تحریر : شریں قدوسی
ترجمہ و تخلیص : عامر حسینی
نوٹ : شریں قدوسی افغان نژاد امریکی شہری ہیں جو خود کو صوفی کہتی ہیں اور ان کی والدہ پاکستانی جبکہ والد افغانی تهے اور یہ سوویت یونین کے افغانستان آنے پر وہاں سے پاکستان منتقل ہوئے – وہاں سے یہ ایران گئے اور ایران سے ترکی اور ترکی سے جرمنی اور جرمنی سے امریکہ اور شریں قدوسی کیسے قدامت پرست ، بنیاد پرست تعبیر سے اصلاح پسندی کی جانب آئیں وہ اپنے ایک مضمون میں بیان کرتی ہیں
Those were an uncomfortable few years as I tried to reconcile my upbringing with the questions that began surfacing after 9-11. I didn’t struggle with identity because as a transient early on, the idea of a pegged concrete identity was smashed. You adapted to new ideas and they became a part of you. My family wasn’t so flexible, perhaps because they weren’t as young when we started immigrating. They’d already formed an identity. For me, a set identity is a prison. To say I am just one thing or another would be like walking into a cage. There are markers I’d picked up along the way that would act as guides, but I wasn’t confined by them either. Sufism was one of those markers.
In seeking answers, I stumbled across Sufism – and I knew I’d found home. Considering a third of all Pakistanis are Sufi, and that Afghanistan has its own diverse tradition of shaman-ism and Sufism, it’s tragic that it took so long to be aware of a rich cultural heritage that housed Islam’s mystical branch.
وہ کہتی ہیں کہ
There are many Muslim reformers and voices for humanity who understand we need to take on the theology to defeat radical Islam and Islam-ism. People have their own reasons for why they engage in this work. For me, it’s about divine purpose – not just my purpose in answering the call, but working to help usher humanity toward the next phase of consciousness. To do that, we need as many disruptor as possible within Islamic faith and culture; we need to harness every opportunity to activate change agents. We need to find and awaken others, and set them free.
شریں قدوسی کا تازہ ترین مضمون ” کاونٹر جہاد ڈاٹ اوآرجی ” میں شائع ہوا ہے اور اس میں شریں قدوسی نے امریکی معاشرے میں بالخصوص اور مسلم سماجوں میں بالعموم "انسانی حقوق اور اسلام ” بارے ابهرنے والے مباحثے کا جائزہ لیا ہے اور اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں – قلم کار کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے لیکن مکالمے کو آگے بڑهانے کے لیے اسے شایع کیا جارہا ہے –
……………..
یہ 2016ء میں موسم گرما تها جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسا لمحہ آیا جب اسلام کے تحت انسانی حقوق کے سوال کو قومی سطح پہ توجہ مل گئی -12جون 2016ء کو عمر متین نے ایک ہم جنس پرست کلب میں فائرنگ کرکے 50 افراد کو ہلاک کردیا اور اس حملے کو ہم جنس پرستوں پہ جہادی حملے کے طور پہ دیکها گیا-یہاں یہ افواہیں بهی تهیں کہ متین خود بهی کچل ڈالنے والی ہم جنس پرستی سے نبرد آزما تها-
بہت سے سیکولر اور روائیت پسند مسلم امریکیوں نے قومی سطح پہ انسانی حقوق زیر اسلام کے سوال پہ مرکوز ہونے والی توجہ کو ” گن رائٹس ” اور "نسل پرستانہ تناو ” کی جانب موڑنے کی کوشش کی اور بے ساختہ اس بات سے انکار کرنے کی کوشش بهی کی کہ اسلام ہم جنس پرستی کو قابل سزا جرم گردانتا ہے -مری اپنی پرورش بطور ایک افغان اور جنوبی ایشیائی مسلم کے ایک مختلف تصویر بناتی ہے جوکہ لاکهوں مسلمانوں کو دیکهنے کا آئینہ ہوسکتی ہے-ان کمیونٹیز میں ، ہم جنس پرستی کو ایک بیماری خیال کیا جاتا ہے اور پهر ان کے انسانوں جیسا سلوک نہ ہونے کا جواز بهی فراہم کیا جاتا ہے -امریکہ میں اگرچہ ہم جنس پرست مسلمانوں کو کرین کے آگے لٹکاکر پهانسی نہیں دیی جاتی جیسے ایران میں ہوتا ہے مگر اکثر دوسرے طریقوں سے ان کو سزا دی جاتی ہے-ان کے خاندان ان کو خصی کردیتے ہیں-ان کا جنسی رجحان ان کی شناخت اور بطور فرد کے ان کی خودمختاری پہ چهاجاتا ہے – اور پهر اکثر جنسی بهپتیاں ان لوگوں کو شرمسار کرنے کے لیے کسی جاتی ہیں -مخالف صنفوں میں زبردستی ہم جنس پرستوں کی شادی عام سی بات ہے-میری کمیونٹی کے ارکان مجهے کافی عرصے تک "ڈائک dyke” کہتے رہے کیونکہ میں "ڈیٹ ” پہ جانا پسند نہیں کرتی تهی -اور مسلم کمیونٹی کے اندر ایک ڈائک ہونے کا مطلب عورت کو ہر میرٹ سے محروم کرنا اور اس کی آواز کو گم کردیا جانا ہوتا ہے ، ایسے جیسے آپ کے کہے کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو –
یہ جو امریکی مسلمانوں کا ردعمل ہے جو انکار کا قالین ڈالتا ہے اور مبہم ہے مسلم امریکیوں کی خصوصی طور پہ اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی پیچیدہ صورت حال کو ظاہر کرنے سے قاصر ہے –
اس طرح کی مبہم اور انکارکرنے والا ردعمل اسلامی متون یا تاریخ کی زهانت مندی اور گہری عکاسی نہیں کرتا-اسلامی تاریخ ہم جنس پرستی کی جانب ایک روادار رویہ کو ظاہر کرتی ہے اور اس کا ثبوت ہمیں مسلم آرٹ اور ادب میں بخوبی مل جاتا ہے – مسلم تاریخ میں ہم جنس پرستی کی جانب رویہ پہ اس قسم کا مکالمہ اورلینڈو گے نائٹ کلب پہ حملے کے بعد سامنے آنے لگا ہے – کلاسیکل طریقے سے تربیت پائے مسلم امام یہ کہیں گے کہ قرآن کے اندر سوائے ایسے شہروں اور علاقوں جن کو غیر اخلاقی کہا گیا میں پائی جانے والی علت کے زکر کے کہیں براہ راست مذمت نہیں ہے-پهر بهی ان شہروں کو ہم جنس پرستی کے میزبان شہروں کے طور پہ پیش کیا گیا اور اس طرح سے ہم جنس پرستی کو اخلاقی طور پہ زوال پذیری کی حالت سے جوڑا گیا، یہاں تک کہ اگر غیر ارادی طور پہ بهی اس میں ملوث ہوا جائے – جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو شرع متعین ہوئی اس میں فعل لواطت کی سخت ترین سزا رکهی گئی -جس کے بارے میں بنیاد پرستوں کا استدلال یہ ہے کہ یہ سزا چند شرائط اور تحدیدات کے ساته ہے – یہ ایک ناکام دلیل ہے جسے میں جلد ہی واضح کروں گی -.
