت میں ابھی ہلتی چھاتیوں پہ فتوے جاری ہونا شروع نہیں ہوئے ہوں گے۔
ویسے ناظم حکمت کے رزمیہ ناول میں بہت سے مناظر ایسے ہیں جن کو بیان کرنے کو دل چاہتا ہے اور بلقیس نے بہت مہربانی کی مجھے یہ بھیج دیا۔
شریف آغا کی بیوہ سازش کرتی رہی
جیسے رنگدار ریشم کی کشیدہ کاری کرتی رہی ہو
اب رنگدار ریشم بننے سے سازش بننا کو تشبیہ دینا ناظم حکمت جیسے رومانوی کمیونسٹ کا کام ہی ہوسکتا تھا۔
بحر اسود سے کردستان تک۔
لوگ کہتے ہیں کردوں کی دمیں ہوتی ہیں
یہ غلط ہے ۔
بلقیس ! تم جانتی ہو کہ مرے ملک میں شیعہ ، احمدی ، کرسچن ، ہندؤ ، بلوچ ، غریب مہاجر ہوئے افغان ، ہزارہ شیعہ کی دمیں ہوتی ہیں کا نظریہ بہت پختہ ہوگیا ہے بس یہاں دمیں ” غدار ، کافر ، باغی ، مردود اور مرتد ” نام رکھتی ہیں ۔
پریہاں نامی لڑکی جب جنگ کی حمایت کرتی ہے تو اس کی ماں امینے کہتی ہے
بڑی ہوجاؤ
شادی کرو
بیٹے پیدا کرو
پھر پوچھوں گی ، جنگ کیا ہوتی ہے ؟
ناظم نے اپنے ناول میں ” سلیم ” کا قصّہ بیان کیا جس نے پچیس کروش کے بدلے 24 گھنٹے کام کرنے سے انکار کیا تھا اور مزدوروں کو بھی قائل کیا کہ 8 گھنٹے کام اور اجرت 50 کروش تو پولیس بلائی گئی اور سلیم کو ازیت خانے لیجایا گیا اور اس ٹارچر سیل میں ہی سلیم کو مار دیا گیا اور کہا گیا کہ وہ ایک خطرناک دہشت گرد اور وطن دشمن تھا۔
بلقیس ! تمہیں بتاؤں کہ آج جب تمہارا خط اور پارسل مجھے موصول ہوا اسی وقت بی بی سی اردو سروس سے وابستہ ثقلین امام نے فاروق طارق ایک کمیونسٹ ایکٹوسٹ کی میل شئیر کی جس میں لکھا تھا کہ
” آج لاہور کی ایک انسداد دہشت گردی کی عدالت مين کالے نقاب کے ساتھ ایک آدمی کو پیش کیا گیا اور جب اس کے وکیل نے جج سے کہا کہ اس کے موکل کا چہرے سے نقاب ہٹایا جائے تو چہرہ ” عبدالستار ” نامی ایک شخص کا نکلا جو زرد پڑا ہوا تھا اور اس کی کئی دن کی شیو بڑھی ہوئی تھی ۔ چہرے پہ ٹارچر کے آثار تھے۔ اس شخص نے بتایا کہ وہ پنجاب پاکستان کے ایک شہر اوکاڑا کے اندر موجود زرعی فارمز جن پہ فرینجرز نے ناجائز قبضہ کررکھا ہے کے کسانوں کے حقوق ملکیت کی جدوجہد کررہا تھا تو اسے اٹھا کر پنجاب کے ایک اور شہر کی اس جیل میں ڈال دیا گیا جس سب سے خطرناک مذہبی جنونی دہشت گرد موجود ہیں۔جج بھی کمال کا سخی نکلا اس نے احاطہ عدالت میں اس خطرناک دہشت گرد کو اپنی بیوی اور دو بچوں سے ملنے کے لئے دو منٹ عطاء کرڈالے۔خالدہ سے کہنا وہ اچھی ہے جو شادی کرکے سکون سے کینڈا میں جابسی ہے ورنہ اگر بیروت ميں رہتی یا مجھ غریب میں اتنی ہمت ہوتی کہ اس کی پیشکش قبول کرلیتا تو کیا پتہ تھا کہ اچانک کسی پھٹ جانے والے کی زد میں وہ آجاتی یا میں تو کہانی یہیں ختم ہوجانی تھی نا!
تم نے پوچھا کہ ” میں کیا ہوں ” یہ سوال اتنا پریشان کن ہے کہ کب سے بیٹھا ہوں کہ جواب میں کیا لکھوں ؟ کبھی تو لگتا ہے امید پرست ہوں ، پھر خیال آتا ہے نہیں بہت ہی مایوس ، لیکن پھر یہ بھی جواب غلط لگتا ہے ، یہاں اتنی حیوانیت ہے کہ بڑی مشکل سے اپنی انسانیت سنبھال کے رکھی ہوئی ہے اور مجھے وہ ایکٹ یاد آتا ہے جس میں سبھی جانور ہوگئے ہیں اور ایک آدمی ہے شہر میں جو اپنی انسانیت کو حیوانیت میں بدلنے سے روک رہا ہے لیکن اس کا حوصلہ ہے کہ ٹوٹتا ہی جارہا ہے۔کل کسی سے چیٹ ہورہی تھی تو اس نے مجھے کسی بات پہ کہا کہ ” بائی پولر میں ہوں اور سوئنگ تم ہوتے رہتے ہو ” اور وہ بیچارا کہتا رہا کہ اٹ از نارمل ۔لیکن میں نے اسے جو منہ میں آیا کہہ ڈالا ۔ ویسے وہ ٹھیک کہتا تھا کہ میں تو اس سے زیادہ بائی پولر نکلا ۔
یار ! صحافی شافی ، کارڈ والی بدمعاشی ، اور نجانے کیا کچھ یہ سب کچھ ميں نے کبھی نہیں کرنا چاہا تھا اور نہ کرتا ہوں لیکن یہاں آکر آکر کچھ دن مرے ساتھ رہو تو تمہیں اندازہ ہو کہ یہاں لوگوں کو بھوک اور بے وسیلہ ہونے نے کیسا ابنارمل کرڈالا ہے اور بس یہاں جلوت میں سب اچھے اور خلوت میں سب حیوان بنے ہوئے ہیں اور اب تو جلوت میں بھی اس حیوانیت کی رونمائی ہونے لگی ہے۔ ویسے کیا تمہارے ہاں بھی کسی خاتون دانشور سے بحث کرتے ہوئے کوئی مولوی سیاست دان اتنا غصّے میں آتا ہے کہ اس کو ” شلوار اتارنے ” کی دھمکی دے ڈالتا ہو یا پارلیمان میں کوئی تھری پیس سوٹ پہنے آدمی کسی عورت کی جسامت کو ” ٹریکٹر ٹرالی ” سے تعبیر کرتا ہوا پایا جاتا ہے ؟ یار یہاں جو انقلاب کرنے نکلے تھے وہ "وڈے وکیل ” بنے لاکھوں کی تنخواہیں پاتے ہیں ، ایل پی جی کے کوٹے لیتے اور ” ریاست ہوگی ماں جیسی ” گاتے پھرتے ہیں ۔ اور کامریڈ ” چودھری ،جٹ ، شیخ ، سید ” بنے پھرتے ہیں ۔ایسے میں کہاں گوریلا بنتا اور کہاں فلاسفی پڑھاتا ۔یہ جو زندگی کی تلخ حقیقت ہے یہ کہیں جانے ہی نہیں دیتی ۔
بلقیس ! تم سے اور بہت کچھ کہنے کو دل کررہا ہے کیونکہ تم نے مرے اندر کی پھانس کو نکالنے کا سامان آج کردیا ہے تو سنتی جاؤ اور سر دھنتی جاؤ کہ لوگ کیسے کیا سے کیا ہوجاتے ہیں ۔ مگر اب بات چند لفظوں ميں ختم کرتا ہوں کہ میں یہاں جھک مار رہا ہوں اور اسے یہاں دانشوری بھی کہا جاتا ہے۔

حالیہ بلاگ پوسٹس