22 جون کو امجد صابری کے بہیمانہ قتل نے پوری قوم کو ہلا کررکھ دیا۔ان کی درد ناک موت نے تقریبا ہر آنکھ کو ہی اشکبار کر دیا اور یوں لگا کہ پاکستان میں قتل کرنا تو جیسے بچوں کا کھیل ہے کہ کوئی بھی دن دیہاڑے اسلحہ لہراتا ہوا آئے اور کسی کو بھی ٹھکانے لگا کر چلتا بنے۔صابری کی نا گہانی موت نے جہاں اور بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے وہاں یہ سوال بھی بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا ہمارے سکیورٹی ادارے بالخصوص رینجرزاپنے فرائض بخوبی سر انجام دے رہے ہیں یا محض سب اچھا ہے کی خبر دینے اور چین کی بنسی بجانے میں مصروف ہیں۔اور رہ گئی پولیس تو اس کی تو بات ہی مت کیجئے کیونکہ وہ وزیر اعلیٰ صوبہ سندھ کی طرح شاہانہ مزاج رکھتی ہے اور سندھ کے وڈیروں،وی آئی پیزاور وزراء کے آگے سلام ٹھوکنے کے علاوہ ان کی ذمہ داریوں میں دن رات مال بنانا اور مل بانٹ کے کھانا شامل ہے۔سوال یہ نہیں کہ امجد صابری کے قاتل کس فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی جان لینے کے پیچھے ان کے کیا مقاصد کارفرما تھے بلکہ سوال تو شاید یہ ہے کہ مذہبی مسلح ونگز کو آخر لگام کب دی جائے گی۔سر عام دوزخ اور جنت کے سرٹیفکیٹ فراہم کرنے والوں کی ریاست کب تک سر پرسرستی کرے گی اور عوام کے ساتھ اپنی اولاد جیسا رویہ کب اپنائے گی۔ہماری یہ کتنی بڑی بد نصیبی ہے کہ گزشتہ دہائی سے جاری دہشت گردی کی لہر تھمنے میں ہی نہیںآرہی اور اپنے پیاروں کی لاشوں کو کندھا دینے والے ااور ان کی یاد میں آنسوبہانے والے مظلوم اب تو مایوسی اور نا امیدی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔اور دوسری طرف کالعدم تنظیمیں کھلے عام جلسے جلوسوں کے ذریعے فنڈاکٹھا کرنے اور لوگوں میں تشدد پسند نظریات کو فروغ دینے میں مصروف ہیں اور اسی پہ بس نہیں بلکہ ریاست کی رٹ کو کھلے عام چیلنج کیا جا رہا ہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مسلح افواج اور ریاستی ادارے تخریب کار عناصر کا تو ڈٹ کر مقابلہ کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں مگر ان نرسریوں کا خاتمہ کیوں نہیں کرتے جہاں ایسی سو چ کی حامل طاقتیں اپنے منشور کے مطابق نوجوانوں کی ذہنی آبیاری کرتی ہیں۔ان ملک دشمن عناصر کی اس چالاک اور مکار سوچ کو داد دینا پڑے گی جہان بڑی آسانی سے ہر قتل وہ ہندوستان کے کھاتے میں ڈال کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش میں کامیاب نظر آتے ہیں اور آخر کامیاب کامیاب کیوں نہ ہوں،ان کو ہندوستان اور اسرائیل کے خلاف اس موقف کو پروان چڑھاتے ہوئے پچاس سال سے ذیادہ کا عرصہ لگا ہے۔
ارباب اقتدار سے یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ کیا ایک وی آئی پی یا ایک وزیر کی جان عوام سے زیادہ قیمتی ہے کہ ریاست کے بیشتر وسائل اسکی سکیورٹی پہ جھونک دئیے جاتے ہیں۔اگر پچھلے پندرہ دسالوں کا ڈیٹا اٹھا کر دیکھیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی کہ عوام کے مقابلے میں مرنے والے وی آئی پیز کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔وقت آ گیا ہے کہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ عوام کی جان و مال کی حفاظت زیادہ اہم ہے یا غیر ملکی دورے،ترجیحات صحت و تعلیم کو دی جانی چاہئے یا اخبارات میں اندھا دھند اشتہارات چھاپ کر اپنی کامیابیوں کی تشہیر کو۔ہم جیسے عوام کبھی تقریر کی صورت میں تو کبھی تحریر کی صورت میں حکمرانوں پر تنقید کر کے ہی اپنا غصہ ٹھنڈا کر سکتے ہیں مگر اس سے ضمیر مطمئن نہیں ہوتابلکہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوا جائے اور ملک کو در پیش مسائل کا بحیثیت قوم حل دریافت کیا جائے۔ایک ادنیٰ شہری ہونے کی حیثیت سے مذہبی تعصبا ت اور فرقہ وارانہ نفرتوں کے خاتمے کے لئے درج ذیل باتوں کو حل کے طور پر پیش کرنا چاہوں گا۔۔
۱۔۔ نصابی کتابوں سے مذہبی تعصبات اور فرقہ ورانہ نظریات کو نکالا جائے۔مختلف قوموں،فرقوں اور مذاہب کے درمیان توازن اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیئے ایسے اسباق کو شامل کیا جائے جس سے مخالف گروہ کے نکتہء نظر کو سمجھنے میں مدد ملے۔
۲۔۔اردو میڈیم ،انگلش میڈیم اور پبلک و پرائیویٹ کے نظام کو ختم کر کے یکساں تعلیمی نظام نافذکیا جائے جب کہ تعلیم حکومت کی براہ راست ذمہ داری ہو اور حکومت کے جاری کردہ سلیبس کے علاوہ کوئی سلیبس نہ پڑھایاجائے۔
۳۔۔مدارس میں جاری تعلیمی نظام کو دور حاضر کی جدید ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے اور مدارس کے طلباء کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید سطح کی دنیاوی تعلیم دی جائے،ان کو نہ صرف انفارمیشن ٹیکنالوجی سے روشناس کرایا جائے بلکہ دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق با عزت روزگار کمانے کے قابل بنایا جائے
۴۔۔ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیاکے ذریعے عوام میں سیاسی اور سماجی حقوق بیدار کیا جائے،بالخصوص مخالف نکتہء نظر کو برداشت کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے نیز عدم برداشت کا خاتمہ اور رواداری کو فروغددیا جائے
۵۔۔نصاب میں من گھڑت تاریخ شامل کرنے کی بجائے حقیقت پر مبنی حالات و واقعات کو جگہ دی جائے تا کہ نوجوان نسل مسائل کے اسباب کے بارے میں جان کر ان کا سد باب کر سکے
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn