حال ہی میں تکفیری دہشت گرد تنظیم اہلسنت والجماعت کے دو مزید رہنماء مولوی رب نواز حنفی دیوبندی اور مولوی عبدالولی دیوبندی کو جیل سے رہائی مل گئی جبکہ دوسری جانب شکار پور سندھ میں امام بارگاہ پہ خودکش حملے میں مدد دینے والے ملزمان پولیس اہلکاروں کی ملی بهگت کے سبب عدالت سے رہا کردیے گئے کیونکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل سکا تها-
حال ہی مجهے کراچی لانڈهی میں جمعیت علمائے اسلام سے تعلق رکهنے والے ایک جید دیوبندی عالم نے بتایا کہ اہلسنت والجماعت /سپاہ صحابہ پاکستان کے قائدین اور کارکنوں کی جیلوں سے رہائی مبینہ طور پہ وفاقی حکومت سے ایک باقاعدہ ڈیل کا حصہ ہے اور اس کے پس پردہ اسٹبلشمنٹ کے اندر "تزویراتی گہرائی ” کی پالیسی چلانے والی قوتوں نے بهی اپنا حصہ ڈالا ہے-جمعیت علمائے اسلام ( فضل الرحمان گروپ ) سے تعلق رکهنے والے یہ عالم دیوبند میں تکفیری و خارجی زهنیت رکهنے والے رجحان کے انتہائی سخت مخالف ہیں اور نام نہاد جہادیوں کو پراکسیز کے علاوہ کچھ خیال نہیں کرتے-ان کا کہنا تها کہ پاکستان کےاندر سعودی نواز لابی ایک طرف تو افغانستان کے حوالے سے اپنی غیرمقبول ہوتی ناکام پالیسی کو جاری رکهنے کے لیے ان مہروں کو پریشر گروپ کے طور پہ پهر سے استعمال کررہی ہے جن کو پہلے بهی پراکسیز کے طور پہ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور دفاع پاکستان کونسل کا احیاء اور بڑهتی سرگرمیاں اس ہی پالیسی کا اظہار ہے- ان کا کہنا تها کہ دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکهنے والے نوجوانوں کو مسلم لیگ نواز ، پاکستان تحریک انصاف ، ملٹری اسٹبلشمنٹ میں ضیاء الحق کی باقیات اور سعودی نواز جرنیل شاہی جہاد کے نام پہ پیدل سپاہیوں کے طور پہ استعمال کررہی ہے جبکہ اہلحدیث نوجوانوں کو بهی اسی مقصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے-اور دیوبندی و اہلحدیث نوجوانوں کو پیدل سپاہی بنانے میں تکفیری تنظیم اہلسنت والجماعت ، جمعیت علمائے اسلام-سمیع الحق ، جمعیت علماء اسلام نظریاتی گروپ،جماعت دعوہ، جماعت اسلامی اور دیگر کئی گروہ ملوث ہیں اور ان سب کے پیچهے عسکری ، سیاسی ، عدالتی اسٹبلشمنٹ کی وہ پرتیں شامل ہیں جنهوں نے "تزویراتی گہرائی اور جہاد ازم ” سے خوب کمائی کی ہے اور ان کے مفادات اس نام نہاد جہادی و تکفیری ایمپائر سے جڑے ہوئے ہیں-
اسٹبلشمنٹ کے اندر تیزی سے کم از کم از دائیں بازو کے مذہبی حلقے کے اندر اپنے ٹوڈیوں کو پهر سے مضبوط کرنے اور ان کے زریعے سے اپنی غیرمقبول پالیسیوں کو جاری رکهے جانے پہ مجبور کیے جانے کا خیال مقبول ہوتا جارہا ہے اور اب کسی حد تک وہ لبرل بهی مایوس ہوتے جارہے ہیں جنهوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور پہ حملے کے بعد "نیشنل ایکشن پلان ” اور آپریشن ضرب عضب کے آغاز پہ یہ کہنا شروع کردیا تها کہ جہاد ازم ، تزویراتی گہرائی کی پالیسی کو محدودکیے جانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور انہوں نے بهی اسٹبلشمنٹ کے اندر باقاعدہ پالیسی شفٹ کے دعوے کیے تهے-لیکن اب ان پہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو جماعت دعوۃ ، اہلسنت والجماعت ، سمیع الحق کی پارٹی کے ساتھ ساتھ دیوبندی اور اہلحدیث مذہبی پرتوں میں عسکریت پسند ، جہادازم پہ عمل پیرا گروہوں کو ہی اپنے مقاصد کو آگے بڑهانے والے طوطے خیال کیا جارہا ہے-اس مقصد کے لیے زہن سازی کا کام میڈیا پہ اپنی ترجمان آوازوں سے بهی لیا جارہا ہے اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر ضیاء الحقی باقیات اب دفاعی کی بجائے جارحانہ انداز میں سامنے آئی ہے اور اسے مسلم لیگ نواز ، پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ دیگر دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں ، صحافتی ایوان ، عدالتی غلام گردشوں کے اندر بیٹهے تکفیری و جہادی لابی کی تائید و حمایت بهی حاصل ہے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ اس حوالے سے کافی حد تک پهر سے اس روش پہ عمل پیرا ہے جو اس نے 80ء کی دہائی سے لےکر نائن الیون تک اختیار کیے رکهی تهی اور یہ اب بهی اس پالیسی کی افادیت کو ثابت کرنے پہ تلی ہوئی ہے-
یہاں پہ وہ سیاسی ، صحافتی ،سماجی و مذهبی حلقے جنہوں نے افغان جہاد پروجیکٹ ، جہاد کشمیر پروجیکٹ ، تکفیر پروجیکٹ ، سعودیزائزیشن کی مخالفت کی اور انہوں نے ایک متبادل کی بات کی ان کو ملکر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر وہ دفاع پاکستان کونسل جیسے پلیٹ فارم سے ہونے والے کٹھ پتلی ایکٹوازم کے مقابلے میں بهرپور عوامی احتجاجی ایکٹوازم کیوں سامنے نہیں لاسکے؟
میں سمجهتا ہوں کہ تکفیر ازم ، جہاد ازم کے سب سے بڑے متاثرہ گروہ سنی بریلوی اور اہل تشیع کے ساته المیہ یہ ہوا ہے کہ ان کی جو سیاسی مذہبی قیادت اور تنظیمیں ہیں ان کے ہاں موقعہ پرستی یا خوش فہمی موجود تهی اور ہے کہ پوسٹ نائن الیون صورت حال میں ملٹری اسٹبلشمنٹ کے ہاں ان کی اہمیت اور جگہ دیوبندی -سلفی جہادی پراکسی سے زیادہ بن جائے گی اور ان کو باقاعدہ کوئی مرکزی کردار مل جائے گا-اور اس قیادت نے اپنے حلقہ اثر کی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی غیر مشروط حمایت زہن سازی میں اہم کردار ادا کیا جبکہ اس قیادت نے کہیں بهی ریاست کی سب سے طاقتور ایجنسی یعنی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی جانب سے جہادی و تکفیری دیوبندی و سلفی قوتوں کی سرپرستی اور میکنزم کا جائزہ ہی نہ لیا اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے اندر سعودی نوازی کے رحجان کو اس طرح سے ننگا نہ کیا جیسے وہ مسلم لیگ نواز سمیت سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ننگا کررہے تهے یا عدالتی و صحافتی اسٹبلشمنٹ کے اندر مہروں کو بے نقاب کررہے تهے اور یہ روش ابتک موجود ہے اور افسوسناک بات یہ ہے کہ بریلوی اور شیعہ کمیونٹی کی سب سے زیادہ متحرک حلقے مثال کے طور پہ طاہر القادری ، حامد رضا ، راجہ ناصر ، امین شہیدی ودیگر بهی ملٹری اسٹبلشمنٹ کی دیوبندی اور سلفی جہادسٹ قوتوں کے لیے نرم گوشہ رکهنے پہ ان کو اتنی بهی آنکهیں نہ دکهاسکی جتنی دیوبندی و سلفی قیادت نے دکهائی – وفاق المدارس سے لیکر دیوبندی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے ملٹری اور سیاسی اسٹبلشمنٹ کو جہادسٹ پالیسی سے شفٹ کرجانے کی نمائشی حرکت سے باز رکهنے کے لیے پهرپور مزاحمت دکهائی اور وہ کامیاب رہے-اور سب سے زیادہ نقصان بوٹ پالش پالیسی کا یہ دیکهنے میں آیا کہ بریلوی اور شیعہ کمیونٹی کے اندر سے جہاد ازم ، تکفیریت ، عسکریت پسندی ، مذهبی جنونیت کے خلاف روشن خیال ،جمہوری ترقی پسند ڈسکورس برآمد ہونے کی بجائے فرقہ پرست ، تنگ نظر اور دوسری تکفیریت اور عسکریت پسند رحجان کو مقبولیت مل گئی اور یہ دونوں مکتبہ فکر کے ماننے والے اور زیادہ اپنے ہی اندر بند ہوکر رہ گئے اور ان کی جمہوری سیکولر قوتوں کے ساته جڑت بهی کمزور پڑ گئی اور مجهے شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان دو کمیونٹیز کو کم از کم اپنی روش پہ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور ایک ایسے متبادل کی ضرورت ہے جو پاکستان میں جہاد ازم ، تکفیریت ، سعودیائے جانے ، تکفیری دیوبندیائے جانے کے پروجیکٹ کی توسیع کرنے کی موجودہ کوششوں کے آگے روک لگانے کے لیے عوامی سیاسی بنیادوں کو مضبوط کرے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn