فیض احمد نے فیض نے کہا تھا
متاع لوح وقلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میں ڈبولی ہیں ، انگلیاں میں نے
زبان پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے
قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی رحلت کے بعدمحترمہ فاطمہ جناح اور اس وقت کی حکومت کے درمیان سرد مہری کا دور جاری تھا، قائد کی دو برسیاں آئیں اور گزرگئیں، محترمہ فاطمہ جناح قائد کی برسی کے موقع پر قوم سے خطاب نہ کرسکی تھیں، وجہ مگر یہ تھی کہ وہ چاہتی تھیں کہ انکی تقریر کے متن کے کسی بھی حصے کوسنسر نہ کرنے کی ضمانت دی جائے، حکومت کو اندیشہ تھاکہ کہیں ہم پر تنقید نہ ہوجائے، بالآخر محترمہ فاطمہ جناح، قائد کی تیسری برسی پر بغیر سنسرکے ریڈیو سے براہ راست خطاب کرسکتی تھیں، ہو ا یہ کہ تقریرنشر ہو رہی تھی کہ ایک مقام پر پہنچ کر اچانک ٹرانسمیشن بند کردی گئی، کچھ لمحے گزرنے کے بعد خو د بخود ٹرانسمیشن بحال ہوگئی، انکشاف یہ ہوا کہ محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر میں کچھ فقرے ایسے تھے جن میں حکومت پر تنقید تھی، حکومت کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم تھا کہ اپنے آپ کو تنقید سے بچانے کے لیے یہ بزدلانہ کام کر ڈالا کہ خطاب کے دوران ہی ٹرانسمیشن بند کر دی ، ریڈیو پاکستان کا موقف یہ تھا کہ ٹرانسمیشن میں رکاوٹ کی وجہ یہ تھی کہ اچانک بجلی ’’فیل ‘‘ہوگئی تھی مگر عوام اس بات پر یقین کرنے کو بالکل بھی تیار نہ تھے، سب کی سوچ کا محور یہی تھا کہ محترمہ کی تقریر میں ضرور ایسی بات تھی کہ جسے حذف کرنے کیلئے یہ سار اڈھونگ رچایا گیاتھا، اتنا نقصان شاہد محترمہ کی تقریر سے نہ پہنچتا جتنا’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا‘‘کے مصداق اس واقعہ نے خودحکومت وقت کو پہنچایا تھا، ابھی نہ سمجھنے نہ سمجھانے کا ’’معمہ ‘‘حل نہ ہوا تھا کہ 16اکتوبر 1951کی شام کے چار بج کر چھ منٹ پر لیاقت باغ راولپنڈی میں لیاقت علی خان کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے ، بیگم رعنا لیاقت کے مطابق، لیاقت علی خان راولپنڈی میں اپنی زندگی کی تاریخی تقریر کرنے والے تھے، مگرON the Spot ہوا یوں کہ جلسہ گاہ میں ڈیوٹی پر مامور راولپنڈی کے سپرنٹنڈنٹ پولیس نجف خان نے اپنے بہادر سپوتوں کو للکار کر حکم دیا کہ لیاقت علی خان پر گولی چلانے والے قاتل کو فوراًمار ڈالو، چنانچہ جیسی کرنی، ویسی بھرنی ، اکبر نامی شخص کو گولی مار کر وہیں ڈھیر کر دیاگیا، ہونا تو یہ چاہے تھا کہ اس شخص کو گرفتار کیاجاتاساتھ ہی یہ راز بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا کہ وہ روالپنڈی کیوں آیاتھا، سیکورٹی کے حصار سے بچ کر اگلی صفوں تک اُسے کس نے پہنچایا، اس حملے کاماسٹر مائنڈکون تھا، وغیرہ وغیرہ۔۔مگر اس سپرنٹنڈنٹ کو اس ’’کارخیر ‘‘کا اجر یہ ملا کہ اسے ڈی آئی جی تک ترقی مل گئی، 2007 ء کے آخر میں بینظیر بھٹو شہید وطن واپس آئیں تو کراچی میں بم دھماکے کے ذریعے سینکڑوں جیالوں کو خون میں نہلا دیاگیا مگر اس کا سراغ نہ مل سکا، پھر 27دسمبر کو محترمہ بینظیر بھٹو کو اس وقت شہید کر دیا گیا جب وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں منعقدہ ایک جلسے سے خطاب کر کے واپس لوٹ رہی تھیں، مذمتی بیان جاری ہوئے ، آنسو بہائے گئے، تو ڑ پھوڑ کی گئی، اسی شہادت کے صدقے میں پیپلزپارٹی کی حکومت بھی قائم ہوگئی ، مگر پانچ سالہ دور اقتدار میں بطور صدر پاکستان ، زرداری صاحب نے پہلے یہ کہاکہ مجھے قاتلوں کاپتہ ہے مگر پھر یہ فرما کہ بی بی شہید کے خون کا قرض اتار دیا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے ، محترمہ کے چیف سکیورٹی آفیسر پہلے ہی ساتھ ہی وہاں سے ایسے غائب ہوچکے تھے جسے گدھے کے سر سے سینگ، ہوسکتا ہے کہ انہیں کچھ’’ الہام‘‘ ہوگیا کہ کچھ ہونے والا ہے، اس لیے بہتری یہاں سے رفوچکر ہونے میں ہی ہے مگر وزارت داخلہ کی بھاگ دوڑ سنبھالنا ان کے ’’مقدر ‘‘میں لکھا جاچکا تھا، آج نوسال گزرنے کے باوجود بھی قاتل پکڑنے کے بجائے ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے ‘‘کا نعرہ قوم کو سننا پڑتا ہے بقول شاعر
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
اور اب لیاقت آباد کے رہائشی، کروڑوں دلوں کی دھڑکن ، عالمی شہرت یافتہ قوال امجد فرید صابری کو دن دیہاڑے شہید کر دیاگیا، اس واقعہ سے دودن پہلے چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کو اغوا کیاجاچکا ہے اور اغواء کاروں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا، جس معاشرے میں انصاف دینے والے ہی بے انصافی کاشکار ہورہے ہوں اس معاشرے میں ایک عام آدمی کی حالت زار کو سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں، قانون کی حکمرانی کے بارے میں یہی کہا جاسکتاہے، کارخانہ ہے واں توجادو کا ،آپریشن ضرب عضب کو دو سال مکمل ہوئے ہیں جس میں بڑی کامیاں حاصل کی گئی ہیں ، شر پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے کراچی کے عوام کوہزاروں قربانیاں دینے کے بعد سکون کا سانس لینا نصیب ہواتھا مگر ایک مرتبہ پھر کراچی میں قتل وغارت گری کا بازار سرگرم ہے ،کراچی میں پیپلزپارٹی کو حکومت کرتے آٹھ سال ہوگئے ہیں، مگر حالات بدتر سے بدترین کے سفر کی جانب گامزن رہے ہیں، آج سترہ رمضان المبارک ہے، مجاہدین کرامؓ نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ابوجہل اور اسکے ساتھیوں کو جہنم واصل کیاتھا، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کابیان ہے کہ میں صف میں تھا کہ مجھ کو دو نوجوان نظر آئے، ایک نے مجھ سے کان میں پوچھا کہ ابوجہل کہا ہے، میں نے کہاکہ برادر زادے !ابوجہل کو پوچھ کر کیاکرے گا،بولا کہ ’’میں نے اللہ سے عہد کیا ہے کہ ابوجہل کو جہاں دیکھ لوں گا سے قتل کردوں گا یا خود لڑکر مارا جاؤں گا ‘‘ میں جواب نہیں دینے پایا تھاکہ دوسرے نوجوان نے بھی مجھ سے کانوں میں یہی باتیں کیں، یہ دونوں نوجوان ’معوذومعاذ‘ تھے ابوجہل کے بیٹے عکرمہ نے عقب سے آکرمعاذؓ کے بائیں شانہ پر تلوار ماری، جس سے بازو کٹ گیا، لیکن تسمہ باقی لگارہا، معاذؓ اسی حالت میں لڑ رہے تھے لیکن ہاتھ کے لٹکنے سے زحمت ہوئی تھی، ہاتھ کوپاؤں کے نیچے دبا کر کھنچا کر تسمہ بھی الگ ہوگیا ، اور اب وہ آزاد تھے، آنحضرت ؐنے حکم دیا کہ کوئی شخص جاکرخبر لائے، ابوجہل کاانجام کیاہوا؟حضرت عبداللہ بن مسعود نے جاکر لاشوں میں دیکھا تو زخمی پڑا دم توڑ رہاتھا، بولے تو ابوجہل ہے ؟’’اس نے کہاکہ ’’ایک شخص کو اس کی قوم نے قتل کر دیاتو یہ فخر کی کیا بات ہے ؟حضرت عبداللہ بن مسعود اس کا سرکاٹ کرلائے اور آنحضرت ؐکے قدموں پر ڈال دیا ،چنانچہ مسلمانوں کو تاریخی کامیابی حاصل ہوئی ، امجد صابری دعا کیے کرتے تھے کہ’’ بھر دو جولی میری‘‘آج واوقتاًان کی جھولی کروڑوں لوگوں کی دعاؤں اور سسکتے ہوئے آنسوؤں سے بھری جاچکی ہے، یہ آنسوؤں امجد کے لیے ضرور مغفرت کا باعث بنیں گے ، ایک طرف محبتیں اور دعائیں ہیں اور دوسری طرف جمعرات کا دن اور رمضان مبارک کی مبارک ساعتیں، وہ ساعتیں جن کا تعلق یوم الفرقان سے ہے۔ فن قوالی ہی نہیں ، امن، محبت ،رواداری اور ثقافت کا ایک تاریخی باب بند ہو گیا ، ظالموں نے کس حماقت کا ارتقاب کر ڈالا ۔
دوستوں کے ساتھ شیر کریں
- Click to share on Facebook (Opens in new window) Facebook
- Click to share on X (Opens in new window) X
- Click to share on WhatsApp (Opens in new window) WhatsApp
- Click to share on Tumblr (Opens in new window) Tumblr
- Click to share on Pinterest (Opens in new window) Pinterest
- Click to share on LinkedIn (Opens in new window) LinkedIn