ایک عام مسلمان آپ کو جب یہ بتاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس پہ زمان و مکان اثر انداز نہیں ہوتے تو وہ دراصل اسلام کی تاریخ سے لاعلمی کا ثبوت دے رہا ہوتا ہے – حقیقت یہ ہے اسلام بہت زیادہ هائبرڈ اور ارتقاء پذیر اور مسلم بدلنے والے مذاہب میں سے ایک ہے – یہ بہت زیادہ پیچیدہ اور مرکب مذہب ہے -آج جسے اسلام کہا جاتا ہے وہ تو صرف اسلامی قانون ہے اور وہ تعبیر ہے جسے ضوابط کی شکل میں مذہب کے اندر متعارف کرایا گیا – جسے شرع یا شریعت کہا جاتا ہے اسے کئی صدیوں میں مسلم فقہا نے مدون کیا -آج مغرب اور مشرق کے درمیان تہذیبوں کے درمیان تصادم کے علاوہ ایک تصادم مسلم روائت پسند اور ترقی پسندوں کے درمیان بهی ہے – یہ تصادم ان پرانے بزعم خویش محافظان اسلامی سکالرز جوکہ اسلامی متون کی بہت تنگ اور ظاہری تعبیر پہ یقین رکهتے ہیں اور آئیڈیالوجی کو تهیالوجی کے اندر ضم کرڈالتے ہیں اور نئے محافظان اصلاح پسند اور ناقد مسلم سکالرز کے درمیان ہے جو ارتقاء پہ یقین رکهتے ہیں – اصلاح پسندی کی یہ جو لہر ہے دراصل نئے معتزلی اصلاح پسندوں کی لہر ہے – معتزلہ اسلام کے حقیقی آزاد خیال دانشور تهے جن کا جنم دسویں صدی عیسوی میں عراق کے شہر بصرہ میں ہوا تها – ہم فکری دہشت گردی کی بعض انتہائی منظم اشکال کو بے نقاب کرنے جارہے ہیں جو نہ صرف مسلم بنیاد پرست ازهان و قلوب میں جمادی گئی ہیں بلکہ ان کو ایسے اداروں میں بهی خوب جمایا گیا ہے جو کہ اسلامی دنیا میں فکری طور پہ مشعل راہ سمجهے جاتے ہیں – اور ان کو اسلام کی ممکنہ بہتر تعبیر کا مرکز خیال کیا جاتا ہے –
مصر کی الازہر یونیورسٹی ان میں سے ایک ہے – اسلامی تحقیق کے حوالے سے اس ادارے کی اتهارٹی کو سب سے بڑا خیال کیا جاتا ہے مگر یہ ادارہ حقیقی اسلامی فکر کا Mausoleum ہے اور اس کا وائس چانسلر احمد الطیب نامی شیخ ہے جو اس میزولویم کا نگران ہے-
الطیب حال ہی میں مڈل ایسٹ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ گئے جبکہ ہم جنس پرست کلب پہ حملے کو چار روز ہوئے تهے – اور وہاں ان کا موضوع گفتگو "ارتداد ” تها – الطیب نے تصور انسداد ارتداد کا دفاع کیا اور کہا کہ اس سے مراد مذہبی عقائد کا ترک کرنا یا مذہبی عقائد کی مذمت کرنا ہے اور اسلام اسے قابل سزا فعل گردانتا ہے –
” اگر ارتداد ایک جرم ، تخریب یا انتہائی سطح کی بغاوت کی شکل میں ہو تو یہ فطری بات ہے کہ اسے ایک جرم کے طور پہ لیا جائے گا اور اس کے خلاف لڑائی ہوگی اور اس کی خاص سزا ہوگی-لیکن اگر ارتداد کسی خطرے کو پیدا نہیں کرتا یا معاشرے کے خلاف جرم نہ ہو تو مرا خیال ہے کہ معاشرے کو اس شکل میں پیدا ہونے والے ایشو سے معاملہ نہیں کرنا چاہیے- ہمیں اس بات سے باخبر رہنا چاہیے کہ انسانی حقوق کے تصورات ٹک ٹک کرتے ٹائم بم ہیں – مری رائے جس کا میں نے مغرب میں بهی اظہار کیا تها کہ کوئی بهی مسلم سماج "جنسی آزادی ، ہم جنس پرستی وغیرہ وغیرہ” کو کبهی بهی قبول نہیں کرسکتا – مسلم معاشرے اس طرح کے کاموں کو بیماریاں خیال کرتے ہیں اور ان کے خلاف لڑنا اور ان کے علاج کو ضروری خیال کرتے ہیں –
الطیب کے خیالات وسیع مسلم کمیونٹیز اور مسلم کلچر کا عکاس ہیں اور یہاں تک کہ سیکولر مسلم خاندان بهی یہی خیالات رکهتے ہیں – گهریلو سطح پی یہ رویہ دکهاتا ہے کہ والدین کیسے اپنے بچوں کی حقیقت کی صورت گری کرتے ہیں – ہمیں سکهایا جاتا ہے کی محبت اور قبولیت منظور شدہ ضابطے اور کرداروں کے ساته مشروط ہے – آپ کی بطور ایک انسان قدر اس بات سے مشروط ہے کہ آپ کس قدر منظور شدہ رویوں اور اقدار کے ساته مطابقت پیدا کرتے ہیں اور کتنا آپ تابعداری کرپاتے ہیں –
محبت مشروط ہے – قبولیت مشروط ہے – آپ کی آزادیاں مشروط ہیں – یہ بدمعاشی ہے فکر تو نہیں ہے – اسلام پسند جیسے سی اے آئی آر ہے اور سیکولر مسلمان بهی ایسے "بیانیوں ” کو بڑهاتے ہیں جس میں خاص قسم کی گفتگو کی جاسکتی ہے – تمام اقلیتی یا مطابقت پذیری سے محروم Non-conformist خیالات پہ حملہ کرنا ضروری خیال کیا جاتا ہے ، ان کو خاموش کرایا جانا یا ان کو شرمسار کیا جانا ضروری خیال کیا جاتا ہے –
یہ ایک مربوط ، منضبط پیٹرن ہے کردار کی شکل میں جوکہ بنیادی طور پہ مغربی اقدار اور مغربی طرز زندگی سے متصادم ہے ، ایسی زندگی جہاں آزادی مشروط نہیں ہے – یہ زہنیت اور کردار انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے بهی متصادم ہے جسے بڑے پیمانے پہ قبول کرلیا گیا ہے-جو اس بات کو تسلیم کرتا ہے کی آزادی تمام لوگوں کا بنیادی حق ہے –
اور جب ہم آگے بڑهتے ہیں اور اپنے سامنے آنے والے ایشوز جیسے امیگریشن ، ریڈیکل اسلام ، اسلام ازم اور یہاں تک کہ خارجہ پالیسی ہے تو ہمیں وہ حقیقت پتہ ہونی چاہیے جس کا ہمیں سامنا ہے- ہمیں ایک مسخ کردہ ،ٹوٹی پهوٹی تهیالوجی کا سامنا ہے جسے باقاعدہ قانون بنادیا گیا ہے-جسے مسلسل مسخ کیا جارہا ہے اور اپنے فائدے کے لیے اس کو بدلا جاتا رہا ہے-اس کو دہشت پهیلانے اور اسلام کی ایک ظاہریت پسند اور نام نہاد پیورٹن تفہیم کے طور پہ پیش کیا جاتا رہا ہے-یہ مسخ کرنے کا عمل آج بهی الطیب اور سی آئی اے آر جیسے لوگوں کے هاتهوں جاری ہے -یہاں کہ نام نہاد نرم خو اسلام پسند جو لبرل معاشروں میں ایسی تخریب کاری میں کمال مہارت رکهتے ہیں یہی کام کررہے ہیں –
الطیب خود کہتا ہے :
” مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی اور مغربی تہذیبیں مختلف ہیں – ہماری تہذیب کی بنیاد مذهب اور اخلاقی اقدار پہ ہے جبکی ان کی تہذیب کی بنیاد شخصی آزادیوں اور کچه اخلاقی اقدار پہ ہیں ”
آپ آج جو دیکھ رہے ہیں وہ ایسی اسلامی بالادستی ہے جو آزادی کو ایک خطرہ ، ٹک ٹک کرتا ٹائم بم خیال کرتی ہے – یہ ایسی بالادستی ہے جو کہ صرف انسانی خودمختاری کو اپنے لوگوں کے اندر عام کرنے کی ہی انکاری نہیں ہے بلکہ یہ اپنے سے متصادم ہر آئیڈیالوجی کا انکار کرتی ہے -اور اس میں ہم سب کو شامل کرتی ہے -یہ کوئی ایسی آئیڈیالوجی نہیں ہے جو راتوں کو سر اٹهاتی ہو ایک گروپ سے دوسرے گروپ کو منتقل کی جاتی ہو – ہمارا مقابلہ ایک ہلاکت خیز اور طاقتور آئیڈیالوجی سے ہے جوکہ اپنے آپ کو کسی بهی دوسرے طرز زندگی سے برتر اور بہترین خیال کرتی ہے – یہ ایسی آئیڈیالوجی نہیں ہے جوکہ اپنے آپ کو دوسروں کے ساتھ جذب کرنے پہ یقین رکهتی ہو یا پرامن طریقے سے مل جل کر رہنے پہ یقین رکهتی ہو- یہ صرف غلبہ پانے اور دوسرے خیالات کو بچهاڑنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn